برصغیر پاک و ہند کے سب سے بڑے ادیب، دورِحاضر میں بھی جن کی مقبولیت برقرار ہے۔ وہ سعادت حسن منٹو ہیں۔ وہ جب زندہ تھے، اُن کے ناشرین اور فلمی صنعت کے سیٹھوں نے ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کو فروخت کرکے اپنے دام کھرے کیے اور اُنہیں صرف ایک منشی کی حیثیت دی، آج وہ ہم میں موجود نہیں ہیں، لیکن بطور ایک برانڈ، اُنہیںکبھی ناشرین کے ہاتھوں کتابوں کی شکل میں، تو کبھی فلموں کے نام سے سینما کی اسکرین پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ منٹوکے دوکاندار اپنے اپنے طورسے انہیں فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔
اردو دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ادب لکھنے والایہ ادیب، جنہیں سماج کوآئینہ دکھانے کے جرم میں عدالتوں میں گھسیٹا گیا، پھر اسی سماج میں ان کوبعد از مرگ سب سے بڑا ملکی ایوارڈ بھی عطاہوا۔ امریکا میں انگریزی زبان کے بہت بڑے انسائیکلوپیڈیا کے ادارے نے پوری دنیا سے مسلسل مقبولیت حاصل کرنے والے ادیبوں کا انتخاب کیا، تو پاکستان میں سے منتخب ہونے والے دو ادیبوں میں سے ایک سعادت حسن منٹو ہی تھے۔ یہ بھی منٹو ہی تھے، جن کی تخلیقات انگریزی اور دیگر عالمی زبانوں میںترجمہ ہوکر ڈھلیں، تو دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئیں۔
دنیا بھر میں ادب پڑھنے والے ان کے کام اور نام سے واقف ہیں۔ منٹو کی زندگی پرطائرانہ نگاہ ڈالیں، تو فلم ہی ایک ایسی صنعت تھی، جس نے اس پرشہرت کے دروازے کھولے، روزی روٹی کمانے کی راہیں آسان کیں۔ ہندوستان میں فلم ریویور اور اسکرپٹ رائٹر منٹو کی قدر شناسی ہوئی، لیکن پاکستان میںانہیں بطور ادیب شہرت حاصل ہوئی۔
منٹو کی شخصیت اور کہانیوں پر کئی فلمیں بنیں۔ بھارت کی معروف فلم ساز’’نندیتا داس‘‘ نے 2018 میں سعادت حسن منٹو کی زندگی پر فیچر فلم’’منٹو‘‘ بنائی، جس میں مرکزی کردار نواز الدین صدیقی نے ادا کیا۔ یہ فلم بھارت میں باکس آفس پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی، جبکہ پاکستان میں اس فلم کو نمائش کی اجازت ہی نہیں ملی۔پاکستان میں بننے والی فلم’’منٹو‘‘ تکنیکی اعتبار سے بہت کمزور فلم تھی، سونے پہ سہاگہ اس فلم کے ہدایت کارسرمدکھوسٹ نے ہی منٹو کا کردار ادا کیا، جس کے لیے وہ بالکل موزوں نہ تھے۔
ماضی میں منٹو کے افسانوں پر بننے والی فلموں میں 1945 میں معروف ہدایت کار’’جے کے نندہ‘‘ نے منٹو کے افسانے ’’جھمکے‘‘ پر پہلی فلم بنائی، جس کو 1966میں ہدایت کار اقبال شہزاد نے دوبارہ’’بدنام‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ فلمایا، جس کے مکالمے معروف فلم ساز ریاض شاہد نے لکھے تھے۔ 1975 میں ہدایت کار حسن طارق نے فلم’’اک گناہ اور سہی‘‘ بنائی، جس کا مرکزی خیال منٹو کے افسانے’’ممی‘‘ سے لیا گیا تھا۔ 1957میں منٹو کے افسانے ’’لائسنس‘‘ سے متاثر ہوکر فلم’’یکے والی‘‘ بنائی گئی، اس فلم کے ہدایت کار ایم جے رانا تھے۔ 1972 میں اسی افسانے سے متاثرہ پنجابی زبان میں بھی ایک فلم بنائی گئی۔ 1961 میں ہدایت کار خلیل قیصر نے منٹو کی انقلابی کہانی کو بنیاد بناکر فلم’’عجب خان‘‘بنائی، اس کے بعد1971 میں یہ فلم دوبارہ بنائی گئی، اس بار ہدایت کار رحیم گل تھے۔
منٹو پر 1987 میں برطانوی فلم میکرKen McMullen نے سب سے پہلے منٹو کی کہانی ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کو انگلینڈ میں فلمی شکل دے کر پردہ اسکرین پر پیش کیا۔ اس فلم کے اسکرپٹ رائٹر معروف پاکستانی نژاد برطانوی دانشور طارق علی تھے۔ اس فلم کا نام’’پارٹیشن‘‘ تھا، اس کے اداکاروں میں روشن سیٹھ، زہرا سہگل، ضیا محی الدین اور بھارتی آرٹ فلموں کے شہرت یافتہ اداکار سعید جعفری نے کام کیا تھا۔ بی بی سی پر ٹیلی کاسٹ ہونے والی اس فلم کوبہت پسند کیا گیا تھا۔
1994 میں نیشنل فلم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے کلکتہ میں بنگالی زبان میں فلم’’انتارین‘‘ بنائی، جس کی کہانی منٹو کے افسانے ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ سے متاثر تھی، جبکہ منٹو کے ہی تین دیگر افسانوں ہتک، ممد بھائی اور بابو گوپی ناتھ کو بھی اس نے اپنی اس فلم کے اسکرپٹ میں شامل کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار مرنال سین تھے۔ 2002 میں ہدایت کارہ فریدہ مہتا نے منٹو کے افسانے کالی شلوار پر فلم’’دی بلیک گارمنٹس‘‘ بنائی، جس میں معروف بھارتی اداکار عرفان خان سمیت کئی معروف اداکاروں نے کام کیا۔
منٹو نے ادب تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ اسکرپٹ رائٹنگ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر میں زیادہ تر فلمیں بھارت کے قیام کے دوران لکھیں، جو ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہے اور انہیں عوامی پہچان یہی سے ملنا شروع ہوئی، ان فلموں میں کسان کنیا، اپنی نگریا، نوکر، چل چل رے جوان،بیگم ،شکاری،آٹھ دن، گھمنڈ، مرزاغالب ہیںجبکہ پاکستان میں انہوں نے کل تین فلمیں لکھیں، جن کے نام بیلی،آغوش اور دوسری کوٹھی تھے جبکہ ان کی ایک لکھی ہوئی فلم کٹاری تھی ، جوکہ نمائش کے لیے پیش نہ ہوسکی ،مگر بہرحال ان کی لکھی ہوئی فلموں میں شامل ہے۔
وہ پہلی فلم جس پر بطوراسکرپٹ رائٹر منٹو کا نام شایع ہوا، وہ’’آٹھ دن‘‘ تھی اور یہی وہ واحد فلم ہے، جس میں منٹو نے ایک پاگل فوجی افسر کا مختصر کردار بھی نبھایا، اس فلم میں ان کے علاوہ کئی اور ادیبوں نے بھی اداکاری کی، جن میں میرا جی، راجا مہدی علی خاں اور اوپندر ناتھ اشک وغیرہ شامل ہیں۔
وکٹر ہیوگو کے معروف ناول’’دی مزریبل‘‘ کی تلخیص بھی منٹونے کی،جس کی بنیاد پر ہدایات کار سہراب مودی نے فلم’’کندن‘‘ بنائی۔ 1995 میں بھارت میں ہی ہدایت کار شکتی میرابھا نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو فلمایا، جس میں پاکستان سے شجاعت ہاشمی اس فلم میں کام کرنے گئے۔ 2005 میں ہدایت کارہ عافیہ نتھائیل نے اسی افسانے پر فلم بنائی۔ 2009میں معروف بھارتی اداکار عامر خان نے بھی منٹو کے اسی افسانے پر فلم بنانے کا اعلان کیا، جس میں انہوں نے کیٹ ونسلیٹ کو کاسٹ کرنے کی بات کی، لیکن یہ فلمی منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔
متوازی سینما کے فلم سازوں نے اس افسانے کو متعدد بار اپنی فلموں کا موضوع بنایا، حتیٰ کہ 2018 میں نندیتا داس کی فلم’’منٹو‘‘ کا کلائمکس بھی اسی افسانے پر تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن اور کئی نجی چینلوں نے بھی منٹو کے افسانوں پر شارٹ فلمیں بنائی ہیں اور جامعات کے طلبا بھی اس تناظر میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 2019 میں نیشنل کالج آف آرٹس کے طلبا نے بھی منٹو کے حوالے سے شارٹ فلم بنائی ہے، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔