کیا افسانہ اور افسانچہ دو الگ الگ اصناف ہیں؟ اگر ہیں تو ان کے فنی، ہیئتی اور تکنیکی امتیازات کیا ہیں؟جب جب یہ سوال سامنے آتا ہے ،میرا جواب ہوتا ہے، افسانچہ کوئی الگ صنف نہیں ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ افسانچہ اپنے اوپر غیر ضروری اختصارکی پابندی لگا کرہی اپنے تخلیقی امکانات کا دائرہ محدود سے محدود تر کرتارہا ہے۔ ہمارے ہاں افسانچہ لکھنے والے ، یا اس باب میں قابل ذکر کام دینے والے بنیادی طور پر افسانہ نگار ہی رہے ہیں ۔
افسانہ ہی ان کی بنیادی ترجیح رہی ہے اور اگر ان کے فن کی نمائندگی ممکن ہے تو ان کے افسانوں سے ہے ، افسانچوں سے نہیں ۔ایسے افسانہ نگاروں کے ہاں یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں افسانہ نہیں بن سکا، اُنہوں نے محض ایک خیال ، ایک چٹکلا، ایک دانش پارہ لکھ دینے پر اکتفاکیا اور اسے ہم افسانچے کے طور پر شناخت کرنے لگے ۔
آپ منٹو سے منشایاد تک چلے آئیں، ان کے افسانے ہی ان کے فن کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ تحریریں نہیں جنہیں آپ ’’افسانچے‘‘ کہتے ہیں چاہے یہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ اور’’ بند مٹھی میں جگنو‘‘ والے ہی کیوں نہ ہوں اور یہی بات میں ناول ’’چوربازار‘‘ اور افسانوں ’’زرد چہرے‘‘ والے ابراہیم جلیس کے ’’اوٹ پٹانگ‘‘ کے عنوان تلے لکھے گئے افسانچوں کے باب میں بھی کہوں گا۔یاد رہے کہ اردو میں اولین افسانچوں کی مثال ہونے والے منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو محمد حسن عسکری نے کہیں مختصر افسانے کہا اور کہیں لطیفے، تاہم انہیں یوں قبول کیا تھا کہ وہ ’’انسانی دستاویز‘‘ ہو گئے تھے ۔
یہ قبولیت خلیل الرحمن اعظمی کے ہاں نہ تھی کہ وہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے افسانچوں کو’’منفی کوشش‘‘ اور ’’لطیفے‘‘ کہہ کر رد کر رہے تھے۔ ممتاز حسین نے بھی ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو لطیفوں، پہیلیوں اور چٹکلوں کی ایسی کتاب کہا تھا جو فسادات کے واقعات سے مرتب ہوئی تھی بات یہاں تک رُکتی نہیں، وارث علوی تک آجائیں، جو منٹو کے فن کے عاشق تھے ، ان پر ایک بہت اہم کتاب بھی لکھی مگر وہ بھی ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے ’’افسانچوں‘‘ کو افسانے ماننے سے انکاری ہیں، کہتے ہیں یہ افسانے نہیں لطیفے اور چٹکلے ہیں۔ بہت اچھے لیکن منٹو کے افسانوں کے مقابلے میں بہت کم اہمیت کے حامل۔
اب رہا یہ سوال کہ اردو میں مائکرو فکشن یا افسانچے کا مستقبل کیاہو سکتا ہے؟ تو اس ضمن میں بہت کوششیں ہو چکی ہیں اور ہورہی ہیں ۔ اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے مائکرو فکشن یا افسانچہ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی ہے، یہ سب لکھنے والے میری نگاہ میں ہیں، میں اس باب کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں مگر مجھے خدشہ ہے کہ جس طرح ماضی میں افسانچہ اردو میں مقبول نہ ہوسکا، حالاں کہ اسے سعادت حسن منٹو ، جوگندر پال اور منشایاد جیسے اعلیٰ فکشن لکھنے والوں کی توجہ حاصل رہی ، مائکرو فکشن کے نام پر لکھے جانے والے افسانچے بھی تخلیقی سطح پر اہم نہ ہو پائیں گے ۔
ہمارے ہاں کتھائوں، حکایتوں، لطائف، دیہی دانش کی کہاوتوں، چٹکلوں اور حتیٰ کہ بولیوں کو بھی اسی طرح کی خُرد کہانیاں بنا لیا جاتا رہا ہے جو مقبول ہوتی ہیں مگر وہ تخلیقی تکریم نہیں پاسکیں جو افسانے کا مقدر ہے۔ یہ سب اپنی جگہ بہت اہم سہی مگر کیا انہیں فکشن مان لیا گیا؟ نہیں نا! میں نے پہلے بھی ایک مقام پر کہا اور اب دہرائے دیتا ہوں کہ فکشن لکھنا محض ماجرا نویسی ہے نہ چٹکلا لکھ لینا یا دانش پارہ اختراع کرلینا یہ تو زندگی کی از سر نو تخلیق سے عبارت ہے۔
فکشن لکھنے والے اپنے قاری کو پہلے ایک منظر، ایک ماحول، وقت کے ایک پارچے اور ایک صورت حال میں لے جاتے ہیں، وقت کی اس رفتار سے ہم آہنگ کرتے ہیں اور اس ماحول سے مانوس کرتے ہیں جس میں لکھنے والا اس افسانے کے ضمن میں اپنے قاری کو لے جانا چاہتا ہے۔ ٹائم اور اسپیس افسانے کا بنیادی مسئلہ ہیں، انہی کو سلیقے سے کام میں لاکر گہرائی اور گیرائی کا اہتمام ہوتا ہے، بیان کا اُتھلا پن ختم کیا جاتا ہے اور بیانیے کی تشکیل ممکن ہو پاتی ہے۔ کرداروں کو اپنی قامت بنانا ہوتی ہے اور اپنے لیے ایسی گنجائشیں پیدا کرنی ہوتی ہیں کہ محض ان کے بولے ہوئے مکالمے اہم نہ رہیں۔ ان کی ایک ایک حرکت سے معنیاتی سلسلہ پھوٹتا رہے۔
افسانے کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ بتائے ، اسے تو دکھانا اور اس سے کہیں زیادہ سجھانا ہوتا ہے؛ایسی صورت حال کو سجھانا جو بالعموم ہم بیان نہیں کر سکتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ افسانچے، فلیش فکشن، پوپ فکشن یا مائکرو فکشن کے نام پر تجربہ نہیں ہونا چاہیے کہ لکھتے رہنے سے،اور ریاضت سے اس میں اچھے نمونے بھی نکل سکتے ہیں اور اچھے نمونے نکلے بھی ہیں، تاہم بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے یہاں تخلیقی گَربھ اِستھان میں سانس لیتی زندگی کو وہیں مار دھکیل اور کاغذ پر پھینک کرایک اعلیٰ فن پارہ، افسانہ بننے کے سارے امکانات تلف کر دیے گئے ہیں ۔ یہ صنف (اگر یہ کوئی الگ صنف ہے تو بھی) صحافتی ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے اور کر رہی ہے مگر میرا گمان یہ ہے (اللہ کرے یہ گمان باطل ہو جائے) کہ اس میں کوئی بڑا تخلیقی تجربہ ممکن نہیں ہے۔
یہاں یہ تسلیم کرنا ہے کہ ایک لحاظ سے افسانچہ بہت مقبول ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ مقبولیت اسے صحافت کے کوچے میں میسر آئی ہے۔ مبشر علی زیدی نے روزنامہ جنگ میں محدود لفظوں کے افسانچے یعنی سو لفظوں کی کہانی کو مقبولیت کی جس سطح پر پہنچا دیا ہے، ایسی مقبولت تو شاید کسی بڑے افسانہ نگار کے کسی شاہکار افسانے کے بخت میں بھی نہ آئی ہوگی، مگر ایسا صحافت کی ذیل میں رکھ کر، صحافتی وسیلوں کو استعمال کرتے ہوئے اور صحافت کی فوری ضرورتوں کو پورا کر سکنے پر ممکن ہوپایا ہے ۔
تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہماری ادبی صحافتی تاریخ میں ’’سو لفظوں کی کہانی‘‘ ایسا واقعہ نہیں ہے جسے سہولت سے نظر انداز کیا جاسکے گا ۔ اس کے ادبی فضا پر اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ ننھی منی کہانیوں کی سوشل میڈیا میں ایک باڑھ آگئی ہے اور یونیورسٹوں اور کالجوں کے طالب علم بھی ادھر دیکھنے لگے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کم نہ زیادہ، گنے ہوئے سو لفظوں میں کہانی کہنے کا رواج برمنگھم یونیورسٹی سے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں پڑا تھا ۔ وہاں کی سائنس فکشن سوسائٹی نے وہی کام کیا جو ہمارے ہاں مبشر زیدی نے کیا۔ سو لفظی کہانی لکھنے کے اس کھیل کو ڈریبل کا نام دیا گیا ۔ یہ جو مختصر ترین کہانی لکھنے کے فن کو کھیل کہا ہے تو، واقعہ یہ ہے کہ پہلے پہل یہ کھیل ہی تھا ۔ مونٹی پائی تھون نامی سرکس گروپ نے اسے بہ طور کھیل متعارف کروایا، سو لفظوں کا کھیل، جس میں لفظ کہانی بن جاتے تھے۔
مبشر کی ان کہانیوں میں ایک خاص قرینہ ہے، قرینہ کہہ لیں یا ایسی چٹکی جو عین آخر میں وہ چپکے سے لے لیا کرتے ہیں ، کبھی کبھی تو یہ چٹکی طمانچہ ہو جاتی ہے یا گد گدی ، اور لطف یہ ہے کہ صورت کوئی بھی ہو باڑھ کا سا کام کرتی ہے۔یہیں بے نظیرشاہ کا کہا یاد آتا ہے :’’باڑھ سیل شباب ساقی کی،وہ اُبلتی شراب کی سی ہے‘‘۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ مبشرزیدی نے خبر کی طرح اپنے قاری کی ساری توجہ بٹورنے کا ہنرجان لیا تھا ۔ سو یوں ہے کہ وہ فکشن کو اخبارات کے صفحات پر لے گئے اوراخبارکے قاری کی پوری توجہ پالی۔ ادب کا قاری بھی تو اخبار پڑھتا ہے اس کے لیے خبر سے زیادہ یہ سو الفاظ لائق توجہ ہو گئے۔ ہمارے ہاں فکشن سے محبت کرنے والوں کو جوش آیا کہ اسے ادب کی بھی مقبول ترین صنف بنا دینا چاہیے ۔
لگ بھگ اسی نیک ارادے سے، اسی دورانیے میں برطانیہ میں مقیم اُردو افسانے اور ناول کے اہم نام مقصود الہی شیخ نے’’پوپ کہانی‘‘ کا ڈول ڈالا اور اوپر تلے چار مجموعے چھپوا لیے۔ دھیان رہے کہ نوجوان ناول نگاروں، افسانہ نگاروں میں، پہلے سے اپنے فن کی وجہ سے توجہ حاصل کرنے والے اقبال خورشید اور احمد اعجاز بھی اس خُردا فسانے کی طرف لپکے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے اک سماں بندھ گیاہے۔
اس ساری فضا بندی میں اخبارات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ سوشل میڈیا پر ’’انہماک‘‘ کے نام سے ادبی فورم چلانے والے سید تحسین گیلانی، افسانچے کو مائکرو فکشن کے نام سے ترویج دینے کی ٹھانے ہوئے ہیں اور ایسے نوجوان لکھنے والوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں جو مختصر ترین کہانی لکھ سکتے ہیں ۔
اپنی اسی ٹیم کی مدد سے انہوں نے سو سے زائد مائکرو فکشن کے نمونے اپ لوڈ کرنے کے بعد ہماری طرف دیکھا اور ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے ایک سوالنامہ میل کر دیا ۔ ہمیں جو سوجھا؛جواب میں لکھ بھیجا ۔ ایک سوال کے جواب میں،میرے قلم سے خطا ہو گیا تھا کہ مائکرو فکشن میں کوئی بڑا تخلیقی تجربہ ممکن نہیں ہے، بس پھر کیا تھا اس پر خوب خوب ہنگامہ ہوا ۔
کچھ نے کہا، شاعر ایک مصرع میں تخلیقی تجربہ کر سکتا ہے تو فکشن لکھنے والا مائکرو فکشن میں کیوں نہیں؟ سوال خوب ہے، مگر کیا شاعری کا تخلیقی تجربہ (جس میں زمان و مکاں پوری طرح دخیل نہیں ہوتے) اور فکشن کا تخلیقی تجربہ (جس میں آپ ان سے کنی کاٹ کر گزر نہیں سکتے) ایک ہی طرح کام کر رہے ہوتے ہیں ؟ یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہو گا، ہونا بھی چاہیے ورنہ آپ فکشن پارہ تخلیق کرنے نکلیں گے اور نثر میں شاعری کرکے اسے’’ نثم‘‘ بنا ڈالیں گے۔
اب تک منظر عام پر آنے والی نثری شاعری کا ذخیرہ پڑھ جائیے ، سو میں سے پچانویں فن پارے مائیکرو فکشن لگیں گے، جی ننھی منی کہانیاں اور آپ کی خرد کہانیوں سے زیادہ تخلیقی لپک کے ساتھ۔ دراصل اصناف کے ناموں کی قبولیت کا نظام الل ٹپ ہوتا ہے۔
اس ضمن میں کوئی فارمولا وضع نہیں کیا جا سکا ہے۔ اگرچہ بہت اہم نظم نگار ستیہ پال آنند نے اگر چہ’’ افسانچہ‘‘ یا’’پوپ فکشن‘‘ کی جگہ مائکرو فکشن کو اپنا لینے کا مشورہ دیا ہے کہ اسے مغرب میں یہی کہا جاتا ہے مگر یہاں کیایہاں ’’افسانچہ‘‘ متروک اور’’مائکرو فکشن‘‘ مقبول ہو جائے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ دیکھیے افسانے کا لفظ ہمارے پاس پہلے سے تھا، ہم قصوں میں، کتھائوں میں، داستانوں میں موجود افسانہ دیکھ لیا کرتے تھے، لہٰذا شارٹ اسٹوری کی بجائے ہم نے مربوط اور منضبط کہانی کو افسانہ کہا اور یہی رائج ہوگیا۔
یہ بھی بجاکہ ناول کے نام کو بدلنے کی ہم نے ضرورت محسوس نہ کی۔ یہ ہماری داستان سے ہمارے قصوں سے اور کتھا کہانی سے الگ لگی تو ضرورت محسوس کی گئی کہ اسے الگ سے دیکھا جائے تو ناول نام ہی کو قبول کر لیا گیا، پھر اُردو زبان کی ایک خوبی یہ بھی تو ہے کہ دوسری زبانوں کے جو الفاظ اور اصطلاحیں اسے بھلی لگتی ہیں ،اُنہیں اپنا لیتی ہے۔ناول کو بھی اس نے بخوشی اپنا لیا ہے،یوں جیسے ریل،ریڈیو، فٹ بال وغیرہ کو اپنا لیاتھا۔
لفظ فکشن بھی اب اردو کا لفظ ہے اور جہاں ناول اور افسانے دونوں کی جانب اشارہ مقصود ہو وہاں فکشن کا لفظ مدد کو آتا ہے کہ اس کا ان معنوں میں متبادل ہمارے پاس نہیں تھا۔ خیر اب سوال یہ ہے کہ افسانچہ کا لفظ پہلے سے مروج ہے ،تو کن بنیادوں پر آپ اسے مائکرو فکشن، شارٹ فکشن، فلیش فکشن اور فاسٹ فکشن سے الگ کرکے دیکھ سکتے ہیں ۔
ظاہر ہے یہ بنیادیں تیکنیک اور فن کے حوالے سے افسانچے سے اسے الگ کرکے ہی فراہم کی جاسکتی ہیں۔ میں ایسی بنیادیں نہیں پاسکا ہوں لہٰذا سب کو افسانچے کی ذیل میں رکھتا ہوں ۔