پروردگارِعالم کی خوش نودی اور تقرّب کا سب سے اہم وسیلہ فرائض کی ادائیگی ہے۔ بلاشبہ حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک عظیم رکن اور امّتِ مسلمہ کے لیے ہمہ گیر عبادت ہے۔ حج ادا کرنے والے اہلِ ایمان، رنگ، نسل،علاقے، قبائل اور برادریوں سے بالاتر ہوکر، دنیاوی اورظاہری زیب وزینت چھوڑ کر ایک طرز کے احرام میں ملبوس ہوکر یہ اظہارو اقرار کرتے ہیں کہ ’’اے اللہ حاضر ہوں، اے اللہ مَیں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ یقیناً تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے، نعمت سب تیری ہی ہے اور ساری بادشاہی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
حجّاجِ کرام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق وارفتگی و دیوانگی سے مناسکِ حج کی ادائیگی کرکے اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ہر مسلمان کے دل میں یہ آرزو ہوتی ہے کہ اس سعادت سے وہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے،بہرہ مند ہوجائے۔ حج کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر، جو لوگوں (عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا۔ وہ وہی ہے، جو مکّے میں ہے، جو تمام جہانوں کے لیے برکت اورہدایت والا ہے، اس میں کھلی نشانیاں ہیں، جن میں سے ایک ابراہیمؑ کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے، جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا، اس نے امن پالیا۔ لوگوں پر اللہ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی قدرت رکھے، وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی کفر کرے (یعنی اس حکم کی تعمیل استطاعت کے باوجود نہ کرے) تو اللہ بھی (اس سے بلکہ) تمام اہلِ عالم سے بے پروا ہے۔‘‘ (سورئہ آلِ عمران)
ربِ جلیل کا کرم ہے، اس نے اس سال اپنے لاکھوں بندوں میں سے اس حقیر کو بھی کو اس عظیم سعادت سے بہرہ مند فرمایا۔ ہم حج کی ابتدائی ضروری تیاریوں کے بعد19جولائی 2019ء کو کراچی سے براہ راست مدینہ منورہ کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ وقتِ مقررہ پر کراچی ائرپورٹ پہنچے، تو وہاں افراتفری کا ایک عجیب عالم تھا۔ امیگریشن کے ناقص انتظامات اور بار بار کمپیوٹر سسٹم میں فنی خرابی کے باعث حاجیوں کی طویل قطاروں میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ اس کے برعکس ہماری فلائیٹ ڈیڑھ گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوکر جب شہرِمدینہ پہنچی، تو وہاں امیگریشن کے تمام مراحل 15سے 20منٹ میں بہ حُسن و خوبی طے پاگئے۔ ائرپورٹ پر مستعد عملہ مسکراہٹ کے ساتھ عازمین حج کا استقبال کررہا تھا اور ساتھ ہی ریفریشمینٹ باکس اور موبائل سِم بھی دی جارہی تھی۔
مدینہ ائرپورٹ پر قدم قدم پہ پاکستانی عملہ رہنمائی کے لیے موجود تھا۔ ائرپورٹ سے نکلے، تو وہاں پہلے سے موجود بسوں کے ذریعے ہوٹل کے لیے روانہ ہوئے، ہم چوں کہ سرکاری اسکیم کے تحت حج پرگئے تھے، اس لیے ذہن میں بہت سے خدشات تھے۔ عموماً سرکاری حج اسکیم کے ناقص انتظامات کے حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں۔ تاہم، وہاں پہنچ کر ہمارے سارے اندازے اور خدشات غلط ثابت ہوئے۔ جس ہوٹل میں ہمیں ٹھہرایا گیا، وہ حرم کے نزدیک ترین تھا، یہاں بہترین صفائی ستھرائی کے ساتھ کھانے کا معیار بھی عمدہ اور عازمین حج کی ہمہ وقت رہنمائی کے لیے پاکستانی عملہ بھی موجود تھا۔ ہوٹل میں سامان وغیرہ رکھتے کے ساتھ ہی دل، درِ نبی ؐ پر حاضری کے لیے مچل اٹھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارِ اقدس میں جانے کا سوچ کر ہی دل و دماغ کی کیفیت عقیدت و احترام سے لب ریز ہوگئی تھی۔
لرزتے جسم کے ساتھ روضۂ رسولﷺ پر حاضری دی۔ اللہ اللہ کیا شان ہے، روضۂ رسولؐ کی۔ بلاشبہ، رحمتہ للعالمینؐ کی محبت ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ مسجد نبوی ؐ روشنیوں سے جگمگا رہی تھی، جیسےہی سرسبز گنبد پر نظر پڑی، دل کی کیفیت عجیب ہو گئی۔ بے اختیار ہی آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے۔ مسجد کے چاروں طرف بلا رنگ و نسل، بندگانِ خدا اللہ کی عبادت میں مشغول تھے۔ ہم نے بھی سب سے پہلے دو رکعت شکرانے کی نماز ادا کی اور پھر ریاض الجنّہ کی طرف بڑھ گئے، جہاں آقائے دوجہاں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالوں کا ایک ہجوم امڈا چلا آرہا تھا۔
تاہم، اس قدر ازدحام کے باوجود ہماری دلی آرزو پوری ہوئی اور ہمیں ریاض الجنّہ میں نماز ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ یہاں چوں کہ زائرین کی ایک بڑی تعداد اس سعادت سے بہرہ مند ہونے کی متمنّی ہوتی ہے، اس لیے ایک مخصوص وقت کے بعد اس جگہ کو خالی کروالیا جاتا ہے اور آنے والے نمازی پہلے والوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ مسجد نبوی ؐ میں بہترین اور اعلیٰ انتظامات دیکھ کر دل بہت خوش ہوا، جگہ جگہ صفائی کا عملہ مستعدی سے اپنے کام میں مصروف تھا۔ توسیع مسجد ِنبوی ؐ کے بعد اب یہاں بہ یک وقت لاکھوں نمازیوں کے ایک ساتھ نماز ادا کرنے کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے۔ پھرجا بہ جا ٹھنڈے پانی کے کولر نصب ہونے کے ساتھ واش روم اور وضو خانے بھی موجود ہیں، جب کہ جگہ جگہ لگے پنکھوں سے نکلنے والے پانی کی پھواربھی وقتاً فوقتاً جسم و جاں کو تروتازہ کرتی رہتی ہے۔
مدینہ منورہ کا قدیم قبرستان، جنّت البقیع، مسجد نبوی ؐ سے متصل ہے۔ یہ قبرستان نمازِ فجر اور نمازِ عصر کے بعد 2/2گھنٹے کے لیے، عام زیارت کی خاطر کھولا جاتا ہے۔ روایت کے مطابق یہاں رسول ؐ خدا کی دختر، بی بی فاطمۃ الزہرؓا، حضرت امام حسن ؓ، حضرت امام زین العابدینؓ،حضرت امام باقرؓ اور حضرت امام جعفر صادقؓ کی قبور کے علاوہ حضرت عثمان غنی ؓ، فاطمہ بنت ِاسد، فرزند ِرسولِ ؐ خدا حضرت ابراہیم ؓ، بی بی حلیمہ سعدیہ ؓاورپیغمبر اسلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھیوں کے علاوہ بہت سے جلیل القدر صحابہ کرامؓ کی قبور بھی موجود ہیں۔
یہاں فاتحہ خوانی کے بعد مسجد قبلتین گئے، جو مدینہ منورہ کے محلّے بنو سلمہ میں واقع ہے، یہ وہی تاریخی مسجد ہے، جہاں 2ہجری میں نماز کے دوران تحویلِ قبلہ کا حکم آیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓنے نماز کے دوران اپنا رخ بیت المقدس سے کعبے کی جانب پھیرا۔ چوں کہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کرکے پڑھی گئی، اس لیے اسے ’’مسجد قبلتین‘‘ یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔
مدینہ منورہ میں 9روز قیام کے دوران یہاں سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر بستی قبا میں واقع تاریخِ اسلام کی پہلی مسجدقباء کے علاوہ مسجد غمامہ، مسجد شجرہ، میدان احد، میدان بدر اور میدان خیبر کی زیارات کے بعد ہماری اگلی منزل مکّہ مکرمہ تھی، جس کے لیے دل بے چین تھاکہ خانہ خدا میں جلدازجلد حاضری دی جائے۔ مکّہ پہنچ کر سب سے پہلے میقات سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا۔
اللہ اللہ کیا شان ہے کعبے کی۔ کہتے ہیں کہ کعبے پر نظر پڑتے ہی جو پہلی دعا مانگی جائے، وہ ضرورقبول ہوتی ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ کعبے پر نظر پڑتے ہی ہم تواپنی ساری دعائیں بھول کر خداوندِقدوس کی عظمت وبزرگی کے آگے ہی سجدہ ریز ہوگئےکہ جس نے اس حقیر بندے کو کعبے کی زیارت کا موقع فراہم کیا۔ خانہ کعبہ میں طواف کرنے والوں کا ایک ازدحام تھا۔ یہاں پوری دنیا سے آئے مسلمان ’’لبّیک، اللھم لبّیک کی صدائیں بلند کرتے طواف میں مصروف تھے۔ 8ذی الحج کی شب مکّہ مکرمہ سے 14میل کے فاصلے پر احرام باندھ کر عرفات کے میدان میں پہنچے۔
یہاں بھی ایک روح پرور منظر تھا۔ لاکھوں افراد ایک ہی لباس میں اللہ کے آگے سربہ سجود تھے۔ مختلف رنگ و نسل اور اقوام سے تعلق رکھنے والے لاکھوں عازمین کی جانب سے بلند آواز میں لبّیک اللّھم لبّیک کی صدائیں بلند ہونے سے ایک روح پرور منظر نظر آیا۔ ظہر، عصر، مغرب اورعشاء کی نمازیں یہیں اداکرنے کے بعد رات منیٰ میںقیام کیااورپھرنمازِ فجر کی ادائیگی کے بعدسب سے بڑے رکن، وقوفِ عرفہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ 9ذی الحج کو حج کا رکنِ اعظم وقوف عرفہ اداکرنے کے بعد سورج غروب ہوتے ہی مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے۔
یہاں سے عازمین کے قافلے بسوں، ٹرینوں اور پیدل مزدلفہ اور منیٰ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنا سفری بیگ پہلے ہی تیار کیا ہوا تھا، لہٰذا پیدل جانے والے قافلے کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ سفر میں راستے بھر جگہ جگہ ٹھنڈا پانی اور کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی گئیں۔ نمازِ فجر کے وقت مزدلفہ پہنچے اور پھر وہاں سے منیٰ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں کا منظر بھی بڑا روح پرور تھا، لاکھوں افراد ایک ہی لباس میں ملبوس حالتِ احرام میں پیدل سفر کررہے تھے۔ منیٰ میں سفید خیموں کا ایک شہر آباد تھا۔
لوگ ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے۔ کوئی پانی پلا رہا تھا، کوئی کھانا تقسیم کررہا تھا، کوئی راستے کی رہنمائی کررہا تھا۔ 10ذی الحج کو طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ میں بڑے شیطان کو کنکریاں ماریں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ماضی میں اس مقام پربے پناہ ہجوم کے باعث متعدد حادثات رونما ہوچکے ہیں، مگر اب رمی جمرات کو بہت آسان بنادیا گیا ہے۔ یہاں سے اب شیطان کو کنکریاں مارنے والے ایک طرف سے جاکر دوسری طرف سے واپس ہوجاتے ہیں۔ 11اور12ذی الحج کو طلوع آفتاب کے بعدتینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے بعد خانہ کعبہ پہنچ کر بقیہ امور انجام دیئے۔
بلاشبہ، حج کا سفر بندگی کا عظیم مظہر اور رب ذوالجلال کی عبادت اور سعادتوں کا وہ خزینہ ہے، جس کی ادائیگی کی خواہش اور تمنّا ہر بندئہ مومن کی دلی آرزو اور زندگی بھر کی مرادوں، آرزوئوں کا محور ہے۔ اس عظیم فریضے کی ادائیگی اور حج جیسے مقدّس سفر کی یادیں ہمارے لیے ان مٹ نقوش کی مانند ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہر بندئہ مومن کو اس عظیم سعادت سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین