بڑھتی ہوئی بے روز گاری ، ہوشربا مہنگائی کے ستائے ہوئےعوام کو اسٹریٹ کر منلز ،لٹیروں اور ڈاکوئوں کی وارداتوں نے دوہری ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے ۔ شہر بھر میں ڈاکوؤں کاراج ہے ،پولیس خاموش تماشائی بنی ہو ئی ہے، جب کہ لٹیرے آزاد ہیں۔ روزانہ دن دہاڑے درجنوں لوٹ مار کی واردایتں ہوتی ہیں۔
حال ہی میں ان کی رفتار میں ہوش ربا اضافہ پولیس کی ناکامی کابین ثبوت ہے،جس نے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ کراچی پولیس کے سابق چیف ڈاکٹر امیر احمد شیخ کی جانب سےاسٹریٹ کرمنلز کی بیخ کنی کے لئے بنائی گئی اینٹی اسٹریٹ کرائم فورس جو من پسند اہل کاروںپر مبنی ہے،نااہل اور مکمل طور پر ناکام ہے۔
جدید آلات و ہتھیار اور ہیوی موٹر سائیکلوں کی سہولت سے آراستہ اور فوجی افسران سے کمانڈو ٹریننگ کے حامل، فورس کے اہلکارڈیوٹی کے دوران گھنٹوں ہوٹلوں میں بیٹھےخوش گپیوں میں مصروف اور موٹر سائیکلوں پر ریس لگاتے نظر آتے ہیں جب کہ معصوم شہری گلی، محلوں اور مرکزی سڑکوں پر اسٹریٹ کر منلزاور لٹیروں کےہاتھوںیرغمال بنے ہوئے ہیں۔
محکمہ پولیس کے علاوہ صوبائی حکومت بھی اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے، کیونکہ اسٹریٹ کرا ئمز اور ڈکیتیوں کے جن کو قابو کر نے کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ،حتی کہ اس سلسلے میں کوئی اجلاس تک منعقد نہیں کیا گیا جس سے حکومت کی ناقص کارکردگی بے نقاب ہو گئی ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ سفاک ڈاکو دن دہاڑےشہر کی مصروف ترین سڑکوں اور گلیوں میں وارداتیں کرتے ہیں اور ڈکیتی میں مزاحمت کے دوران خاتون اور بزرگوں کوبھی نہیں بخشتے ۔ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کی فہرست خاصی طویل ہے ۔ ایک حالیہ سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ ڈکیتی میں مزاحمت اور دیگر واقعات میں فا ئرنگ سے 18معصوم شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ 100 سےزائد زخمی ہو کر اسپتال پہنچے ۔
اسٹریٹ کر منلزنے اسلحے کی نوک پرخواتین سمیت 1700سے زائد شہریوں کو قیمتی موبائل فونز سے محروم کیا۔ جبکہ مسلح ڈاکوؤں نےمختلف علاقوں میں واقع 180گھروں کو لوٹا۔ڈکیتی کی ان وارداتوں میں ضلع وسطی 40 وارداتوں کے ساتھ سر فہرست رہا ،ضلع جنوبی میں 36اور ضلع شرقی میں 35وارداتیں رپورٹ کی گئیں ۔آئی جی سندھ کے انکشاف کے مطابق، ان کے ااعزاء بھی اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں
گزشتہ دنوں گلشن اقبال موچی موڑ اسٹاپ پر یونیورسٹی جانے کے لئے گاڑی کے انتظار میں کھڑی ہمدرد یونیورسٹی کی ہونہار اور گولڈمیڈل کے لئے نامزد طالبہ مصباح کو ڈاکوؤں نے ڈکیتی مزاحمت پر اس کے والد کے سامنے سر پر گولی مار کر خون میں نہلا د یا ۔
معصوم طالبہ کے قتل نے جہاں اس کےخاندان،پڑوسیوں ، ساتھی طلبہ کو سوگوار کر دیا ہے، وہیں طلبہ وطالبات اور ان کی فیملیز کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ فیڈرل بی ایریا جوہر آباد تھانے کے قریب ڈاکوؤں نے شہری سے موبائل مانگا ، جب اس نے موبائل فون نہ دیا تو لٹیرے نےدھمکی دیتے ہوئے فائر کیا اور موبائل چھین کر موٹر سائیکل پر باآسانی فرار ہو گئے۔
بھینس کالونی میں واقع اسپتال میں مسلح ڈاکو اسلحہ کے زور پر کاؤنٹر سے نقدی اور اسپتال میں موجود افراد سے موبائل فونز اور رقم لوٹ کر فرار ہو گئے۔ بہادر آباد میں 2موٹر سائیکل سوارڈاکوؤں نے بنک سے رقم لے کر موٹر سائیکل پر جانے والے بزرگ شہری کو اسلحے کی نوک پر روک کر رقم لوٹی اور فرار ہوگئے۔تیموریہ تھانے کی حدود نارتھ ناظم آباد بلاک ایچ میں ملزمان نے لوٹ مار کے دوران فائرنگ کرکے 40سالہ شیر محمد ولد تاج محمد کو زخمی کردیااور فرار ہو گئے ۔
عزیز بھٹی تھانے کی حدود عیسیٰ نگری میں ڈکیتی میں مزاحمت پر ملزمان کی فائرنگ سے 30سالہ رحیم حسن زخمی ہوگیا ۔ بلدیہ نیول کالونی پل پرڈاکوؤں نے ڈکیتی مزاحمت پرفائرنگ کر کے سادہ لباس میں ملبوس 43سالہ رینجرز اہل کارمحمد افضل ولد شیر افضل کےسینے پر ایک گولی مار کر شہید کردیا اور فرار ہو گئے ، مقتول سچل رینجرز میں لانس نائیک تھا۔
گزشتہ دنوں ایڈیشنل آئی جی کراچی ،غلام نبی میمن نے صنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے شہر میں بڑھتی ہوئی اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کے حوالے سے کہا تھا کہ نشے کے عادی افراداسٹریٹ کرائم کی 60فیصد وارداتوں میں ملوث ہیں،ان کی بحالی کے لیے کراچی میں 12بحالی مراکز بنائے جائیں گے۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اگر واقعی اسٹریٹ کر ائمز کی 60فیصد وارداتیں نشے کے عادی افراد کر تے ہیں ،تو پولیس ان ملزمان کو باآسانی پکڑسکتی ہے، کیونکہ علاقہ پولیس اور ایس ایچ اوز کو بخوبی علم ہے کہ کون منشیا ت کا عادی اور کون منشیات فروش ہے اور منشیات کےاڈے کہاں واقع ہیں اور کہاں منشیات فروخت ہو تی ہے ۔پولیس حکام کے اس قسم کے بیانات کراچی کو درپیش اس گمبھیر مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
اسٹریٹ کرائمز کے خاتمے کے لئے سائنسی اور جنگی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہو ئےسیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والےافسران اور پولیس میں شامل ان کالی بھیڑوں کا خاتمہ کر نا ہو گا جو خود جرائم کی وراداتوں میں براہ راست ملوث او رمنشیات فروشوں کی معاوضے کے عوض سر پر ستی کرتی ہیں ۔ دوسری جانب کراچی پولیس چیف کی جانب سے ایس ایچ اوز کی تعیناتی کے لئے ٹیسٹ اور انٹرویوز پاس کر نے کی شرط کو عوام نے سراہا ہے ۔
جبکہ شہری یہ شکوہ کرنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ گلشن اقبال میں طالبہ مصباح کے قتل پر اعلی پولیس افسران کے چہیتے ایس ایچ او گلشن اقبال صفدر مشوانی جو روایتی طور پرجرائم کنڑ ول کرنے میں ناکام رہے ہیں انھیں سزا دینے کی بجائے ایس ایچ او الفلاح تھانہ کیوں تعینات کیا گیا۔
اب ان کی جگہ غلام نبی آفریدی کو ایس ایچ او گلشن اقبال تعینات کیا گیا ۔ انسپکٹر غلام نبی آفریدی کے کارنامے اور ٹارچر سیل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، پرائیویٹ بیٹر کی جانب سے ایس ایچ او الفلاح کی موبائل میں شہریوں کی تضحیک آمیز ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے ،مذکورہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اعلی افسر کی ہدایت پر بیٹر کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے گئے تھے ۔شہریوں نے کراچی پولیس چیف سے سوال کیا ہے کہ کیا مذکورہ ایس ایچ اوز کی تعیناتی کے لئے تحریری امتحان اور انٹرویو ز کئے جاچکے ہیں، یا ان کو استثنی حاصل ہے۔
اس کالم کی تحریر کے دوران معلوم ہوا کہ گلشن اقبال میں ڈکیتی میں مزاحمت پر ملزمان کے فائرنگ سے جاں بحق ہو نے والی میڈیکل کی طالبہ مصباح اطہر کے حوالے سے ایس ایس پی ایسٹ غلام اظفر مہیسر نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں دعوی کیا ہے کہ مقتولہ مصباح اطہر کو کچرا چننے والے افغانی ملزمان نے قتل کیا تھا۔ پولیس نے ان میں سے ایک ملزم کو گرفتار کرکے چھینا جانے والا موبائل فون اور واردات میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل اور اسلحہ برآمد کرلیا۔
ایس ایس پی ایسٹ کا مزید کہنا تھاکہ گرفتار ملزم، محمد نبی افغانی اور اسٹریٹ کرمنل ہے، جس کا ساتھی قاری بشیر افغانی تاحال فرار ہے،۔پولیس مفرور ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ گرفتار ملزم نے دوران تفتیش اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک سال پہلے تک اس علاقے میں کچرا چنتا تھا جس کے بعد ملزم گاڑیوں کی بیٹریاں چوری کرنے لگا، پانچ ماہ قبل ملزم نے اپنے ساتھیوں فضل، نعمت اور قاری بشیر کے ساتھ مل کر اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں شروع کیں۔ان کا یہ گروہ گلشن اقبال، گلستان جوہر، مبینہ ٹاؤن، شارع فیصل، بہادرآباد، عزیزبھٹی، سچل ،سائٹ اور سپر ہائی وے کے علاقوں میں اسٹریٹ کرائمز کی درجنوں وارداتیں کرچکا ہے۔
مصباح کا قاتل گرفتار ہوا ہی تھا کہ ڈیفنس کے ایک بنگلے میں داؤد انجینئرنگ کالج کے سابق پروفیسر، فصیح عثمانی اور ان کے بیٹے ، کامران فصیح کو چھریوں کے پے درے پے وارکرکے قتل کردیا گیا۔ یہ کیا اندھیر ہے کہ جہاں اسٹریٹ کرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہیں گھروں میں بھی وارداتیں شروع ہوگئی ہیں۔
عوام نے آئی جی سندھ اورکراچی پولیس چیف سےمطالبہ کیا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہو ئی وارداتوںاور اس کے نتیجے میں معصوم جانوں کے ضیاع کا فوری سد باب کر کے اسٹریٹ کریمنلز ااور ڈاکو ؤں کو لگام دی جائے ۔
اب بھی وقت ہے کہاعلیٰ پولیس افسران نوشتہ دیوار پڑھ کر عوام کی جان و مال کا تحفظ کر نے کے لئے حقیقی معنوں میں ایسے اقدامات کریں جن کے عملی نتائج بھی سامنے آئیں ۔جرائم کے خاتمے کے لئے کراچی پولیس چیف اور دیگر اعلی پولیس افسران کی جانب سے پیش کی جانے والی تاویلیں اب عوا م کو متاثرنہیں کرتیں۔
عوام اب ایسے روایتی وعدوں پر اعتبار کر نے کے لئے تیار نہیں ہیں جو نئی تعیناتی پانے والا ہر افسر بڑے دھوم دھڑکے سے کر تا ہے۔عروس البلاد میںجرائم کی سطح کا جو گراف اعداد شمار کی روشنی میں بنتا ہے اس کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ غیر جانبدارماہرین کا کہنا ہے کہ شہر میں جرائم کی حقیقی شرح اتنی بلند ہے کہ اگر خوش فہمیوں کی عینک اتار کر اس کا جائزہ لیا جائے تو خود اعلی ترین افسران کا پسینہ چھوٹ جائے گا ۔غیر جانبدار ماہرین کرا ئمز کا کہنا ہے کہ 50فیصد سے زائد جرائم کی ایف آئی آرزہی درج نہیں کی جاتی۔
اس معاملے میں دیگر تھانوں کے علاوہ خواجہ اجمیر نگری تھانہ پیش پیش ہے، جس ہر محرر مختلف قانونی نکات کا سہارا لے کر سائل کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کرتا ہے۔
اس کا تجربہ مذکورہ تھانے میں ایک صحافی کو تین مرتبہ ہوچکا ہے،حال ہی میں ایف آئی آر درج کرانے میں ناکامی کےر بعد کراچی پولیس چیف کے آفس میں رابطہ کرنے کے باوجود اس کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ خود ا علی پولیس افسران کی جانب سے ایس ایچ اوز اور تھانہ اسٹاف کی ایف آئی آردرجنہ کرنے کی پا لیسی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔