انوش فاطمہ
وادی سندھ کی تاریخ تین ہزار سال سے زائد پرانی ہےلیکن بعض محققین کے مطابق یہ خطہ اتنا قدیم ہے کہ اس کے متعلق یہ بھی نہیں بیان کیا جا سکتا کہ اس کا وجود کب سے ہے۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل جب آریانسل کے افراد اس خطے میں آئے تو اُنھوں نے اس کا نام’’ 'سندھو‘‘ رکھا، جو بعد میں سندھ میں تبدیل ہوگیا۔
یہ نام اس قدر مقبول ہوا کہ بے شمار صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی شناخت سندھ کے نام سے ہی ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب جسے Indus Valley Civilizationکہا جاتا ہے،ارتقائے انسانی کی ابتدائی تہذیبوں میں سےایک ہے۔اس تہذيب کےدور کے افراد پکی اینٹوں کے مکان بناکر رہتے تھے،جن کے آثارموئن جو دڑو میں آج بھی موجود ہیں۔ان کا شمار اتدائے آفرینش کے بہترین تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد میں ہوتا تھا، جنوں نے اس قدیم دور میں زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے نئی نئی جدتیں پیدا کیں۔ انہوں نے بیل گاڑیاںبنائیں جو ان کا سفری و باربرداری کا ذریعہ تھا۔
انہوں نے چرخے اور کھڈی ایجادکی جس پروہ کاٹن سے کپڑا بنتے تھے۔ ۔ وہ مٹی کے ظروف بنانے کے ماہر تھے۔ کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادیٔ سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔اس خطے کے تہذیب و تمدن پر زیادہ تر بدھ مت اور ہندو ؤں کا زیادہ غلبہ رہا جس کے آثار آج بھی سندھ کے مختلف علاقوں میں قدیم مندروں اور اسٹوپا کی صورت میں نظرآتے ہیں۔آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی سندھ میں آمد کے بعد یہاں اسلام کی شمع روشن ہوئی۔
اس خطے میں بڑے بڑے علماء و صوفیائے کرام اور روحانی پیدا ہوئیں، جنہوں نے تصنیف و تالیف کے ذریعے مذہب اسلام کی تبلیغ کی ۔اس دور میںٹھٹہ اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکزاور علم و ادب کا گہوارہ تھا۔
یوں تو سندھ میں بے شمار دینی و مذہبی ہستیوں اور ادبی شخصیات نے جنم لیا ہے لیکن شاہ عبداللطیف بھٹائی کو سندھ دھرتی میں جومقام حاصل ہے وہ آج تک کسی بھی روحانی یا شعر و ادب کی شخصیت کو نصیب نہ ہوسکا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے سندھ کے باسی، خواہ کسی بھی نظریئے، مذہب و مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے افکار وخیالات میں تضادات کے باوجودشاہ عبداللطیف ـ
بھٹائی کوسندھ دھرتی کا روحانی رہنما ، مربی و محسن مانتے ہیں۔ شاہ لطیف نے برصغیر میں فارسی اور عربی کے عروج کے دور میں سندھ دھرتی کے سپوت ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے، اس خطے میں سندھی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے کام کیااور اسے برصغیر میں نمایاں مقام دلوایا۔ اس کا ثبوت ان کا شہرہ آفاق مجموعہ کلام ’’شاہ جو رسالو‘‘ہےجو سندھی زبان میں مرتب کیا گیا ہے۔
اس کلام میں قادر مطلق کی وحدانیت بیان کرنے کےساتھ سندھ دھرتی کا آفاقی پیغام ، سندھ کے باسیوں کے پیار ، محبت ، بہادری کی داستانوں کو شاہ عبداللطیف نے صوفیانہ انداز میں پیش کیا ہے، جو پڑھنے اور سننے والوں کے دل و دماغ پرسحر طاری کردیتی ہیں۔ شاہ لطیفؒنے جس طرز کو عام کیا وہ آج علماءہوں یا قوم پرست‘ شاعر ، ادیب اوردانش ور ہوں یا راسخ العقیدہ مولوی،،سب کے لیے مشعل راہ ہے۔
یہ سندھ میںشاہ لطیف کی شاعری کا کمال ہی تو ہے کہ ہر خوشی و غم کے موقع پر شاہ لطیف کے کلام کے اشعارپڑھے اور گائے جاتے ہیں۔کوئی ثقافتی تقریب ہو یا اسٹیج پروگرام شروع کرنا ہو ، اس سے قبل ’’جیے لطیف‘‘ کی صدائیں، خون کو گرما دینے والے نعروں کی صورت میں ضروربلند کی جاتی ہیں۔ ون یونٹ بننے کے بعد جب صوبوں کی شناخت مٹا دی گئی تھی اور مملکت کا نظام، مشرقی اور مغربی پاکستان کے دو یونٹس بنا کر چلایا جارہا تھا تو ادب کے بعض جغادریوں اور’’سکہ بند دانش وروں‘‘ کی جانب سے شاہ لطیف کو ایک ’’سنت اور پیر ‘‘ کے طور پر مشہور کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔
اس موقع پر سائیں غلام مرتضی سید، المعروف جی ایم سید نے سندھ دھرتی کی اس عظیم ہستی کی خدمات کے اعتراف میں ’’ـ پیغامِ لطیف‘‘ کو عام کیا۔ سائیں جی ایم سید نے سندھی قوم پرستی کومستحکم کرنے کے لیے پیغام لطیف کاانتہائی ذہانت کے ساتھ استعمال کیا۔ انہوں نے شاہ لطیف کی محبت اور عقیدت کے ہاتھوں مجبور ہوکر،اپنی بیٹی ڈاکٹر درِشہوار سید (مرحومہ) کو شاہ لطیف پر ڈاکٹریٹ کرنے کے لیے برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی بھیجا ۔درشہوارسیدنے’’ ـ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری پر وحدانیت کا اثر‘‘۔ کے عنوان سے مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پوری زندگی شاہ لطیف کے پیغام پر کام کرنے میں گزار دی، یہاں تک کہ کراچی یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے وقت’’ شاہ لطیف چیئر ‘‘ کی سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ولادت 1689ء میں ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میںاور یکم جنوری 1752ء میں بھٹ شاہ کے مقام پر ان کا وصال ہوا۔دو ہفتے قبل ان کا عرس انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا۔عرس کے افتتاحی دن سندھ میں سرکاری سطح پر عام تعطیل تھی۔شاہ بھٹائی کے سالانہ عرس کے موقع پر بھٹ شاہ میں تین روزہ میلے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں سندھ کے ہر کونے سے زائرین قافلوں کی صورت میں آتے ہیں اور ہالا اور بھٹ شاہ جانے والی سڑکیں ’’جیے لطیف ‘‘ کے نعروں سے گونجتی رہتی ہیں۔عرس کے موقع پر ان کے مزارپر تین روز تک میلے کا سماں ہوتا ہےجس میں راگی اور جوگی ان کے ایجاد کردہ موسیقی کے آلے ’’ طنبورے ‘‘پر ان کا کلام گا کر لوگوں سے دادوتحسین حاصل کرتے ہیں۔ ان کی یاد میں ادبی کانفرنسیںبھی منعقد ہوتی ہیں۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے شعری مجموعے کو ـ’’ شاہ جو رسالو ـ‘‘ کہا جاتا ہے، جو ان کا آفاقی کلام ہے۔ یہ تیس باب پر مشتمل کتاب ہے،جنہیں سُر کہا جاتا ہے۔ اس طرح شاہ کے تیس سُر کلیان، سُر یمن کلیان، سُر کھنبھات ، سُرسریراگ، سُر سامونڈی، سُر سُھنی، سُر سسئی آبری، سُر معذوری، سُر دیسی، سُر کوھیاری، سر حسینی، سُر لِیلا چنیسر، سُر مومل رانو، سُر مارئی، سُر کامود، سُر گھاتوں، سُر سورٹھ، سُر کیڈارو، سُر سارنگ، سُر آسا، سپر رِپَ ، سُرکھاھوڑی، سُر بروو سندھی، سُر رامکلی، سُر کاپائتی، سُر پورب، سُر کارایل، سُر پربھاتی، سر ڈھر اور سُر بلاول ہیں۔
شاہ لطیف نے اپنا پورا پیغام بنت حوا کی عظمت کے طور پرپیش کیا ہے۔ انہوں نے خواتین کو ہیروئن کا درجہ دے کراپنی شاعری کامحور بنایا ہے۔ ماروی، سسی، مومل، مومل، سوہنی، لیلاں، سورٹھ ، سب لطیف کی سورمیاں ہیں۔ایک جانب انہوں نے اپنے آفاقی پیغام میں سوہنی کی زبان سے محبت‘ ماروی کے الفاظ میں وطن پرستی کا درس دیا تودوسری جانب کسی کردار کے ذریعے جرأت مندی اور کسی پیکر کے ذریعے انسان دوستی کا پیغام دیا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ نےاپنے پیغام کو صرف سندھ تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کا پیغام آج ساری دنیا میں پہنچ چکا ہے۔ جرمن اسکالر، ارنسٹ ٹرمپ نے شاہ جو رسالو کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا جس کا علامہ آئی آئی قاضی (امداد علی امام علی قاضی) کی جرمن اہلیہ ایلیسا قاضی نےجوسندھ کے خطے میں ’’مدرایلیسا‘‘ کے نام سے معروف ہیں، شاہ جو رسالو کا جرمنی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔
اس کے بعد، شاہ جو رسالو کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوئے، اس طرح ان کا یہ آفاقی پیغام ساری دنیا میں پھیل گیا۔ ۔ عشق رسولؐ ،محبت الہٰیہ اوردھرتی سے وابستگی ان کی شاعری کی اساس ہے اور انہوں نے لوک داستانوں کواپنے منظوم کلام کاموضوع بنا کراپنے افکار کوپھیلایا ہے۔
عمرماروی کی داستان دھرتی سے محبت کا درس دیتی ہے توسسی پنوںکی کہانی اپنے محبوب سے لگاؤ کے پاکیزہ جذبے کونمایاں کرتی ہے ۔ سر گھاتومیں انسانی جرأت و بہادری کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس میں سات ماہی گیر بھائیوں کا تذکرہ موجود ہے۔ ان میں سے 6 بھائی مگرمچھ کی خوراک بن گئے تھے، زندہ بچنے والا ساتواں بھائی’’ مورڑو‘‘اپنی عقلمندی اور بہادری سے مگرمچھ کو ہلاک کرکے اپنے بھائیوں کاانتقام لیتا ہے۔
ان ساتوں بھائیوں کی قبریں کراچی میں ماری پورروڈپر سڑک کے وسط میں واقع ہیں۔ اسی طرح سر کا پائتی میں چرخا کاتنے والی خواتین کا ذکرموجود ہے جو محنت و مشقت کرکے زندگی گزارتی ہیں۔ چرخا کا تنا جدوجہد کی علامت قرار دے کر شاہ لطیفؒ بھٹائی نے زندگی کوجہد مسلسل کا نام ہے۔
انہوں نے لہلہاتے کھیتوں ‘ سرسبز و شاداب چراگاہوں ‘ لق ودق میدانوں اور سر بلند پہاڑوں و گھنے جنگلوں نیز تپتے ریگ زاروں کے تذکرے اپنے کلام میں سمو کر حب الوطنی ‘ مستقل مزاجی ‘ عملی جدوجہد کا درس دیا ۔انہوں نے دنیا سے ظلم و ستم ‘ نفرت و تعصب ،تنگ فطری اور منافقت و ریا کاری سے نجات کا درس دیا ہے۔