سمہ حکم رانوں کے مشہور سپہ سالاردولہا دریا خان کا صل نام قبولو یا قبول محمد تھا۔اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں وہ جام نظام الدین عرف جام نندو کے وزیر لکھدیر کا پراعتماد ملازم تھا۔ منقول ہے کہ ایک سفر کے دوران جام نندو کو پیاس لگی اور اس نے پانی طلب کیا۔ وزیر لکھدیر نے اپنے ملازم کو طلب کرکے پانی لانے کا حکم دیا۔ دریا خان فوراً پانی کا کٹورا بھر کر اس میں تھوڑے سے گھاس کے تنکے ڈال کر لایا ۔
جام نندو سخت پیاسا تھا، اس لیے وہ تنکوں کو محسوس کرنے کےبعد بھونک پھونک کر پانی پی گیا اور پانی پینے کے بعد اس نے دریا خان سے تنکے ڈالنے کا سبب پوچھا۔ دریا خان نےمؤدبانہ انداز میں جواب دیا کہ یہ تنکے میں نے اس لیے ڈالے تھے تاکہ آپ آہستہ آہستہ اور اطمینان کے ساتھ پانی پئیں۔ویسے تو یہ بہ ظاہر معمولی سی بات تھی لیکن اس کی ذہانت اور دانائی پر جام نندو اس قدر متاثر ہوا کہ اپنے وزیر لکھدیر سے اسے مانگ کر اپنے محل میں رکھ لیا۔
بادشاہ نے اس کی تربیت پرخاص توجہ دی ۔ جام نندو نے اس بچے کو اپنی سگی اولاد کی طرح عزیز رکھا اور اسے فنون سپہ گری میں طاق کرکے سپہ سالار کے عہدے پر فائزکرنے کے بعد اسے ’’مبارک خان‘‘ کےلقب سے سرفراز کیا۔
اگرچہ اس وقت جام نندو کے دربار میں اور بھی کئی باصلاحیت امیر موجود تھے لیکن نوجوان دولہا دریا خان اپنی ذہانت کے سبب ان سب پر بازی لے گیا۔ جام نندو کا صاحب زادہ جام فیروزالدین ، ولی عہدی کا امیدوار تھا لیکن جام نندو نے عنان حکومت دریا خان کے حوالے کردی۔
دریا خان نے اپنی بہادری اور جنگی حکمت عملی سے ملتان سے لے کر قندھا اور مکران سے کچھ تک کا علاقہ اپنی مملکت میں شامل کرلیا اور حکومت کا ایسا نظم و نسق قائم کیا کہ ہر جگہ جام نندو کی کامیاب حکومت کے چرچے مشہور ہوگئے جب کہ دولہا دریا خان کی بہادری کے کارنامے بھی زبان زد عام ہوگئے۔
مرزا شاہ بیگ ارغون نے 91ھ میں سیاسی قوت حاصل کرلی اور وہ کابل پر قابض ہوگیا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ ظہیر الدین بابر نے کابل پر چڑھائی کردی۔ مرزا شاہ بیگ بابر کی فوجوں کا مقابلہ نہ کرسکا اور وہاں سے فرار ہوکر قندھا پہنچا۔ قندھار کے سرداروں نے شاہ بیگ کو اپنا سردار بنا لیا۔ اس طرح شاہ بیگ کو بغیر کسی جنگ و جد ل یا جدوجہد کے قندھا ر کی حکومت مل گئی۔ وہ صرف قندھا کی حکومت پرقناعت نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کی سوچ یہ تھی کہ اب بابر نے کابل کا راستہ دیکھ لیا ہے اور قندھا اس کی دست رس سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔
چوں کہ اس کے پاس بابر کی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے اتنی قوت موجود نہیں تھی ، اس لیے اس نے اس کی مزاحمت کا خیال دل سے نکال کر ایک ہزار سے زائد سواروں کا لشکر سندھ کی جانب روانہ کیا۔گھڑ سواروں کی اتنی بڑی جمعیت اس سے قبل کبھی بھی سندھ میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ جب یہ لشکرسہیون اور دادو کے علاقے میں داخل ہوا تو سندھ بھر میں بھونچال آگیا۔ اس لشکر نے سندھ میں زبردست تباہی و بربادی مچائی، کھیت،مال مویشی ان کی یلغار سے محفوظ نہ رہ سکے۔
ادھر مرزا شاہ بیگ ارغون کی سپاہ سندھ میں لوٹ مار میں مصروف تھی دوسری جانب بابر نے قندھار پر حملہ کردیا۔ کیوں کہ مرزا ارغون کو یقین تھا کہ اس کی مملکت کوبابر سے گلو خلاصی نہیں مل سکے گی اور وہ اس کے مقابلے میں کبھی بھی فتح یاب نہیں ہوسکتا، اس نے مقابلے سے اجتناب برتا اور قلعہ کی کنجیاں بابر کے حوالے کردیں اور خود اپنی سپاہ کے ساتھ سیہون کی جانب نکل گیا۔
میر معصوم بکھری کی تحریروں کے مطابق مرزا شاہ بیگ کو سہیون اور دادو کے علاقے میں بے شمار مسائل و مصائب کا سامنا پڑا۔ وہ سیہون کے گردو نواح میں تقریباً تین سال تک تنگی ترشی سے گزارا کرتا رہا۔ اس کی یہ حالت ہوگئی کہ اس کے سپاہیوں کو گاجر، شلغم اور ایسی ہی دیگر سبزیاں کھا کر اپنا پیٹ بھرنا پڑا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے مرزا ارغون نے زیریں سندھ کی جانب پیش قدمی کی اور کوٹ ماچھیاں او چاندکی نامی قصبات کو تاخت و تاراج کردیا۔
سندھ کا حکم راں جام نندو اس تمام صورت حال سے کافی پریشان تھا۔ جام نندو نے اپنے 48سالہ دور حکومت میں بہ ذات خود کبھی بھی جنگ کی ابتدا نہیں کی تھی۔ جب اسے سندھ کے شمالی حصوں پر مرزا شاہ بیگ کی لوٹ مار اور فوج کشی کا علم ہوا تو اس نے ان کی سرکوبی اور خلق خدا کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنے سپہ سالار دولہا دریا خاں کو لشکر جرار کے ساتھ روانہ کیا۔
دریا خان اپنی سپاہ کے ساتھ سیہون اور دادو کے قریب پہنچا، مرزا شاہ بیگ ارغون اپنےلشکر کے ساتھ اس وقت روہڑی کے قرب وجوار میں موجود تھا۔ اس کو دریا خان کے لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تواس نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔
وہ یہ سمجھا کہ دولہا دریاخان معمولی سی جھڑپوں کے بعد اپنے لشکر کے ساتھ راہ فرار اختیار کرے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دریا خان نے ارغونی سپاہ کے ساتھ انتہائی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اس لڑائی میں مرزا شاہ بیگ ارغون کے کئی نام ور سپہ سالار مارے گئے، جن میں اس کا سب سے زیادہ مقرب اور عزیز ، مرزا ابو محمد بھی تھا۔ اس کی ہلاکت نے مرزا شاہ بیگ کی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ وہ اور اور کے سپاہی جان بچا کر مختلف علاقوں کی جانب فرار ہوگئے۔
اس واقعے کے چند روز بعدہی 914ھ میں جام نظام الدین کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں نے اس کے بیٹے جام فیروز الدین کو تخت پر بٹھا یا اور جام سنجر کے نواسے جام صلاح الدین سے اس کی معاونت کی درخواست کی لیکن اس نے اس پیشکش کوقبول نہیں کیااور جواب دیا کہ جام فیروز ہی حکومت چلائے گا۔ اس صورت حال نے ملکی نظم و نسق کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ خاندانی عداوتیں اور رقابتیں کھل کر ظاہر ہوگئیں۔
جب شاہ بیگ کو جام نندو کے جاں نشینوں کے درمیان اختلافات کا علم ہوا تو اس نے ایک بار پھر زیریں سندھ کوتسخیر کرنے کا منصوبہ بنایا اور اپنا لشکر مجتمع کرکے سندھ کے علاقوں میں مورچے بنا لیے۔ اس نے جنگی حکمت عملی کے تحت نہروں کے پشتے توڑ دیئے تاکہان کے قریب واقع بستیاں زیر آب آجائیں اور لوگ انہیں خالی کرکے وہاں سے چلے جائیں۔ دریا خان اس صورت حال کا بہ غور جائزہ لے رہا تھا، وہ جانتا تھا کہ سندھ کے حکم راں طبقے کے آپس کے اختلافات سندھ کے خطے کو تباہ و برباد کردیں گے جس سے فائدہ اٹھا کر دشمن اس پر قابض ہوجائے گا۔
اس نے جام فیروز کے پاس جاکر کہا کہ یہ سب کچھ صرف تمہاری ناعاقبت اندیشی اور نااہلی کی وجہ سے ہورہا ہے، اگر تم لہو و لعب میں نہ پڑتے اور اپنے عزیزوں رشتہ داروں کو ریشہ دوانیوں اور محلاتی سازش کا موقع نہ دیتے تو اس قسم کی صورت حال درپیش نہ ہوتی۔
اب جب کہ ہم پر مرزا شاہ بیگ ارغون کسی وقت بھی حملہ آور ہوکر ہماری مملکت پر قابض ہوجائے گا، ضروری ہوگیا ہے کہ ہم سب باہمی اتفاق پیدا کرکے اس کا مقابلہ کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہمیں پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
جام فیروز کی عمر اتنی نہیں تھی کہ صورت حال کی نزاکت کو سمجھ سکتا، اس نے نشہ کے زیر اثر اس بات کو دریا خان کی ذاتی غرض پر محمول کیااور کہاکہ تمہیں کار سرکارمیں مداخلت کا کوئی حق نہیں پہنچتا، میں اپنا اچھا برا خود سمجھتا ہوں۔
جام فیروز کی بے اعتنائی سے دریا خان کے جذبات کو انتہائی ٹھیس پہنچی ، لیکن اپنے محسن و مربی جام نظام الدین نندو کے احسانات کا خیال آتے ہی وہ سندھ کے عوام کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے مرزا شاہ بیگ ارغون سے لڑنے کے لیے ایک لشکر کے ساتھ روانہ ہوا۔
اس نے سیہون اوردادو کے قریب ارغون کی فوجوں پر حملہ کرکے انہیں تباہ برباد کردیا۔ مرزا شاہ بیگ کے بیشتر کمانڈر ہلاک ہوگئے۔ اتنی بھاری ہزیمت اٹھانے کے بعد شاہ بیگ ارغون کو یقین ہوگیا کہ وہ دولہا دریا خان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو اس نے مکروہ فریب کا ہتھیار استعمال کیا اور اچانک میدان جنگ میںاس نے خودصلح کا پرچم لہرادیا۔ اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ خوں ریزی کے خاتمے اور لڑائی بند کرانے کے لیے پہل کررہا ہے۔ یہ دیکھ کر دریا خان نے اپنی سپاہ کو جنگ بند کرنے کا حکم دیا۔
جنگ بند ہوتے ہی مرزا ارغون بیگ نے سازش کا جال تیار کیا اور دولہا دریا خان کو دھوکے سے پکڑ کر قتل کردیا۔ ایک روایت کے مطابق دریا خان کی طرف سے جنگ بندی ہوتے ہی دریا خان صلح نامے کی شرائط طے کرنے کے لیے مرزا ارغون کے لشکر کی جانب روانہ ہوا کہ اسی دوران اس کے اشارے پر اس کے کسی سپاہی نے تیر پھینکا جو دریا خان کی گردن میں پیوست ہوا اور وہ جاں بحق ہوگیا۔
دریا خان کی ہلاکت سندھ کی تاریخ کا افسوس ناک واقعہ شمار کیا جاتا ہے۔ دولہا دریا خان کی ہلاکت کے بعد اس کی فوج میں بددلی پھیل گئی اور وہ پسپا ہوگئی ۔ دریا خان کے مرتے ہی مرزا شاہ بیگ نے فتح کا نقارہ بجوایا جسے سنتے ہی گردونواح کی بستیوں میں ہل چل مچ گئی۔ لوگ ارغون کے لشکر کے ہاتھوں تباہی و بربادی سے بچنے کے لیے مختلف علاقوں کی جانب بھاگنے لگے ۔اپنی راہ میں حائل دولہا دریا خان جیسے پہاڑ کے ہٹنے کے بعد مرزاارغون بیگ کے لیے ٹھٹھہ تک کا راستہ صاف ہوگیا۔
اس کے سپاہیوں نے ٹھٹھہ میں داخل ہوکرٹھٹھہ اور اردگرد کے علاقوں میں9 دن تک لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔ ۔دولہا دریا خان کے مرنے کے بعدبیرونی حملہ آوروں کے لیے آخری رکاوٹ دور ہوگئی تھی اس لیے سندھ کے دروازے ہر جارح اور ظالم کے لیے کھل گئے اور وہاں کافی عرصے تک امن قائم نہ ہوسکا اور عوام ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے۔
سندھ کے عوام کے لیے دولہا دریا خان آج بھی ایک قومی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے اور لوگ اسے دولہا دریا خان شہید کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس کا مزار ٹھٹھہ میں مکلی کے قبرستان میں واقع ہے جہاں لوگ کثیر تعداد میں آکر اس سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔