• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں طالب علموں کیلئے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ ہوا کے کسی خوشگوار جھونکے سے کم نہیں کہ عدالت عظمیٰ نے پی ڈی سی ایم آرڈیننس 2018کو کالعدم قرار دیتے ہوئے میڈیکل کالجز میں داخلے کیلئے میرٹ 60فیصد اور انٹری ٹیسٹ میں پاس، فیل کا قانون بھی ختم کر دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امیر بھٹی کے مذکورہ فیصلے کے بعد اب پھر 1100میں سے زیادہ سے زیادہ نمبر لے کر امیدوار داخلے کی دوڑ میں شامل ہو سکتا ہے جبکہ قبل ازیں انٹری ٹیسٹ میں 200میں سے 120نمبر حاصل کرنے والا ہی داخلے کا اہل تھا۔ تین کالجز کی چوائس کی شرط ختم کرنے سے امیدوار اپنے فارم میں اپنی مرضی کے مطابق جتنے کالجز کا نام چاہے، درج کر سکتا ہے۔ میڈیکل کالجز میں انٹری ٹیسٹ کا آغاز چند سال قبل اس بنیاد یا مفروضے پر ہوا کہ بعض طلبا و طالبات نقل کا سہارا لے کر اتنے زیادہ نمبر حاصل کر لیتے ہیں کہ باآسانی اپنے من پسند ادارے میں داخلے کے اہل ٹھہرتے ہیں۔ اس پر یہ سوال بھی اٹھا ،جو ہنوز جواب طلب ہے کہ اگر ایسا ہے تو تعلیمی بورڈز کی کارکردگی کیا ہے؟ انٹری ٹیسٹ کا مقصد میرٹ کو یقینی بنانا تھا یا نہیں، یہ حقیقت ہے کہ اپنے طریقہ کار کے حوالے سے یہ ٹیسٹ روزِ اول سے ہی تنقید کی زد میں رہا۔ نجی اداروں نے اس ٹیسٹ کی تیاری کے نام پر ہزاروں روپے فی طالبعلم کمانا شروع کر دیئے۔ کچھ عرصہ قبل ایک نجی اکیڈمی کے انٹری ٹیسٹ کا پیپر طالبعلموں کو فروخت کرنے کا اسکینڈل سامنے آیا تو بڑی لے دے ہوئی اور بجا طور پر کہ یہ ان بچوں کے حق پر نقب زنی تھی جنہوں نے دن رات محنت کی۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ لائق تحسین ہے، حکومت کو چاہئے کہ میڈیکل کے شعبہ کی سیٹوں میں اضافہ کرے اور تعلیمی بورڈز امتحانی نظام کو فول پروف بنائیں تاکہ حق صرف حق دار کو ہی ملے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین