شامِ غم نا تمام کب تک ہے
جبر یوں بے لگام کب تک ہے
یہ جہان خراب کب تک ہے
ڈھونڈتے پھر رہے ہیں معنی سب
نعرے اُگتے ہیں،باس دیتے ہیں
ایسی لا یعنیت میں فرصت ہے
کیسے ہوتی تھی پرچموں کی بہار
کیسے زخموں پہ مہکتا تھا نشہ
ہونٹوں پہ مصلحت کے کانٹے ہیں
قفلِ مرگ اب ہے گلستاں کا نصیب
گلستاں کیا، یہ رنگِ گورستاں
روز اِک تازہ قبر بنتی ہے
مُردہ آوازیں ڈُوب جاتی ہیں
مرثیے بے بسی کی چادر میں
منہ چھپائے ہوئے تڑپتے ہیں
سارے قصّے تمام ہوتے ہیں
فلسطیں، گُم شُدہ فسانہ ہوا
ارضِ کشمیر اب نشانِ قضا
شامِ غم ناتمام کب تک ہے
نعرے اُگتے ہیں، باس دیتے ہیں
مرثیے بے کسی کی چادر میں
منہ چھپائے ہوئے تڑپتے ہیں