• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی آبادی میں بھاری اکثریت سیانوں کی ہے۔ وہ سب کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ پیچیدہ باتوں کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں۔گتھیاں سلجھا سکتے ہیں۔ ایسی ذہین اکثریت کے ساتھ ہم گنتی کے احمق اور بیوقوف بھی رہتے ہیں۔ پیچیدہ باتیں درکنار ہمیں تو سیدھی سادی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کے کچھ اسکول ہیں۔ بھاری فیس لیتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے، وہ اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں۔ سیانوں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ ان کا فرمانا ہے کہ اسطرح دہرے معیار میں پڑھ لکھ کرجواں ہونے والی نسلیں معاشرے کو دہرے معیار میں تقسیم کردیتی ہیں حتیٰ کہ ملک تقسیم ہوجاتے ہیں۔لہٰذا بین الاقوامی اسکولوں کا معیار گراکر سرکاری اسکولوں کو معیار کے برابر کردیا جائے۔ سیانوں کی دنیا میں ہم گنتی کے احمقوں کو سیانوں کی یہ بات پلے نہیں پڑتی۔ ہم ان کی اس بات کی تہہ تک پہنچ نہیں سکتے۔ تب ہم بیوقوف آپس میں باتیں کرتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ معیاری اسکولوں کا اعلیٰ معیار گھٹا کر غیر معیاری سرکاری اسکولوں کی سطح تک گرانے کے بجائے غیر معیاری سرکاری اسکولوں کا افسوسناک معیار پرائیوٹ اسکولوں کے معتبر معیار کے برابر کیوں نہیں کرتے؟ اگر آپ ٹھنگنے ہیں، ناٹے ہیں اور اپنا پستہ قد اپنے طویل القامت مد مقابل جتنا نہیں کر سکتے تواسکا آسان نسخہ یوں ہے کہ دراز قد شخص کی ٹانگیں کاٹ کر اسے اپنے جیسا ٹھنگنا بنا دیجئے۔ آپ اپنا ٹھنگنا قد بڑھانے کی کوشش مت کیجئے۔یہ کٹھن کام ہے۔

کچھ لوگ محل نما کوٹھیوں میں رہتے ہیں۔کچھ لوگ لگژری فلیٹس میں رہتے ہیں۔ کچھ لوگ کچے پکے گھروں میں رہتے ہیں۔ کچھ لوگ جھگیوں میں رہتے ہیں۔ کچھ کہیں بھی نہیں رہتے۔ وہ گلی کوچوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ گلی کوچوں میں رہتے ہیں۔ گلی کوچوں میں پل کر جواں ہوتے ہیںاور گلی کوچوں میں مرکھپ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم بونگے کچھ نہیں جانتے۔ سیانے سب کچھ جانتے ہیں۔ سنا ہے کہ سیانے ایک ایسا منصوبہ بنارہےہیں جس پر عمل کرنے سے دنیا بھرکے لوگ ایک جیسے گھروں میں رہنے لگیں گے۔ ہم بونگے دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ہوائی جہازوں کے ایگزیکٹو یعنی اعلیٰ کلاس میں بیٹھ کر حج یا عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہوائی جہازوں کی عام کلاس میں سفر کرتے ہوئے حج یا عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ پانی کے جہازوں پر سوار ہوکر حج یا عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ ہم بونگوں نے سنا ہے کہ پانی کے جہاز میں بھی طبقات ہوتے ہیں۔ اللہ سائیں کے بخشے ہوئے لوگ ڈیک پر سفر کرتے ہیں اور اللہ سائیں کے نوازے ہوئے لوگ لگژری کیبن میں سفر کرتے ہیں۔ جہاز والے ان کو کھانا بھی ان کے معیار کے مطابق دیتے ہیں۔ ایسا ہم بونگوں نے سنا ہے۔ اب ہم بونگوں کو پتا چلا ہے کہ سیانوں نے ایسی ایک اعلیٰ حکمت عملی بنالی ہے جس پر عمل کرنے سے سب لوگ ایک طرح کا سفر کریں گے۔ سفر کے دوراں ایک ہی طرح کا کھانا کھائیں گے اور حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے۔تب نہ رہے گا محمود اور نہ رہے گا ایاز۔ نہ رہے گا بندہ، نہ رہے گا بندہ نواز۔ بس آپ معیاری اسکولوں کا اعلیٰ معیار گراکر سرکاری اسکولوں کے برابر کردیں۔

ایک لمبے عرصہ سے میری دیرینہ خواہش ہے کہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں چائے پیوں، لنچ کھائوں اور ڈنر تناول کروں۔ سردست یہ ممکن نہیں لگتا۔ لیکن کبھی یہ ممکن ہوتا تھا۔ تب ماہ پارہ فلم منسٹر فار انفارمیشن اینڈ براکاسٹنگ سے فون پر اس کا نام لیکر بات کرتی تھی۔ ریڈیو پاکستان کراچی میں میری کولیگ تھی۔ مجھے فلمیں دکھاتی تھی۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں مجھے چائےپلانے اور لنچ اور ڈنر کھلانے لے جاتی تھی۔ لوگ سمجھتے تھے وہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ وہ مجھے باڈی گارڈ کے طور پراپنے ساتھ رکھتی تھی۔ ان دنوں کراچی کے لنگڑے، لولے، کن کٹے، وحشی اور سفاک دادا میرے، ہم پیالہ اور ہم نوالا ہوتے تھے۔ میرے ہوتے ہوئے کراچی میں کسی مائی کے لعل کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ وہ ماہ پارہ کو میلی آنکھ سے دیکھے اور پھر نہ رہے زمان، اور نہ رہے مکان،ہم ایسے بچھڑے کہ سوکھے پھولوں کی طرح کتابوں میں ملنے کے بجائے آب پارہ میں ملے۔ ماہ پارہ نے مجھے نہیں پہچانا۔یہ قصہ پہلے بھی آپ کو سناچکا ہوں۔

ماہ پارہ کے چلے جانے کے بعدمیں فائیو اسٹار ہوٹلوں کو دوردور سے دیکھتا ہوں اور ایک مرتبہ وہاں جاکر چائے پینا چاہتا ہوں، لنچ اور ڈنر کھانا چاہتا ہوں۔ مگر ہم سب کی زندگی سے ایک ماہ پارہ کے نکل جانے کے بعد بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ اب سنا ہے کہ ہمارے ملک کے سیانے کچھ ایسے اقدام کرنے والے ہیں کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں کا معیار ڈھابہ قسم کے پھٹیچر ہوٹلوں جیسا رہ جائے گا۔ مگر اس سے پہلے معیاری اسکولوں کا معیار گھٹا کر سرکاری اسکولوں کے گھٹیا معیار کے برابر کرنا ضروری ہے۔

آپ نے ایسے کسی ادارے کا نام سنا ہے جس کے ملازمین کو سرکاری خزانے سے تنخواہ ملتی ہو، اور محکمہ کاکام کاج چلانے کے لیے سرکار سے فنڈ ملتے ہوں،۔ اور وہ محکمہ خود مختار کام کرتا ہو ؟ یعنی سرکار کے عمل دخل کے بغیر کام کرتا ہو؟ سیانے فرماتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک نہیں انیک ایسے ادارے ہیں۔ یہ بات سننے کے بعد ہم بونگے چکرا گئے ہیں۔ یہ کچھ ایسا ہے کہ آپ گاڑی چلا نے کے لیے ایک ڈرائیور ملازم رکھیں۔ اسے تنخواہ دیں اور اسے چھوٹ دے دیں۔ یعنی خود مختار کردیں۔پھر چاہے وہ آپ کو اپنی مرضی سے جہاں چاہے، گھمانے پھرانے لے جائے اور آپ کو ایک روز کھڈ میں گرادے۔

تازہ ترین