• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے لاہور میں ٹی 20کرکٹ کا دنگل ہوا۔ سری لنکا کی ٹیم نے تینوں میچ جیت لئے اور پاکستانی ٹیم چاروں شانے چت ہو گئی۔ میچ کے دنوں میں لاہور کے شہریوں پر سیکورٹی کے نام پر جو عذاب نازل کیا گیا، وہ بیان سے باہر ہے۔ ٹیم جس فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی اس کے سامنے کی سڑکوں کو سیل کر دیا گیا تھا۔ اسٹیڈیم کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔ قذافی اسٹیڈیم کے گرد و نواح میں کئی کئی کلومیٹر پر واقع دکانوں حتیٰ کہ اسپتال تک کوئی نہیں جا سکتا تھا۔

لوگ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہے، ان دنوں ٹریفک پولیس کی نااہلی بھی سامنے آئی۔ کرکٹ ٹیم کو اگر چار بجے جانا ہوتا تھا تو ٹریفک دو بجے بند کر دی جاتی تھی۔ لاہور کے شہریوں کو ان دنوں جس اذیت سے گزرنا پڑا وہ صرف لاہوری ہی بتا سکتے ہیں، اسکولوں کے معصوم بچے پانچ بجے گھر پہنچتے۔

اگر آپ کو کرکٹ میچ کرانے کا اتنا ہی شوق تھا تو ان دنوں تعلیمی اداروں کو بند رکھتے، ٹریفک پولیس کی نااہلی یہ ہے کہ اس نے روٹ بند کرنے سے قبل عوام کو نہیں بتایا۔ اصولاً چاہئے تو یہ تھا کہ عوام کو میڈیا کے ذریعے آگاہ کرتے کہ اس دوران تمام سڑکیں بند رہیں گی۔ میچ قذافی اسٹیڈیم میں ہو رہا تھا اور ٹریفک لاہور کینٹ تک جام تھی۔ مریض، ایمبولینسیں اور بزرگ شہری جتنا پریشان ہوئے وہ بیان سے باہر ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کے شائقین کروڑوں کی تعداد میں ہیں جبکہ دوسرے ممالک کی ٹیمیں بھی پاکستان آتی ہیں، قذافی اسٹیڈیم (لاہور /نیشنل سٹیڈیم) کے اندر پچاس کمروں کا ہوٹل یا کوئی ریسٹ ہائوس بنا دیا جائے تاکہ ٹیم کی سیکورٹی کا مسئلہ حل ہو جائے اور لوگ بھی تنگ نہ ہوں۔ اس مرتبہ میچ پر 13ہزار پولیس اہلکاروں کو سیکورٹی پر لگایا گیا۔ ہر تھانے سے پولیس غائب تھی۔ قطر میں ایک ایسا اسٹیڈیم غالباً ابھی زیر تعمیر ہے یا تعمیر ہو چکا ہے، جس کے اوپر رہائشی کمرے ہیں۔ اس طرح کا کوئی انتظام ہمارے ہاں بھی ہو سکتا ہے۔ قذافی اسٹیڈیم کے نیچے تمام ریسٹورنٹس ہیں جہاں سرشام لوگ کھانے پینے آ جاتے ہیں۔ کرکٹ بورڈ نے صرف پیسے کمانے کےلئے وہاں ایسے ریسٹورنٹس کرائے پر دے رکھے ہیں جو ایک انٹرنیشنل معیار کے اسٹیڈیم کے بالکل شایانِ شان نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ وہاں خوبصورت مارکیٹ بنائی جائے۔ کھانے پینے کی دکانیں بھی بہت بڑا سیکورٹی رسک ہیں۔ اگرچہ ان کو میچ کے دنوں میں بند کر دیا جاتا تھا مگر یہ بہت بدنما ماحول پیش کرتی ہیں۔

ایک طرف اس حکومت کے آنے کے بعد مہنگائی نے ناک میں دم کر رکھا ہے تو دوسری طرف سرکاری یونیورسٹیوں نے فیسوں میں سو فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور لاہور کالج یونیورسٹی کے آن لائن کیمپسوں نے فیسوں میں سو فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے فنڈز میں کٹوتی کے باعث یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہو گئی ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی فیسیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقےسے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس کیلئے صرف سرکاری یونیورسٹیاں ہی ہیں جہاں وہ کم فیس میں اپنی تعلیم مکمل کر لیتے ہیں۔ بہت سے اسٹوڈنٹس صبح کو یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں اور شام کو کہیں کام کر کے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی نے اپنے ساتھ الحاق شدہ کالجوں کی فیسوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے، حالانکہ پنجاب کی بیشمار یونیورسٹیوں میں بڑا وسیع رقبہ خالی پڑا ہے جس پر کمرشل سرگرمیاں شروع کر کے یونیورسٹیاں اپنے اخراجات پورے کرکے اسٹوڈنٹس کی فیسوں میں کمی کر سکتی ہیں۔

ایچ ای سی کا یونیورسٹیوں کے مالی بحران کے حوالے سے چندہ مہم شروع کرنے کا خط باعث افسوس ہے۔ کیا اب سرکاری یونیورسٹیوں کو چلانے کے لئے چندے مانگے جائیں گے؟ حکومت کے پاس یونیورسٹیوں کو دینے کے لئے پیسے نہیں، اس کے باوجود اورنج ٹرین کی لاگت 2کھرب 54ارب سے بڑھ گئی ہے اور کئی بار ڈیڈ لائن دینے کے باوجود ٹرین پٹڑی پر نہ چڑھ سکی۔ سابق وزیراعلیٰ نے اورنج ٹرین کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اس غریب ملک پر بڑا ظلم کیا۔ پنجاب یونیورسٹی پہلے ہی شام کی کلاسوں کی فیسیں ہزاروں اور لاکھوں میں لے رہی ہے، اب صبح کی کلاسوں کی فیسوں میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے جو غریب اسٹوڈنٹس پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔

لو جی! ڈینگی کے وار جاری ہیں۔ صرف لاہور میں 22ہزار مقامات سے ڈینگی کے لاروا برآمد ہو چکا ہے اور 2100افراد کے خلاف مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ 70کے قریب افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ لاہور شہر کا 80فیصد ایریا ریڈ زون قرار دیا جا چکا ہے۔ پورے ملک میں 17ہزار کے قریب افراد ڈینگی وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ 40کے قریب افراد موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ بعض حلقے سو سے زیادہ بتاتے ہیں۔ ڈینگی پر اب تک کنٹرول نہیں پایا جا سکا۔ جبکہ حکومت نے تاحال اس حوالے سے کوئی سخت اقدامات نہیں کئے۔ ایک طرف ڈینگی وائرس بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری طرف کانگو وائرس اور نگلیریا بھی آ چکا ہے۔ اب تک 15افراد نگلیریا سے مر چکے ہیں۔ ڈینگی کے حوالے سے اب تک شہر میں اسپرے اس طرح نہیں ہو رہا جس طرح ماضی میں ہوتا تھا۔ اسکولوں /کالجوں میں ڈینگی پریڈ بھی نہیں ہو رہی، پنکچر لگانے والی دکانوں کو بھی چیک نہیں کیا جا رہا۔

جولائی تا اکتوبر کے مہینے ڈینگی کی افزائش کے لئے بہترین ہوتے ہیں لیکن حکومت نے اس مرتبہ ان مہینوں میں کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی جس کی وجہ سے ڈینگی پھیل گیا اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ ڈینگی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے وزیراعلیٰ پر کافی برہمی کا اظہار کیا ہے مگر تاحال پنجاب حکومت نے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے۔ ہر روز بیس پچیس افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔ انسدادِ ڈینگی کے حوالے سے حکومت کی غفلت سامنے آ چکی ہے۔

تازہ ترین