ہماری قومی سیاست میں منفی نتائج دینے والا مذہبی کارڈ اک بار پھر استعمال ہو رہا ہے۔ یہ اسٹیٹس کو کی سیاست کے بڑے حربوں میں سے ایک ہے۔
حکومت اکھاڑنے کا محترم مولانا کا اعلانِ مہم جوئی کتنا بلاجواز، غیر منطقی اور غیر اخلاقی ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے، مکمل طرزِ کہن (اسٹیٹس کو) میں لپٹی دونوں بڑی پاپولر جماعتوں نون لیگ اور پی پی کا چاہتے ہوئے بھی، کھل کر مارچ اور دھرنے میں مولانا کا دل و جان سے کھل کھلا کر ساتھ دینا محال ہو رہا ہے۔
حضرت صاحب کو جتنے جتن تن تنہا مارچ اور دھرنے کا ڈیزائن بنانے میں لگے، اس سے کہیں زیادہ وقت اور دماغ اسے متحدہ اپوزیشن کا مشترکہ مشن بنانے میں صرف ہوا، جس میں انہیں پارلیمانی اپوزیشن کی مطلوب تائید و حمایت محدود اور غیر موثر شکل میں بھی بمشکل ہی مل پائی ہے، جس پر میاں شہباز شریف کا جذبہ مفاہمت اور نازک وقت کو سمجھنے کی صلاحیت کہیں زیادہ غالب ہے۔
حضرت صاحب! غور فرمائیں کہ نون لیگ اور پی پی دونوں کی چونکہ چنانچہ، ایسے نہیں، ویسے اور اگر، مگر آپ کے احتجاجی مارچ اور دھرنے سے متعلق سیاسی ابلاغ پر حاوی نہیں؟ آپ کے پختہ ارادے اپنی جگہ لیکن دونوں جماعتوں کی مصلحتیں، تحفظات اور ہچکچاہٹ آپ کے عزم و عمل کو ساتھ ساتھ برابر نہیں کر رہے؟ الیکشن میں تو اس مرتبہ ہاتھ نہ آئی، اب آپ کہیں ریت میں تو مچھلی تلاش نہیں کر رہے؟
مولانا صاحب! بلاشبہ آپ قومی سیاست میں بدستور اور اسمبلی سے باہر رہ کر اپنی سیاسی اہمیت اور حیثیت کو مذہبی کارڈ استعمال کرکے ہی سہی منوا سکتے ہیں اور منوا لیں گے لیکن اس سے آپ حکومت بھی اکھاڑ سکتے ہیں؟ اگر اکھاڑ سکتے ہیں تو روایتی طرز کے سہی، قوم کو ہضم ہو جانیوالے انتخابات کے فقط 14ماہ بعد ہی حکومت اکھاڑ دینگے تو موجود گمبھیر ملکی صورتحال میں اسکے کیا نتائج نکلیں گے؟
واقعی آپ نے اس پر غور فرما کر ہی اس مہم جوئی کا فیصلہ کیا ہو گا۔ لیکن شاید نہیں، سب جانتے ہیں کہ آپ قوم و ملک کیلئے نتائج کا اندازہ بخوبی کر سکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ عمران خان اور علامہ قادری کے دھرنے کے دوران بڑے بڑے نون لیگی اور پی پی کے مخالف اور پی ٹی آئی کے پُرزور لیکن ذمہ دار حامیوں نے عمران خان کے حکومت اکھاڑنے کے مطالبے سے دستبردار ہونے کا کھلا بھی اور اندرونِ خانہ بھی زور لگایا تھا۔
مولانا صاحب! آپ تھے کوئی بیس بائیس سال کے لیکن آپ کو کچھ تو یاد ہوگا، بہت کچھ آپ نے (اللہ بخشے) اپنے والد مولانا مفتی محمود اور ان کے تحریکی و جماعتی اکابرین سے سنا ہوگا کہ کس طرح مذہبی کارڈ نے چند ہی دنوں میں، الیکشن 1977میں ملک گیر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کو آغاز پر ہی تحریک نظام مصطفیٰ میں تبدیل کر دیا تھا، جسے ولی خان مرحوم جیسے نامور سیکولر رہنما کی مکمل اور بھرپور تائید حاصل ہوئی، جو خود تو آئینی عدلیہ کے مقابل بنائے گئے خصوصی ٹربیونل کے فیصلے کے نتیجے میں چوہدری ظہور الٰہی اور ایڈیٹر صلاح الدین کے ہمراہ حیدر آباد جیل میں قید تھے۔
محترمہ بیگم نسیم ولی اور ان کے ہم خیال سیاسی رہنما شیر باز مزاری نے ان (ولی خان) کی تحریک نظام مصطفیٰ کیلئے تائید قومی اتحاد کی اجتماعی قیادت میں شریک ہوکر بہت موثر انداز میں کی۔
ہوا یوں کہ تحریک نے زور پکڑا تو ماسوائے نوابزادہ نصراللہ اور پیر صاحب پگاڑا کی اتحادی جماعتوں کے، مرکزی رہنما جیل چلے گئے، ولی خان اور چوہدری ظہور الٰہی جیسے بھٹو مخالف تو پہلے ہی نظربند تھے۔
تحریک کا مرکز و محور چونکہ آغاز پر لاہور تھا، یہاں جمعیت علمائے پاکستان کے داڑھی منڈھے سیکرٹری جنرل رفیق باجوہ جو سحر انگیز مقرر تھے، جلسوں کے لئے شدت سے مطلوب ہوگئے، وہ پبلک موبلائزیشن کی کمال ابلاغی صلاحیت کے حامل تھے۔
انہوں نے اپنی سحر انگیز تقریروں میں اپنے اس بیانیے کہ ’’اب یہ تحریک کوئی احتجاجی تحریک نہیں بلکہ نظام مصطفیٰ کے نفاذ کی تحریک ہے‘‘ کی تکرار شروع کر دی۔
یہ اتنا موثر ہوا کہ احتجاج پیچھے رہ گیا اور نظام مصطفیٰ کا عزم اتنا عام ہوا کہ پوری تحریک کا رنگ، ڈھنگ اور ارادہ ہی بدل گیا۔ اس میں مذہبی رنگ نے علماء کی بھاری اکثریت کو اس میں شامل کر دیا۔
لاہور کے بعد پورا پنجاب اور پھر پورا ملک بھٹو حکومت کے خلاف بھڑک گیا، انتخابی دھاندلیوں کے باعث اس کی اخلاقی بنیاد پہلے ہی ہل گئی تھی۔ دھاندلیوں پر قائل ہونے کے لئے نیوز ویک کا ٹائٹل اور لاڑکانہ جیسے پی پی کے گڑھ سے بھٹو صاحب کے مقابل جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی کا اغوا ہی کافی تھا۔ اس تاریخی پس منظر کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کی خدمت میں چند سوال۔
1۔آپ کا مارچ اور دھرنا وزیراعظم کے سلیکٹڈ ہونے کے حوالے سے ہے؟ کیا الیکشن 18ء میں اتنی ہی دھاندلی ہوئی جتنی 1977ء میں یا اتنی بے قاعدگیاں ہوئیں جو ان تمام انتخابات میں ہوتی رہیں، جن سب میں آپ کامیاب ہوتے رہے؟
2۔کیا آپ، پی پی اور نون لیگ کے سلیکٹڈ ہونے کا بیانیہ عوام نے قبول کر لیا؟ عوام نے انتخابی نتائج قبول نہیں کر لئے؟
3۔آپ کا حکومت اکھاڑ پروگرام، مہنگائی کے سبب ہے؟ آزادی کے لئے، کون سی آزادی؟ کس سے آزادی؟ یا تحفظ ختم نبوت کے دینی کاز کے حوالے سے کوئی خدشہ خطرہ؟ یا بیڈ گورننس کے حوالے سے؟ جو کیا پہلے بہت بہتر تھی؟
4۔کیا آپ صرف مؤدب، تابع فرمان اور مشتعل کئے گئے طلبا اور فیکلٹی سے حکومت اکھاڑ سکیں گے؟ سکیں گے تو اکھاڑ دینا چاہئے؟ ذاتی یا گروہی سیاست میں ان کا استعمال کتنا جائز اور اخلاقی ہے؟
5۔آج جبکہ حکومت، عوام، میڈیا اور فوج کی تمام تر توجہ گمبھیر کشمیر پر لگی ہے، کسی بڑی احتجاجی تحریک یا دھرنے سے واقعی حکومت اکھاڑی جا سکتی ہے؟
6۔ فقط دینی مدارس اور آپ اپنے ہم مسلکی علماء کی تائید سے کوئی ایسی مذہبی تحریک چلا سکتے ہیں جیسے 1977ء میں دینی عزم کے ا ظہار سے تحریک نظام مصطفیٰ چلائی گئی تھی، جسے پوری اپوزیشن کی بھرپور تائید حاصل تھی؟