• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سرفراز احمد پی سی بی کے دل اور ٹیم سے کیسے باہر نکل گئے؟

مصباح الحق نیازی اس وقت پاکستان کرکٹ میں سب سے طاقتور شخص ہیں۔ بھاری تنخواہ اور مکمل اختیارات نے انہیں ہر مرض کا علاج قرار دیا ہے۔سب کچھ حاصل کرنے کے بعد کیا مصباح الحق پاکستان ٹیم کو دنیا کی صف اول کی ٹیم بنواسکیں گے۔

یہ سوال ہر کسی کی زبان پر ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی اور خاص کر سرفراز احمد کی عالمی مقابلے میں بیٹنگ میں قابل ذکر کارکردگی نہ ہونے کے بعد سے اس بات کے اشارے مل رہے تھے کہ سرفراز احمد کی کپتانی خطرے میں ہے تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کو سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں کپتان برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔اپریل میں پی سی بی چیئرمین احسان مانی نے کہا تھا کہ سرفراز آسٹریلیا کے دورے میں بھی کپتانی کریں گے۔

پھر ایسا کیا ہوا کہ سرفراز پی سی بی کے دلوں سے باہر نکل گئے۔کیادال میں کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔مصباح الحق نے چارج سنبھالنے کے بعد اپنے راہ میں پڑا سب پتھرہٹا دیا۔سرفراز احمد کو کپتانی سےہٹا کر مصباح الحق نے مکی آرتھر کے دور کے کپتان کو باہر کردیا۔اب مصباح الحق کے لئے میدان کھلا ہے۔

انہوں نے اپنی مرضی سے وقار یونس کو بولنگ کوچ بنوایا اب اظہر علی کوٹیسٹ اور بابر اعظم کوٹی ٹوئینٹی فارمیٹ کا کپتان بناکر پی سی بی سے ایک اور مطالبہ منوا لیا۔اظہر علی نے اپنی آخری ٹیسٹ سیریز میں جنوبی افریقا کے خلاف چھ ٹیسٹ اننگز میں صرف 59رنز بنائے تھے۔وہ جنوبی افریقاکے خلاف آخری ٹیسٹ سیریز میں دو بار صفر پر آؤٹ ہوئے تھے جبکہ اس سیریز میں ان کا سب سے بڑا سکور 36 رنز تھا۔اظہر علی کا کپتانی کا انداز دفاعی رہا ہے ۔وہ اس سے قبل صرف ایک ٹیسٹ میں کپتانی کر چکے ہیں جس میں پاکستانی ٹیم کو شکست ہوئی تھی۔ 

اظہرعلی کا شمار اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کے سب سے تجربہ کار بیٹسمین کے طور پر ہوتا ہے تاہم گذشتہ دو سال سے وہ ٹیسٹ میچوں میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد اظہرعلی 25 ٹیسٹ اننگز میں صرف ایک سنچری ا سکور کرنے میں کامیاب رہے۔

بابر اعظم کو حال ہی میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے نائب کپتان مقرر کیا تھا جو اس جانب اشارہ تھا کہ انہیں جلد ہی قیادت کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔بابر اعظم نہ صرف آسٹریلیا کے دورے میں کھیلی جانے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پہلی بار قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں گے بلکہ آئندہ سال آسٹریلیا ہی میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی کپتانی کے فرائض انجام دیں گے۔بابر اعظم اس وقت ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں نمبر ایک بیٹسمین ہیں۔

پاکستان کی کرکٹ ٹیم سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز دو صفر سے جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی تاہم سری لنکا کی نوجوان ٹیم کے ہاتھوں ٹی ٹوئنٹی سیریز میں تین صفر کی ہزیمت کے بعد سرفراز احمد کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا تھا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کی سفارشات پر کیا ہے جو سرفراز احمد کی کپتانی سے خوش دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ بورڈ کے اہم عہدے داروسیم خان نے فیصل آباد میں سرفراز احمد کو اپنے فیصلے پر اعتماد میں لیالیکن مصباح الحق نے فیصل آباد کے ہوٹل میں دو دن رہنے کے باوجود سرفراز احمد سے بات نہ کی۔

بھاری تنخواہ پر کام کرنے والے ہیڈ کوچ کی ذمے داری تھی کہ وہ سرفراز احمد کو بتائیں کہ ان کی بیٹنگ میں کیا خامی ہےلیکن کوچ نے ایسا کرنے سے بھی گریز کیا۔سابق کپتان اور ہیڈ کوچ معین خان کہتے ہیں کہ کوچ کی ذمے داریوں میں یہ ذمے داری بھی شامل ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو اس کی غلطی بتائیں تاکہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کریں۔

وقار یونس ہیڈ کوچ تھے تو ماہر ڈاکٹر کی طرح کھلاڑی کو اس کا مرض بتاتے تھے لیکن ان کے لئے دوا کی تشخیص نہیں کرتے تھے مصباح ایسے ڈاکٹر ہیں جن کے پاس مریض کو دیکھنے کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔معین خان نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو کھلا میدان دے دیا ہے اب مصباح الحق کو سب سے بڑے اور مشکل چیلنج کا سامنا ہے۔سرفراز احمد ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کے سب سے کامیاب کپتان ہیں۔ 

انھوں نے 37 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کی ہے جن میں سے 29 جیتے اور صرف آٹھ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستانی ٹیم اس وقت ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہے۔ایک سال سے پاکستانی ٹیم پہلے نمبر پر ہے۔ٹی ٹوئنٹی کے برعکس ٹیسٹ اور ون ڈے میں سرفراز احمد کی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بحیثیت کپتان 13 ٹیسٹ میچوں میں صرف چار ٹیسٹ جیتنے میں کامیاب ہو سکے اور آٹھ میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک میچ ڈرا ہوا۔

سرفراز احمد نے 50 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں کپتانی کی جن میں سے 28 جیتے، 20 میں شکست ہوئی ہے جبکہ دو میچ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے۔کپتانی کے دور میں سرفراز احمد کی اپنی بیٹنگ متاثر ہوئی ہے۔ ورلڈ کپ میں وہ صرف ایک نصف سنچری سکور کرنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔جنوبی افریقاکے خلاف آخری ٹیسٹ سیریز میں انھوں نے دو نصف سنچریاں بنائیں لیکن تین اننگز میں وہ صفر پر آؤٹ ہوئے تھے جن میں سنچورین ٹیسٹ میں پیئر بھی شامل تھا۔

سرفراز احمد پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اوپر کے نمبر پر بیٹنگ کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔سرفراز نے اپنے کرئیر میں اب تک 188 ٹی ٹوئنٹی، 116 ون ڈے اور 49 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں۔سرفراز احمد کو 2016 میں بھارت میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کپتانی دی گئی۔ 2017 میں انکو ون ڈے جبکہ اسی سال مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعدانہیں ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی بھی سونپ دی گئی۔سرفراز کی کپتانی میں ہی پاکستان کرکٹ ٹیم نے 2017 میں انگلینڈ میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی جیتی۔ 2018 میں انھیں پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ 

وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے پاکستان کے کم عمر ترین کرکٹر ہیں۔پاکستان کرکٹ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے، سری لنکا کی ٹی ٹوئینٹی سیریز میں پاکستان ٹیم کے بعض کھلاڑیوں کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اپنی اصل کرکٹ کھیلنے سے گریز کررہے تھے۔کھلاڑیوں نے جان بوجھ کر خراب کارکردگی دکھا ئی اور سرفراز احمد کو ناکام بنانے اور کچھ لوگوں کی راہ ہموار کی۔ہار میں سنیئر کھلاڑیوں کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔معین خان نے کہا کہ میں یہ بات نہیں مانتا لیکن مجھے لوگ اس بارے میں بتا کر حیران کررہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور کے تیسرے ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میں ٹی وی فوٹیج میں یہ با ت واضع طور پر دکھائی جارہی ہے کہ فاسٹ بولر وہاب ریاض ،کو کپتان سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہاب ریاض انہیں پیچھے جانے کا اشارہ کررہے ہیں۔آگے جاکر وہاب ریاض کو وہی بات بابر اعظم نے بتائی تو وہ تحمل سے ان کی بات سن رہے ہیں۔

اسی میچ میں سرفراز احمد کے آوٹ ہونے پر پی سی بی کے ایک اعلی افسر کارپوریٹ باکس میں ڈانس کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔اس بارے میں پاکستان ٹیم کے ایک سنیئر کھلاڑی کا کہنا ہے کہ دلوں کے حال تو اللہ ہی تو پتہ ہے لیکن دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔ تینوں میچوں میں کچھ کھلاڑیوں کی باڈی لیگویج بہت سارے سوالوں کا جواب دے رہی ہے۔

تینوں میچوں میں یہی کھلاڑی مختلف روپ میں دکھائی دے رہے ہیں۔سرفراز احمد کی کپتان کو متنازع انداز میں خاموش کردیا گیا جو لوگ پہلے ہی بااختیار تھے انہیں مزید اختیارات دے دیئے گئے۔تاریخ کی سب سے زیادہ تنخواہ اور بھاری مراعات اور سب سے بڑھ کر اختیارات کے ساتھ کیا مصباح الحق ٹیم کو جیت کی راہ پر گامران کر سکیں گے۔ مسلسل 11 سیریزیں جیتنے والے کپتان کو، صرف ایک سیریز کی بنیاد پر سرفراز احمد کو اس فارمیٹ سے ہٹادینا کیا انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے۔2015میں غلط فیصلوں اور کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ جہاں رکا تھا، ایسا لگتا ہے کہ 2019ء میں وہیں سے شروع ہوگیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سرفراز احمد سے متعلق جو شرمندگی سرفراز کی کارکردگی کی وجہ سے مصباح اور وقار یونس کو 2015ء کے ورلڈ کپ میں ہوئی تھی، انہوں نے اس کا بدلہ تو نہیں لے لیا؟ کیونکہ جس کپتان نے گزشتہ 14 سیریز میں سے 12 میں فتوحات سمیٹی ہوں اور ان 12 میں سے بھی 11 لگاتار سیریز جیتی ہوں، اس کپتان کو محض ایک سیریز میں شکست کی وجہ سے نکالنا عقل والی بات لگتی نہیں۔اسی لئے شاید اس فیصلے کو عوام کے ساتھ ساتھ سابق نامور کھلاڑی بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، سرفراز کے حق میں مظاہرے کئے جارہے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین