• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
وزیراعظم عمران خان 5اگست کے بھارتی اقدامات کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نہ صرف میڈیا میں متحرک رہے بلکہ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پرجوش انداز میں کشمیریوں اور پاکستانیوں کی بھرپور نمائندگی بھی کی اور اپنی تقریر میں وہ ساری باتیں کیں جو شاید کسی پاکستانی حکمران نے اس انداز میں اتنے بڑے فورم پر پہلے کبھی نہیں کی تھیں! یہ الگ بات کہ ان باتوں کا نتیجہ کیا نکلا؟ وزیراعظم عمران خان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ٹرمپ نے بھی دکھاوے کیلئے ہی سہی، پاک بھارت کشیدگی کم کرانے اور دونوں میں ثالثی کی حامی بھرلی، مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ بھارت کو ثالثی کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔ اسلئے ثالث بننے کیلئے رضامندی ظاہر کرکے انہوں نے پاکستانیوں کو خوش کردیا جبکہ اس کا نقصان بھارت کو بھی نہیں ہوا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ اور مودی نے پہلے سے یہ طے کررکھا تھا کہ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا موقف اختیار کرنا ہے اور یہ کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کئے جانے کے بعد صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی؟ شاید اسی حکمت عملی کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمارے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران ان کی شخصیت کی اور پاکستانیوں کی اتنی تعریفیں کردیں کہ اس پر سب کو سخت حیرت بھی ہوئی۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے عمران خان کو ایک عالمی سطح کا لیڈر قرار دے کر ان کے ذمے یہ کام بھی لگادیا کہ وہ نہ صرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کرائیں بلکہ امریکہ ایران کشیدگی میں کمی کرانے کیلئے بھی کام کریں۔ سادہ لوح عمران خان پاکستان اور خود اپنی ’’عزت افزائی‘‘ دیکھ کر واقعی ایران و سعودی عرب کشیدگی ختم کرانے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھنے لگ گئے اب یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ ان کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں کمی آنے کا امکان بھی ہے؟ اسی طرح عمران خان ایران اور امریکہ کے درمیان بھی جوہری پروگرام کے حوالے سے ازسرنو کوئی معاہدہ کرانے کی کوشش کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں کوئی معاہدہ ہو بھی جائے مگر اس کی کیا ضمانت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے پر عمل بھی کریں گے؟ اور کیا وہ ایک ٹویٹ کے ذریعے اس کی دھجیاں نہیں بکھیردیں گے؟ وہ ایران اور طالبان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرچکے ہیں؟ اس کے علاوہ وہ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ کئے گئے امریکی معاہدوں سے منحرف ہونے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ بہرحال یہ بات انتہائی خوش آئند ہوگی کہ اگر پاکستانی وزیراعظم کے ذریعے دو اسلامی ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے سے بچ جائیں، البتہ عمران خان کی عالمی تنازعات کو حل کرانے کی ان کوششوں میں پاکستان کی توجہ کیا مسئلہ کشمیر سے ہٹ نہیں جائے گی؟ بھارت تو یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کو اپنی پڑی رہے اور عمران خان دوسرے معاملات میں الجھے رہیں اور وہ کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے اور مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے میں لگا رہے۔ ویسے بھی 5اگست کے بعد مسئلہ کشمیر جس تیزی کے ساتھ ابھرا تھا، اب اس میں وہ شدت نظر نہیں آرہی۔ اڑھائی ماہ سے کرفیو کی زد میں رہنے والے معصوم کشمیری ابھی اس پوزیشن میں نظر نہیں آرہے کہ بھارت کی دس لاکھ کے قریب فورسز کے ساتھ مقابلہ کرسکیں؟ انہیں اس صورتحال سے نکلنے اور سنبھلنے میں شاید بہت وقت درکار ہوگا۔ دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کا کیس بھی زیادہ مضبوط ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پاکستان جب عالمی سطح پر یہ کہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو قید کیا گیا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، میڈیا پر پابندیاں، کشمیریوں کی آواز کو دبایا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ، ان باتوں پر پاکستان سے عالمی سطح پر یہ سوال بھی توہوتے ہوں گے کہ کیا پاکستان میں حکومت کے مخالفین پر کیس نہیں بنائے جارہے، کیا وہاں پر کرپشن کے نام پر مخالفین کو جیلوں میں بند نہیں کیا گیا؟ کیا پاکستان میں میڈیا آزاد ہے؟ مزید برآں یہ کہ سابق حکومت کے دور میں جب عمران خان نے اسلام آباد میں 126دن دھرنا دیئے رکھا تو کیا پیمرا کے ذریعے حکومت نے ان کی لائیو کوریج پر کوئی پابندی لگائی؟ میڈیا تو مسلسل 126دن عمران خان کے دھرنے کی براہ راست کوریج کرتا رہا، تو پھر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور اب مولانا فضل الرحمٰن کی لائیو کوریج پر کیوں پابندی لگائی گئی؟
تازہ ترین