• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف حکومت کی ناقص کارکردگی اور نااہلی اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ سے ظاہر ہو گئی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پی ٹی آئی کی گورنمنٹ نے سال رواں کے دوران 7ہزار ارب روپے کا ریکارڈ قرضہ حاصل کیا ہے۔ اگست 2018سے اگست 2019کے دوران 4ہزار 705 ارب روپے مقامی اور 2ہزار 804ارب روپے غیر ملکی قرضہ حاصل کیا گیا۔ حکمرانوں نے عوام کو شدید مایوس کیا ہے اور ہر محاذ پر ناکامی حکومت کا مقدر بنی ہے۔ ادویات کی قیمتیں مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔

ایک سال کے دوران چوتھی بار قیمتوں میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کی رٹ عملاً ختم ہو چکی ہے اور پرائس چیک اینڈ کنٹرول کرنے والے ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ میڈیسن کمپنیوں نے شوگر، بلڈ پریشر، السر اور دیگر بیماریوں کی ادویات کئی گنا زیادہ مہنگی کر دی ہیں۔ علاج معالجے کی بنیادی سہولتیں بھی عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اور حکومتی وزراء کی ساری توجہ غیر ضروری اقدامات اور اپوزیشن کے ساتھ نبرد آزما ہونے پر ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ 22کروڑ عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لوگوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور انہیں کسی قسم کا کوئی ریلیف میسر نہیں۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص سراپا احتجاج ہے۔

عوام نے جو امیدیں لگا کر پی ٹی آئی کو ووٹ دیے تھے آج وہ چکنا چور ہو چکی ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، کاروبار ٹھپ اور تاجر برادری سڑکوں پر ہے۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری کے حالیہ بیان کہ عوام نوکریاں حکومت سے نہ مانگیں، 400محکموں کو ختم کر رہے ہیں، تشویشناک امر اور لمحہ فکریہ ہے۔ ساری حکومتی ٹیم ہی نااہلی کی تصویر بنی نظر آ رہی ہے۔ نوکریوں سے انکار عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔

وزیراعظم نے قوم کے ساتھ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ آخر کب پورا ہوگا؟ حکومت کی ہٹ دھرمی سیاسی ماحول کو گرما رہی ہے۔ ملک کسی بھی قسم کے سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معاملات کو سمجھنے اور سدھارنے میں حکمرانوں کا وژن نہ ہونے کے برابر ہے۔ مدارس اور علمائے کرام ہمارے سروں کا تاج ہیں۔

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، اس میں انگریز کا قانون رائج نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں نظام مصطفیٰ کا نفاذ ہی دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ 72برسوں سے ملک میں سیکولر ازم اور لبرل ازم نے جو نقصان پہنچایا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ کیا جائے۔

پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے، مغربی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔ دشمن قوتوں کو پہلے اسلامی ایٹمی ملک کا وجود برداشت نہیں ہو رہا ہے، اس لیے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے ہم پر چاروں اطراف سے حملہ آور ہیں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کےتحت ملکی حالات کو بند گلی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ مسائل کا حل افہام و تفہیم سے نکالنا ہوگا۔

غیر دانشمندانہ فیصلوں اور اقدامات سے جہاں مسائل بڑھیں گے وہاں خدشہ ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کی راہ ہموار نہ ہو جائے۔ حکومتی ناقص کارکردگی کے باعث عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ عوام کو امید تھی کہ موجودہ حکومت میں کرپشن ختم ہو گی اور لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت کی پائی پائی وصول کی جائے گی مگر نہ کرپشن ختم ہوئی اور نہ ہی قومی خزانے کو فائدہ پہنچا۔

حکومت نے عوامی مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ کر دیا ہے۔ لاقانونیت، بدامنی اور کرپشن کا خاتمہ اور ریلیف عوام کا اولین مطالبہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حکمران اللوں تللوں میں مصروف ہیں اور ان کو عوامی مشکلات سے کوئی غرض نہیں۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی ملک کے معاشی نظام میں بہتری لانے کے مسلسل جھوٹے وعدے کرتے رہے اور عوام پر مہنگائی کے کوڑے برساتے رہے۔ معیشت تباہ و برباد اور ملکی سلامتی دائو پر لگی ہے۔

ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ پالیسیوں کے حوالے سے پنجاب حکومت ایک مفلوج حکومت ثابت ہوئی ہے۔ حکمرانوں کی کارکردگی صرف اشتہارات تک محدود ہے۔ صرف نمائشی کاموں سے وقت گزارا جا رہا ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔پاکستان میں 2018میں 1700سے زائد افراد نے خودکشی کی کوشش کی۔ رواں سال کے ابتدائی چھ مہینوں میں پچاس افراد نے خودکشی کی ہے۔

روز بروز خود کشی کی شرح میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تبدیلی کے دعویداروں نے عوام کو کسی قسم کا کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا۔ چند دن پہلے حکمرانوں نے تجارتی و مالیاتی خسارے میں کمی کی خوشخبری قوم کو سنائی تھی، قابل ذکر بات یہ ہے کہ تجارتی خسارے میں 35فیصد کمی برآمدات بڑھانے سے نہیں بلکہ درآمدات کم کرنے سے ہوئی ہے۔

امسال جولائی تا ستمبر کے دوران درآمدات میں گزشتہ برسوں کے اس دورانیے کے مقابلے میں ساڑھے بیس فیصد کمی آئی ہے۔

تازہ ترین