دنیا ایک ایسا مقام ہے جہاں لوگ آتے اور چلے جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے جانے سے دنیا میں ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے جو مشکل سے بھر پاتا ہے اور لوگ اُنہیں مدتوں یاد رکھتے ہیں۔
انہی لوگوں میں سے ایک شخصیت انٹیلی جنس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر اور سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات خان تھے جو گزشتہ دنوں کراچی میں انتقال کرگئے۔ 54سالہ شاہد حیات کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور کچھ ماہ قبل کینسر کی تشخیص ہونے پر نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔
پولو کے بہترین کھلاڑی شاہد حیات نے ایسے وقت میں جب کراچی میں لاقانونیت اور پولیس آپریشن عروج پر تھا، سیاسی کشمکش اور جرائم پیشہ گروہوں کے گرائونڈ پر بطور ایڈیشنل آئی جی کراچی بہترین کھیل پیش کیا۔
شاہد حیات جنوری 1965ء میں ڈی آئی خان میں پیدا ہوئے۔ 1991ء میں انہوں نے پنجاب پولیس میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد ان کی خدمات سندھ پولیس کے حوالے کردی گئیں۔ 1995ء میں جب کراچی میں دہشت گردی عروج پر تھی اور بوری بند لاشیں ملنا معمول کی بات تھی، شاہد حیات کو کراچی کے انتہائی خطرناک علاقے پاک کالونی میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر (SDO) کی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔
اس دوران دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں چہرے پر گولی لگنے سے وہ شدید زخمی ہوئے اور 3ماہ اسپتال میں زیر علاج رہنے اور چہرے کی سرجری کے بعد انہوں نے اسی علاقے میں دوبارہ چارج سنبھالا اور شرپسندوں کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔
1996ء میں مرتضیٰ بھٹو کے خلاف ہونے والے آپریشن میں شاہد حیات بھی شریک تھے۔ اس آپریشن میں مرتضیٰ بھٹو مارے گئے جبکہ شاہد حیات گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوئے اور طویل عرصے تک اسپتال میں زیر علاج رہے۔
صحت یابی کے بعد انہیں دیگر پولیس افسران کے ساتھ مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے سلسلے میں گرفتار کرلیا گیا اور شاہد حیات ساڑھے تین سال تک قید کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ جیل سے رہائی کے بعد انہیں کراچی کے علاقے صدر کا سب ڈویژنل پولیس آفیسر (SDO) متعین کیا گیا۔ بعد ازاں وہ ایس پی ٹھٹھہ رہے جہاں تعیناتی کے دوران 2002ء کی الیکشن مہم میں سیاسی بنیاد پر ان کا تبادلہ دوبارہ کراچی کردیا گیا جہاں وہ ایس پی انویسٹی گیشن اور اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ بھی تعینات رہے۔
انہوں نے کچھ عرصہ ایف آئی اے میں ڈائریکٹر سندھ اور موٹر وے میں ایڈیشنل آئی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے انٹیلی جنس بیورو میں جوائنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے تعینات تھے اور اطلاعات تھیں کہ صحت یابی کے بعد وہ لندن میں پاکستانی سفارتخانے میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
شاہد حیات ایک ایماندار، بہادر اور نڈر پولیس افسر تھے اور ان کی زندگی بہادری کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ اپنی 25سالہ پولیس ملازمت میں فرائض کے دوران وہ دو مرتبہ گولی لگنے سے شدید زخمی ہوئے۔شاہد حیات زندگی بھر پولیس کی جانب سے ملنے والے دو بیڈ روم کے گھرمیں مقیم رہے اور کراچی پولیس کا سربراہ بننے کے باوجود وہ اسی گھر میں رہائش پذیر رہے۔
میں آج شاہد حیات کی فرض شناسی کا واقعہ بتانا چاہتا ہوں۔ ایک بار میری کمپنی کا ڈینم سے بھرا کنٹینر پاکستانی شپنگ ایجنٹ نے امپورٹر کے ساتھ مل کر پیسے بھیجے بغیر اُسے ریلیز کروادیا جس کی مالیت تقریباً ایک لاکھ ڈالر تھی۔
شاہد حیات اس وقت ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ تھے اور جب میں فراڈ کی شکایت لے کر ان کے پاس گیا تو سوچ رہا تھا کہ وہ مجھ سے دوستی کا لحاظ کرتے ہوئے ایجنٹ کے خلاف فوراً ایکشن لیں گے مگر انہوں نے ایک سینئر ایف آئی اے حکام سے اس بات کی تحقیقات کرائی کہ میری شکایت میں کس حد صداقت ہے اور کہیں کسی دوسری پارٹی کے ساتھ زیادتی نہ ہوجائے۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں بھی ان کے دوستوں میں شامل تھا اور وہ کئی بار میرے گھر کھانے پر تشریف لائے جبکہ مراکش کے قومی دن پر منعقدہ تقریب میں بھی وہ شریک ہوتے تھے اور اکثر مجھ سے کہتے کہ آپ مجھے مراکش کب لے کر چل رہے ہیں۔
2016ء میں جب شاہد حیات ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ تھے اور ایک کورس کے اسٹیڈی ٹور کے سلسلے میں کینیا کے شہر نیروبی گئے تو انہیں ڈبل نمونیا ہوگیا اور حالت اتنی بگڑ گئی کہ وہ کچھ روز آغا خان اسپتال میں وینٹی لیٹر پر رہے۔ ایسے میں کچھ پاکستانی ٹی وی چینلز نے اُن کی موت کی خبر نشر کردی مگر بعد میں یہ خبر غلط ثابت ہوئی اور وہ صحت یاب ہوکر وطن واپس لوٹے۔
کینیا سے واپسی پر جب میری ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے بتایا کہ آپ کی موت کی افواہوں سےآپ کے چاہنے والوں کو شدید صدمہ پہنچا تو وہ مسکراتے ہوئے بولے کہ ’’ابھی میں نے آپ دوستوں کے ساتھ کچھ اور وقت گزارنا ہے۔‘‘ اسی طرح جب گزشتہ روز اُن کی موت کی خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی تو مجھ سمیت کئی دوست یہ سمجھتے رہے کہ آج پھر شاہد حیات کی موت کے بارے میں افواہ پھیلادی گئی ہے لیکن کیا پتہ تھا کہ یہ خبر صحیح ہوگی۔
شاہد حیات کی نماز جنازہ گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹرز میں ادا کی گئی جس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، میئر کراچی وسیم اختر اور سینئر پولیس افسران نے شرکت کی۔ بعد ازاں اُن کی میت کو ان کے آبائی علاقے ڈی آئی خان منتقل کیا گیا۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا افسوس رہے گا کہ بیرون ملک ہونے کے باعث ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کرسکا۔
شاہد حیات نے اپنے بے داغ کیریئر اور ایمانداری کی وجہ سے دوستوں سے زیادہ دشمن بنائے مگر اُن کے دشمن بھی ان کی بہادری اور ایمانداری کا اعتراف کرتے تھے اور آج ان کے دنیا سے جانے سے ملک ایک دیانتدار، فرض شناس اور بہادر افسر سے محروم ہوگیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)