• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گذشتہ رات ایک بجے میں نے ایک بریلوی عقیدے کے بزرگ کو فون کیا کہ صبح کی نماز پڑھ چکے ہونگے اس وقت ان سے تفصیلی بات چیت اچھے انداز میں ہوجائے گی ۔احوال پوچھنے کے بعد میں نے انہیں کہا” ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف لکھنے والے زیادہ تر لکھنے والے لوگ ایسے ہیں جن کاان کے عقیدے کا اختلاف ہے۔ اسلئے آپ کو چاہئے کہ آپ نواز شریف کی بجائے ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دیں۔چیف جسٹس نے ان کی نیت پر شک کر کے اچھا نہیں کیااور ان کی وجہ سے تمام غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو غیر ملکی قرار دے دیا ہے ۔“تو وہ کہنے لگے”انہوں نے کونسا ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ میں ان کا ساتھ دوں “ میں نے کہا ”ڈاکٹرطاہر القادری اعداد وشمار کے مطابق مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں میں 6500 لیکچرز دے چکے ہیں۔انہوں نے 1200 کتابیں تصنیف کی ہیں۔ان کی زیر نگرانی ایک انٹر نیشنل یونیورسٹی اور 42 کالجز کام کر رہے ہیں۔دنیا بھر میں ان کے 600 سکول قائم ہیں۔102 فری ڈسپنسریز کام کر رہی ہیں۔پاکستان کے 20 شہروں میں ایمبولنس سروس موجود ہے۔90 شہروں میں منہاج القران کا تنظیمی نیٹ ورک موجود ہے ۔80 شہروں میں اسلامک سنٹر ز موجود ہیں۔500 یتیم بچوں کے لیے آغوش اور پانچ سو یتیم بچیوں کے لیے بیت ِزہرا کے نام سے فلاحی ادارے قائم ہیں۔اتنا سب کچھ ملک وقوم کے لیے کرنے کے باوجود ان کی وفا داری پہ شک اور ملک و قوم کو لوٹ کر کھا جانے والے وفا دار،حیف ہے ،یہ کس قسم کا انصاف ہے اور آپ بھی انہی لوگوں کے ساتھ ہیں “ تو وہ بزرگ بولے ” ممکن ہے تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو مگر ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنی تصویریں کھنچوانے کا بہت شوق ہے اور اسلام میں اس کی ممانعت ہے “میں نے تقریباً سر پیٹتے ہوئے کہا ” حضوراسلام میں صرف اس تصویر کی ممانعت کی گئی ہے جو عبادت کے لیے بنوائی گئی ہو۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق قرآن حکیم میں ہے کہ انہوں نے مختلف علاقوں کے نادرہ کار صناع اپنے ہاں جمع کر رکھے تھے۔
یعملون لہ مایشاء من محاریب وتماثیل(34/13)
یہ حضرت سلیمان  کی منشا کے مطابق ان کے لیے بڑے بڑے خوبصورت محلات تعمیر کرتے اور ان میں مجسمے تراش کر یا تصویریں بنا کر رکھتے تھے۔تماثیل کا لفظ مجسمہ اور تصویردونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تصاویر اور مجسموں کے لیے ابتداء میں احتیاط برتی گئی کیونکہ اسلام نے بت پرستی کا قلع قمع کرنا چاہا تھا۔ جب مسلم معاشرہ میں بت پرستی کا اندیشہ باقی نہ رہا تو علماء نے اس سلسلہ میں پہلے کی شدت چھوڑ دی اور نرم گوشے پیدا کر لیے۔ بڑے بڑے مدعیان شریعت جو ماضی قریب میں تصویراتروانا تو کیا تصویر دیکھنا بھی حرام سمجھتے تھے۔ اب خوش ہو کر تصویریں کھینچواتے ہیں، اخبارات میں اپنی تصویریں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ٹی وی پر پروگرام میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے جلسوں کی فلمیں بنواتے ہیں ۔جہاں تک مجسمہ سازی کا تعلق ہے کچھ سال پہلے مولانا مودودی کو شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیاتھا ۔یہ ایوارڈ کیا تھا اس کے میڈل میں شاہ فیصل مرحوم کی تصویر ڈھلی ہوئی تھی یہ تو تصویر سے آگے بڑھ کر مجسمہ کی ذیل میں آتا ہے۔ اس باب میں بھی حضرت عمر کا عمل بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے ۔ابتدا میں اگرچہ بت پرستی کے استیصال پر زور دیا گیا تھا لیکن
چونکہ ذہنیت بدلنا مقصود تھا اس لئے جب مدائن کی فتح کے بعد اسلامی لشکر کسریٰ کے قصر ابیض میں داخل ہوا تو اس میں ادھر ادھر مجسموں کے حسین و جمیل شاہکار نصب تھے ۔حضرت سعد بن وقاص نے انہیں بڑی احتیاط سے محفوظ رکھا اور حضرت عمر نے ان کے اس فیصلے کی تقویت فرمائی اور ان مجسموں کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ اسی طرح نقاشی میں مسلمان مصوروں کی بڑی خدمات ہیں چغتائی اور صادقین کے نام آج بھی زندہ ہیں ۔میری تقریر سن کر وہ بزرگ بولے ”اتنے جذباتی نہ بنو۔ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک آدمی نہیں ہیں ۔ انہوں نے کوئی ریاست بچانے والی تحریک شروع کرنے سے پہلے مجھ سے یا دوسرے مشائخ عظام اور علمائے کرام سے مشورہ کیا تھا۔انہیں چاہئے تھا کہ میرے پاس آتے ۔کوئی نذر نیاز دیتے تو ممکن ہے میں ان کے حق میں دعا کرتا۔میں نے پوچھا ”کیا نواز شریف آپ کو نذر نیاز دیتے ہیں “ کہنے لگے ” وہ توصرف میری ہی نہیں تمام علمائے کرام کی خدمت کرتے ہیں۔اللہ ان کو اس بات کا ضرور اجر دے گا“میں نے پوچھا ”آپ کیا سمجھتے ہیں ان کے پاس جو دولت ہے وہ حلال کی ہے “کہنے لگے ” میرے سامنے تو انہوں نے کبھی چوری نہیں کی “ میں نے کہا وہ جو قرآن حکیم میں آیا ہے”اور جو لوگ مال و دولت جمع کرتے ہیں انہیں خوش خبری سنا دو ایک عظیم عذاب کی جس دن تپائی جائیں گی ان کی پیٹھیں، کروٹیں اور پیشانیاں کہ پس چکھو مزا دولت کو سینت سینت کر رکھنے کا“کہنے لگے ۔”زکوٰة ادا کرنے کے بعد جتنی دولت بھی ہو وہ جائز ہے“میں نے کہا ”قرآن حکیم میں یہ بھی آیا ہے کہ اپنی اوسط ضروریات سے زائد جو کچھ ہے دے دو ان کو ۔ جن کا حق ہے “بولے ” حضرت عثمان کے پاس بڑی دولت تھی “ میں نے کہا ”حضرت عثمان وہ دولت کفر سے اسلام میں لائے تھے اور انہوں نے وہ تمام اللہ کی راہ میں تقسیم کر دی تھی۔ حضرت عثمان جب شہید ہوئے تو ان کی ملکیت میں ایک اونٹنی اور دو بکریاں تھیں “غصہ سے مجھے دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولے ”تمہارے خیال میں دولت مند ہونا بری بات ہے“ میں نے کہا ” اگر اچھی بات ہے تو حضور سرورکائنات محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم زندگی کو موت پر سرفراز کرتے ہوئے یہ یادگار الفاظ نہ کہتے کہ ” اے خدا تُو گواہ رہ کہ جب محمد تجھ سے ملنے آیا تو اس کے گھر میں درہم و دینار نہیں تھے “بزرگ بولے”پھر کسی وقت بات کریں گے اب اشراق کی نماز کا وقت ہوگیا ہے “اور فون بند کر دیا۔
تازہ ترین