• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

31اکتوبر کا دن بھارت میں تو اندرا گاندھی کی درد ناک ہلاکت کے باعث یومِ سوگ کے طور پر منایا ہی جاتا ہے لیکن پاکستان میں بھی 31اکتوبر‘ افسوسناک ٹرین سانحہ کے باعث اتنا ہی بڑا انسانی المیہ بن گیا ہے۔ اس سانحہ میں 74انسان زندہ جل مرے جبکہ 90کے قریب زخمی پڑے ہیں۔ مرنے والے 58مسافروں سے متعلق بتایا گیا ہے کہ آگ میں جل کر ان کی لاشیں ناقابلِ شناخت ہو گئی ہیں۔

مرنے والوں کی بھاری اکثریت تبلیغی جماعت کے مبلغین کی تھی جو سندھ سے تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور جا رہے تھے لیکن بیان کیا جا رہا ہے کہ کچھ غیر ذمہ دار افراد نے ناشتے کے لیے انڈے ابالنے کی خاطر گیس سلنڈر جلایا جس کے پھٹنے سے یہ تباہی ان کا مقدر بن گئی۔

بعض اطلاعات کے مطابق سلنڈر بوگی نمبر 13میں پھٹا اور پھر اس کی آگ نے بوگی نمبر 14اور 15کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ٹرین کی زنجیر خراب تھی اور آگ بجھانے کے آلات بھی غائب تھے اس لیے ٹرین کو بروقت روکا جا سکا نہ آگ بجھائی جا سکی۔

اب اگر ہم چاہیں تو اتنے بڑے انسانی سانحہ کو ایک اتفاقی حادثہ یا امرِ ربی کہہ کر دبا سکتے ہیں لیکن اگر مہذب اقوام کی طرح اس سانحہ کا باعث بننے والی غفلت یا غفلتِ مجرمانہ کا تعین کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کریں تو جو سوالات سامنے آتے ہیں ان میں سب سے پہلا سوال یہ آئے گا کہ ریلوے انتظامیہ نے خطرناک گیسوں والے سلنڈر یا آگ پکڑنے والا ممنوعہ مواد ٹرین میں رکھنے کی اجازت کیوں دی؟ اور پھر ٹرین میں محکمہ ریلوے کی جو سیکورٹی ٹیم تعینات ہوتی ہے وہ اپنی ڈیوٹی سے اُس وقت کیوں غافل رہی جب چلتی ٹرین میں ان سلنڈروں کو جلایا جا رہا تھا؟

رپورٹ کے مطابق عینی شاہدین نے یہ بھی بتایا ہے کہ ٹرین رکوانے والی زنجیریں کام کر رہی ہوتیں تو فوری ٹرین رکوا کر بہت سی قیمتی انسانی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ آگ بجھانے والے آلات کیوں عنقا یا ندارد تھے؟

درویش نے بچپن کی یادوں میں اپنے دادا کے منہ سے نکلتے یہ الفاظ بارہا سنے ہیں کہ اس خطے میں اعلیٰ ترین ڈسپلن والی آئیڈیل حکمرانی تو انگریز کر گئے ہیں ان کے بعد تو ہر چیز انحطاظ پذیر اور ناکارہ ہو گئی ہے۔

عدالتوں میں بروقت انصاف ہی نہیں ملتا تھا بلکہ ٹرینیں بھی بروقت چلتی تھیں اور کسی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ اپنی ڈیوٹی میں کوتاہی کا مرتکب ہو۔ آخر اب ہماری ہر چیز ہی ناکارہ اور خراب ہو کر کیوں رہ گئی ہے؟ گزرتے وقت کے ساتھ ہر چیز میں بہتری و برتری آنا چاہئے تھی مگر ہم نے تو پہلے والی بہت سی اچھائیوں کو برائیوں اور بربادیوں میں بدل ڈالا ہے ایسے میں گڈ گورننس کہاں سے آئے گی؟ہمارے وزیر ریلوے ماشاء اللہ خوب گرجتے، برستے ہیں۔ سارے شعبہ جات کا درد ان کے سینے میں ہے۔ ان کی دیگر مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ اپنے محکمے کو درست کرنے کے لیے شاید انہیں ٹائم ہی میسر نہیں۔

انہی کا فرمانا ہے کہ پہلے ٹرین حادثات زیادہ ہوتے تھے، شکر کریں کہ میرے دور میں یہ کم ہو رہے ہیں اور اب یہ سانحہ بھی ہماری وجہ سے نہیں تبلیغی جماعت کے مسافروں کی وجہ سے ہوا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کے زیرِ سایہ ریلوے انتظامیہ کی بھی کوئی ذمہ داری تھی یا نہیں؟ خطرناک گیس سلنڈروں کا ٹرین میں رکھا جانا اور پھر ان کا چلتی ٹرین میں استعمال روکنا تو ریلوے انتظامیہ کی ذمہ داری تھی جو شیخ صاحب کے زیر نگرانی کام کرتی ہے۔

بالفرض اگر آگ کی وجہ سرکٹ شارٹ ہونا بھی قرار پاتی ہے تب بھی اس کی درستی یا ٹرین زنجیروں کا ٹھیک حالت میں ہونا وزیر ریلوے کی ایسی محکمانہ ذمہ داری ہے جس سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ پاکستانی عوام وزیراعظم عمران خان سے یہ استدعا کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ کم از کم ایک نااہل وزیر سے محکمہ ریلوے کی جان چھڑوا دیں۔ ہم اکثر ترقی یافتہ مہذب اقوام کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے مگر اُن کا طرزِ عمل اور ڈسپلن اپنانے سے گریز کرتے ہیں کیا وہاں ایسے سانحات یا ایسی غفلتِ مجرمانہ کا مرتکب وزیر فوری مستعفی ہونے کا اعلان نہیں کر دیتا؟

زندہ اقوام ہر لمحے اپنی خود احتسابی کے لیے تیار رہتی ہیں جبکہ زوال پذیر اقوام یا معاشرے ہر پل خود ستائی و خود پسندی کا پرچار کرتے ہوئے اپنی مصنوعی عظمتِ رفتہ پر اتراتے رہتے ہیں۔

ہم سات دہائیاں گزرنے کے باوجود اپنے عوام کی بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ آئین، قانون اور جمہوریت کی حکمرانی و پاسداری یا گڈ گورننس کی معیاری صورتحال تو رہی ایک طرف، ہم تو ستر برسوں بعد بھی اپنی غربت، جہالت اور اندھی جذباتیت پر قابو نہیں پا سکے۔ اپنے سماج کو مہذب، جمہوری، لبرل اور ترقی یافتہ معاشرہ بنانے کے بجائے جنونیت کے پھیلاؤ کو اپنا بزنس سمجھ بیٹھے ہیں۔

جب چھوٹی باتوں میں ہمارے رویے غیر ذمہ دارانہ ہوں گے تو بڑی باتوں کے مفاسد بھی بڑے اور برے ہی برآمد ہوں گے۔

تازہ ترین