• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اہم ایشوز پر کوئی بات کرنا چاہے تو ہمارے دروازے کھلے ہیں‘‘ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کا یہ اعلان واضح طور پر دانشمندانہ سوچ کا عکاس ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز سرکاری ترجمانوں کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن کے ’’آزادی مارچ ‘‘ کے تناظر میں کئے گئے اس سوال پر کہ کیا جے یو آئی (ف) سے مذاکرات کے لئے کوئی کمیٹی قائم کی گئی ہے؟ وزیراعظم کا کہنا تھا ’’کمیٹی کے قیام کی فی الحال ضرورت نہیں مگر مذاکرات کا آپشن کھلا ہے‘‘۔ انہوں نے یہ صراحت بھی کی کہ کسی کو قانون توڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا ہوا تو قانون حرکت میں آئے گا۔ دوسری جانب نہ صرف یہ کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) ماہ رواں کی ستائیس تاریخ سے پورے ملک سے اسلام آباد کی جانب مارچ کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے بلکہ مسلم لیگ (ن) بھی اپنے قائد میاں نواز شریف کی واضح ہدایات ملنے کے بعد اس سرگرمی میں پوری توانائیوں کے ساتھ شریک ہونے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق میاں نواز شریف نے موجودہ اور آنے والے حالات میں اپنی جماعت کی حکمت عملی کے بارے میں میاں شہباز شریف اور حسین نواز کو تحریری طور پر ضروری ہدایات فراہم کر دی ہیں۔ پارٹی کے ممتاز رہنما احسن اقبال کے بقول ان کی جماعت ان ہی ہدایات کی روشنی میں ہفتے کو ہونے والے اجلاس میں آئندہ لائحہ عمل وضع کرے گی۔ پیپلز پارٹی بھی اصولی طور پر جمعیت علمائے اسلام کے احتجاجی مارچ کی حمایت کر رہی ہے جبکہ گزشتہ روز عوامی نیشنل پارٹی نے بھی مارچ کی حمایت کا عندیہ دیا ہے اور پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے اسلام آباد میں اس مارچ میں بذات خود شرکت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک کی ان اہم اور دیرینہ سیاسی جماعتوں کے عوامی اثر و رسوخ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حکمراں پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی طرح ان جماعتوں کے حامی بھی ملک میں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور انتخابی نتائج کی تاریخ اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے جبکہ موجودہ حکومت کے پہلے سال کے دوران مہنگائی و بیروزگاری میں مسلسل اضافے سے، خواہ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں، عام آدمی شدید مشکلات کا شکار ہے لہٰذا عین ممکن ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی اس مہم کو عوام کی ایک بڑی تعداد کی تائید حاصل ہو جائے۔ ایسی صورت میں دارالحکومت کی جانب مارچ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات پورے ملک میں انتشار اور افراتفری کا سبب بن سکتے ہیں جبکہ آج پاکستانی قوم کو معیشت، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال، بھارتی جارحیت کے خطرات اور ایف اے ٹی ایف کے مطالبات وغیرہ کی شکل میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے جن کے باعث ملک‘ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی من مانی کارروائیوں کا ایسا مؤثر جواب دینے کے لیے بھی، جسے عالمی برادری اور بین الاقوامی میڈیا آج کی طرح نظر انداز نہ کر سکے، جس کا شکوہ وزیراعظم نے گزشتہ روز کشمیر کے حوالے سے اپنے خطاب میں کیا ہے، نمائشی اقدامات کے بجائے نتیجہ خیز متفقہ قومی حکمت عملی کا تشکیل دیا جانا ضروری ہے۔ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب حکومت اور اپوزیشن اپنے باہمی اختلافات کے تصفیے اور قومی مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر تصادم کے بجائے حکمت و تدبر سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کی میز پر مل بیٹھیں۔ موجودہ حالات میں یہ ہمارے قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے اس کا عندیہ دے کر یقیناً ایک مثبت قدم اٹھایا ہے تاہم اس سمت میں مزید پیش رفت بھی انہی کی ذمہ داری ہے جبکہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کی دعوت ملنے پر اسے قبول کرکے اپوزیشن کو بھی قومی مفاد سے ہم آہنگ سیاست کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔

تازہ ترین