صرف میں نہیں بلکہ ورلڈ بینک، یونیسیف اور سارے نیشنل، انٹرنیشنل ادارے جو غربت کے خاتمے کے لیے کام کرتے ہیں، اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان میں غربت سب سے زیادہ ہے۔ لیکن بلوچستان میں غربت اور پسماندگی کیوں ہے؟ کون اس کا ذمہ دار ہے؟ صوبے کی سیاسی تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس بدقسمت صوبے پر حکمرانی کرنے والوں نے مختلف محکموں کو چلانے کے لیے پالیسیوں کا کبھی جائزہ ہی نہیں لیا۔ چاہے ان کا تعلق پڑھے لکھے طبقے سے تھا یا نیم پڑھے لکھے طبقے سے، بلکہ پہلے سے چلتے ہوئے بوسیدہ نظام میں مزید خرابیوں کا اضافہ کیا۔ بلوچستان میں محکمہ زراعت جس نہج پر آج موجود ہے اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم محکمے کو ہر حکومت نے مفاد عامہ کے بجائے اپنے چہیتوں کے روزگار کا ذریعہ بنایا جہاں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کی گئیں اور آج یہ حالت ہے کہ محکمہ جس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے اس کیلئے حکومت سالانہ 3ارب 40کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے جبکہ محکمے کے تقریباً 15ہزار ملازمین جن میں اکثر غیر ضروری ہیں، کو حکومت سالانہ اس سے تین گنا زیادہ یعنی 9ارب 60 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں ادا کر رہی ہے۔ زراعت دفتروں میں آپ کو 20فیصد سے زیادہ ملازمین نہیں ملیں گے۔
بلوچستان میں حکومتی سطح پر کچھ یوں کاروبار ہو رہا ہے کہ محکمے اگر اپنے ملازمین کے مسائل ہی حل کریں تو بڑی کامیابی تصور کی جائے۔ زمیندار یا کاشتکار سے ان کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب محکمہ زراعت میں 33ڈائریکٹوریٹ بنائے گئے ہیں لیکن آج تک ان 33ڈائریکٹرز نے مل کر 33نئی اور بہتر سبزیوں، پھلوں یا اجناس کی اقسام متعارف نہیں کرائی ہوں گی۔ بس روزگار لگا ہوا ہے۔ گھر بیٹھے تنخواہ مل جاتی ہے۔ حیران کن بات ہے کہ بلوچستان کے مقابلے زرعی پنجاب میں بھی ریسرچ کے 33ڈائریکٹوریٹ نہیں ہیں۔ انجینئرنگ ونگ میں بلڈوزر کے تیل اور رپیئر میں سالانہ اربوں روپے کاغذی حد تک خرچ کئے جاتے ہیں۔ 1ارب روپے تیل کا خرچہ آتا ہے جبکہ محکمہ 25کروڑ روپے مشکل سے دوبارہ خزانے میں جمع کروانے میں کامیاب ہوتا ہے، یعنی یہاں بھی 75کروڑ روپے کا نقصان ہے۔ بلڈوزر 99فیصد ایم پی اے صاحبان کو ملتے ہیں۔
شیر مادر سمجھ کر وہ ایم پی ایز بھی یہ لیتے ہیں جن کے پورے حلقے میں دو گز ڈھلوانی زمین نہیں ہوتی لیکن ہزاروں گھنٹے ان کے حصے میں بھی آتے ہیں۔ ماضی میں بلوچستان کو اور خاص طور پر کوئٹہ کو فروٹ باسکٹ کہا جاتا تھا۔ تقسیمِ ہند سے قبل یہاں کا پھل ممبئی سے کلکتہ تک جاتا تھا۔ سیب، خوبانی، آڑو، انگور اور چیری جیسے پھلوں کی بہت مانگ تھی بلکہ ہے، لیکن ہماری کسی حکومت نے ویلیو ایڈیشن کی طرف توجہ نہیں دی۔ یہاں کوئی اسٹوریج کا انتظام نہیں۔ کوئی مربہ جات یا جوس بنانے کا کارخانہ نہیں کہ جس سے صوبے کے کاشتکار کو اپنی محنت کا صحیح معاوضہ مل رہا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ 14ارب روپے سالانہ خرچ کرنے والا محکمہ یہاں سیب کیلئے کاغذ کے کاٹن بنانے کا بھی کوئی انتظام نہیں کر سکا اور یہاں کا زمیندار دیگر صوبوں سے 100روپے کا کاٹن خرید کر ٹرانسپورٹریشن کے چارجز ادا کرکے یہاں لاتا ہے اور اس کی پیکنگ کرکے دوبارہ سیب کے ہمراہ روانہ کرتا ہے، اس پر ٹیکس کی رقم ادا کرتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ عالمی معیار کے سیب کاٹنوں میں پیک کرکے پنجاب کے مختلف کول اسٹوریج میں مجبوراً رکھنے کو تیار ہوتا ہے یعنی ایک کریٹ سیب پر اس کو 100روپے کاٹن کے اور 100روپے کرایہ کے مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ یہ 5ماہ تک صوبے سے باہر کے کول اسٹوریج میں رکھا جاتا ہے جہاں پر ماہانہ وہ 50روپے فی کاٹن کرایہ ادا کرتا ہے اگر حکومت بے اعتنائی نہ برتے اور 14ارب روپے ماہانہ خرچ کرنے والا محکمہ زراعت صوبے میں عملی وجود رکھتا اور زمینداروں کی سرپرستی کرتا ہو تو ہم نہ صرف اپنے صوبے میں روزگار کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں بلکہ ہمارا زمیندار مارکیٹ کے بڑھتے اور کم ہوتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے صوبے کے کولڈ اسٹوریج سے اپنے سیب ارسال کر سکتا ہے۔ اس وقت کم از کم کوئٹہ کے کسی علاقے میں ایک اسٹور یا ایک کارخانہ لگا دیا جائے جس سے کوئٹہ، پشین، زیارت، قلعہ عبداللہ، مستونگ، قلات و دیگر علاقوں کے زمینداروں کو مناسب ریٹ پر اپنے پھل رکھنے کا موقع فراہم کر دیا جائے، مزید ویلیو ایڈیشن کے لیے ان سے متعلق ایک کارخانہ لگا دیا جائے تو اس سے صوبے میں معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور مقامی بلوچ زمیندار کو بھی بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔