• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسرور احمد حیدری

نعتیہ شاعری کا آغاز وارتقا عربی کے نعتیہ قصائد کی روایت سے ہوتا ہے۔ پھر یہ روایت ایران پہنچی اور وہاں کے فارسی شعرا نے اس روایت کو آگے بڑھایا ۔اس طرح عربی وفارسی کے توسط سے اردو میں نعتیہ شاعری کا آغاز ہوا۔ خواجہ بندہ نواز ؒ ،شاہ میراں جی شمس العشاق اور محمدقلی قطب شاہ سے لے کر میرؔ ،درد ؔ ، سوداؔ ، مصحفیؔ و مومنؔ سے ہوتی ہوئی یہ صنف امیرؔ مینائی تک پہنچی ۔ امیرؔ مینائی نے اس روایت کو بہت کام یابی سے آگے بڑھایا اور نعت گوئی میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاکر اپنی منفرد شناخت قائم کی۔امیر ؔ مینائی کے مستند حالات زندگی عام طورپر دست یاب نہیں ہیں۔تاہم یہاں ان کی نعتیہ شاعری پر بحث سے قبل ان کی زندگی کے مختصر کوا ئف پیش کیے جا رہے ہیں۔

امیر احمد نام اور امیرؔ تخلص تھا۔حضرت شیخ مخدوم شاہ میناؒ کی اولاد میں تھے۔ اسی نسبت سے مینائی مشہور ہوئے ۔والدکا نام شاہ کرم محمد مینائی تھا۔21فروری 1829کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی درسی کتابیں مولوی مظفر علی مبرورؔ سے پڑھیں۔مفتی سعدا للہ مراد آبادی سے منطق و فلسفہ اور مولوی تراب علی لکھنوی سے ادب کی تعلیم حاصل کی۔ دوسری طرف مفتی محمد یوسف اور عبدالحکیم فرنگی محلی سے فقہ اور اصول فقہ پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے ۔ طالب علمی کے دور میں ہی شاعر ی کا شوق پیدا ہوگیا تھا ۔ منشی مظفر علی اسیرؔ سے اپنے کلام پر اصلاح لی۔غالبؔ ،آتشؔ ،ناسخؔ اور انیسؔ ودبیرؔ کی صحبتوں سے بھی فیض یاب ہوتے رہے۔لگ بھگ پچاس برس کی عمرمیں اپنے استاد اسیر ؔ کے توسط سے واجدعلی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی ۔اسی دوران لکھنؤ کے مشاعروں کے لیے طرحی غزلیں کہیں اور نواب واجد علی شاہ کی شان میں قصائد کا ایک مجموعہ ’’غیرت بہارستان ‘‘مرتب کیا ۔لیکن 1857میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اس ہنگامے میں لکھنؤ میں واقع امیر مینائی کا پورامحلہ آگ کی نذرہوگیا ۔اس میں ان کا دیوان اور دوسری تصانیف بھی جل گئیں۔بے سروسامانی کے عالم میں امیرؔ کاکوری پہنچے۔وہاں تقریباًایک سال قیام رہا ۔ دورانِ قیام محسن ؔ کاکوروی سے ملاقاتیں رہیں۔اس دوران ان کی شاعری کی شہرت رام پور کے دربار تک پہنچ چکی تھی۔ امیرؔ نے بھی رام پور کے لیے رخت سفر باندھا، جہاں ان کی بڑی قدر دانی ہوئی۔ یہی امیرؔ کی شاعری کے عروج کا زمانہ تھا۔امیرؔ مینائی کافی پڑھے لکھے انسان تھے۔ مختلف علوم وفنون پرانہیں عبور تھا۔ اردو زبان کے ساتھ عربی اور فارسی میں بھی دست رس رکھتے تھے،چناں چہ ممتاز علی آہ لکھتے ہیں:

’’امیر ؔ مینائی عربی میں فاضل اجل ،فارسی میں ماہر کامل ،اردو کے اہل زبان، علم دین کے محقق اورعلم حکمت ونجوم وعروض پر پوری طرح قادر تھے ۔اخلاق حسنہ کا مجسمہ تھے۔ ان کے شعر فہمی اور سخن کے متعلق اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ خاتم الشعرا تھے ‘‘۔

امیرؔ مینائی اصل میں غزل کے شاعر ہیں ۔ غزل کے موضوعات کو انہوں نے جذباتی اور حسی زاویوں سے پیش کیاہے۔ساتھ ہی اظہارِ عشق میں تہذیبی وقار کوبھی برقرا ر رکھا ہے ۔اپنے زمانے کے پسندیدہ اور مقبول رنگ میں شعر کہہ کر انہوں نے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ غزل کے علاوہ انہوں نے مختلف موضوعات اور مختلف اصنافِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی ۔انہیں قصیدہ ،رباعی ،مخمّس ، مسدّس اور واسوخت وغیرہ پربھی عبور حاصل تھا۔امیر ؔ مینائی ایک نیک طبیعت اورراسخ العقیدہ انسان تھے۔ عقائد کی پختگی نے دل ودماغ کو عشق رسول سے معمو ر کردیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تزئین ایمان کے پیش نظر نعت گوئی کو دیگر اصناف پر فوقیت دی۔اگرچہ ان کی نعتیہ شاعری میں ہمیں روایت کی تکرار نظر آتی ہے، لیکن ان میں اعلیٰ تخیّل، فصاحت و بلاغت اور سادگی و روانی کا ایسا نمونہ موجودہے کہ اپنے فن میں پوری طرح کام یاب نظر آتے ہیں اور کہیں ایسامحسوس نہیں ہوتا کہ وہ روایت کی پاس داری کر رہے ہیں یاپرانے طرز کو اپنائے ہوئے ہیں۔

امیر مینائی کثیرالتصانیف مصنف تھے ۔نظم و نثرمیں ان کی کوئی 27تصانیف موجود ہیں جن میں تقریباًسات نعتیہ کلام پر مبنی ہیں ۔محامدِ خاتم النبیین،مثنویِ نورِ تجلّی ،مثنوی ابرِ کرم، ذکرِ شاہِ انبیاء، مسدّس صبحِ ازل اور مسدّس شام ِابدوغیرہ کافی اہم ہیں۔امیرؔ مینائی کی بیش تر نعتیں غزل کی ہیئت میں موجود ہیں۔علاوہ ازیں قصیدہ ، رباعی اور ترجیع بند وغیرہ کی ہیئت میں بھی ان کا نعتیہ کلام ملتا ہے۔

نعت گوئی ایک مشکل فن ہے ۔اس میں ذراسی لغزش سے سوئے ادب ہوجاتا ہے۔ اس لیے بہت ہی محتاط ہوکر اور پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ امیرؔ نعت گوئی کے اس نازک اور لطیف پہلو سے اچھی طرح واقف ہیں اور ہر قدم پر حفظِ مراتب کا خیال رکھتے ہیں۔ احترام و تقدّس کو ملحوظِ خاطر رکھ کر قلم اٹھاتے ہیں اورنعت کے ابتدائی اشعار ہی سے قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ایک بہت ہی بلند و بالااور عظیم المرتبت شخصیت کی مدح سنا رہے ہیں۔جہاں وہ سننے والوں کے ذہن واحساسات کو ایک ملکوتی ماحول میں پہنچادیتے ہیں۔چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:

وہ بزم خاص جو دربارِ عام ہو جائے

امید ہے کہ ہمارا سلام ہو جائے

مدینہ جاؤں پھر آؤں دوبارہ پھر جاؤں

تمام عمر اسی میں تمام ہو جائے

……٭……

اللہ کا جو گھر تھا وہی گھر تھا آپ کا

اک کہنہ بوریا تھا جو بستر تھا آپ کا

دل شاد کام غیر سے اکثر تھا آپ کا

خلق عظیم سب سے برابر تھا آپ کا

……٭……

کوئی زیادہ تھا نہ کوئی کم تھا نگاہ میں

خورشید کی شعاع کا عالم تھا نگاہ میں

جب تک رہے جہاں میں مشقت کیا کیے

باندھا شکم پہ سنگ ریاضت کیاکیے

امیرؔ مینائی نے اپنے نعتیہ کلام میں معراج کے موضوع پر خصوصی توجہ دی ہے ۔واقعۂ معراج ابتداہی سے نعت گو شعراء کے لیے اہم موضوع رہا ہے۔اس موضوع کے لیے ربط وتسلسل اور ایک خاص فضابندی کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس لیے عام طور پریہ موضوع مثنوی کی ہیئت میں نظم کیا جاتاہے ۔لیکن امیرؔ کاکمال یہ کہ انہوں نے نعتیہ غزلوں میں اس موضوع کو قلم بند کیا ہے۔ردیف وقوافی کی مدد سے معراج کے عنوان پر بہتر ین نعتیں پیش کی ہیں۔’’آج کی رات ‘‘،’’رسول اللہ آتے ہیں‘‘، ’’شبِ معراج ‘‘جیسے الفاظ کو ردیف بنایا ہے ۔حضور اکرم ﷺ کا معراج پر جانا، اسی رات مکّہ مکّرمہ سے مسجد اقصیٰ تشریف لے جانا اور وہاں سے عرش کا سفر ،ساتھ ہی ملا ئک وانبیاء کے حالات وواقعات ،جنت ودوزخ کا نظارہ اور دیگر احوال کو جس خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے :

گرم حضرتؐ کا یہ بازار تھا معراج کی شب

کہ خدا آپ خریدار تھا معراج کی شب

……٭……

کس کے آنے کی فلک پر ہے خبر آج کی رات

آنکھ سورج سے ملاتا ہے قمر آج کی رات

……٭……

غل ہے معراج کی شب شاہ اُمم آتے ہیں

مالک مہر و مہ و لوح و قلم آتے ہیں

……٭……

فرشتوں میں ہے ہنگامہ رسول پاک آتے ہیں

کھلیں رحمت کے دروازے شہ لولاک آتے ہیں

امیرؔ کے نعتیہ کلام میں نادر تشبیہات اور اچھوتے استعاروں نے انفرادیت اور وقارپیدا کردیا ہے ۔چناں چہ انہوں نے سرورِ کائنات کا سراپا بہت ہی خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔سراپا نگاری، لکھنوی دبستانِ شاعر ی کا ایک خاص رجحان تھا جس کا اثر نعتیہ شاعری پر بھی پڑا ۔ چناں چہ امیر ؔ کے درج ذیل اشعار میں اسی رجحان کی عکّاسی نظر آتی ہے:

اللہ نے دیا ہے یہ اس کو جمالِ پاک

سنبل فدا ہے زلف پہ رخ پر نثار پھول

وہ چہرہ وہ دہن کہ فدا جن پہ کیجیے

ستّر ہزار غنچہ، بہتّر ہزار پھول

دُرود پڑھتے تھے قدس جو دیکھتے تھے وہ رخ

لب آپ کے تھے وہ معجزہ نما کہ صلِّ علیٰ

امیر ؔ مینائی ایک سچّے عاشقِ رسول تھے۔ اس لیے ان کے نعتیہ کلام میں عشق رسول کا جذبہ نمایاں ہے ۔ان نعتوں میں اثر آفرینی،دل کشی اور ملکوتی فضا کا احساس موجود ہے۔ اس کاایک سبب ہادیِ برحق سے بے پناہ محبت اور فدویت بھی ہے جس کو سننے والے اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔

جب سے دل دیوانہ محبوب خدا کا ہوگیا

مصطفیٰ اس کے ہوئے وہ مصطفیٰ کا ہوگیا

اوّل بعثت میں ختم الانبیا پایا لقب

رُتبہ حاصل ابتدا میں انتہا کا ہوگیا

……٭……

یاد جب مجھ کو مدینے کی فضا آتی ہے

سانس لیتا ہوں تو جنت کی ہوا آتی ہے

امیر کی نعت گوئی بعض دوسرے شعر ا کے لیے بھی نعتیہ کلام موزوں کرنے کی تحریک بنی ۔ چناں چہ ان کے شاگرد جلیلؔ مانک پوری کہتے ہیں:

نعت گوئی میں مرے کیوں نہ ہو تاثیر جلیلؔ

فیض ہے اس میں امیرؔ الشعرا سے مجھ کو

امیرؔ مینائی کے نعتیہ قصیدوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر محمود الہٰی لکھتے ہیں:

’’ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ علمی اور فنّی بے راہ روی سے بہت دور رہتے ہیں۔ان کی زبان میں بڑا رکھ رکھاؤ اور سنجید گی ہے ۔ان کے تخیّل میں پیچید گی نہیں ہے اور ان کے استعارے عام ہیں‘‘۔

امیر کی نعتیہ شاعری کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ والہانہ عقیدت کے باوجود وہ نعت گوئی میں محتاط نظر آتے ہیں ۔انہوں نے مدحِ رسول میں آدابِ شریعت کا خاص خیال رکھا ہے جو نعت گوئی کا ایک نازک اور مشکل مرحلہ ہے۔حضرت امیر ؔ نے نعت گوئی کی تاریخ میں قابلِ قدر اضافہ کیاہے۔ انہوں نے اس فن کو تشکیلی دور سے نکا ل کرعروج تک پہنچایا ۔ چناں چہ بعدکے شعرا ہمیں اسی نہج پر چلتے نظر آتے ہیں۔امیرؔ نے اپنی پوری زندگی لکھنؤ اور رام پور میں بسر کی ۔وہاں کے درباروں سے بھی وابستہ رہے، لیکن ہمیشہ مالی مشکلات کا سامنا رہا ۔ عمر کے آخر ی ایّام میں نظامِ دکّن، میر محبوب علی خاں کے بلاوے پر حیدرآباد تشریف لائے :

اب کے سفر وہ ہے نہ دیکھوں گا پھر وطن

یوں تو میں لاکھ بار غریب الوطن ہوا

……٭……

اب نہ ٹھہروں جو خوشامد بھی کرے میری وطن

کہ پکارا ہے غریب الوطنی نے مجھ کو

حیدرآبادمیں ان کا شان داراستقبال کیا گیا۔ہر طرف سے میزبانوں کا اصرار ہوا۔ مگر انہوں نے حضرت داغ دہلوی کی مہمان نوازی قبول کی ۔بعد میں ان ہی کے مکان سے متصل قیام وطعام کاانتظام کیاگیا۔ابھی دربار میں جگہ اور منصب طے بھی نہیں ہوسکا تھا کہ وہ شدید بیمار ہوگئے اور اسی بیماری کی حالت میں ایک ماہ آٹھ دن گزارکر 13 اکتوبر 1900 ء کو انتقال ہوا ۔ انہوں نے ایک نعت کہی تھی جس کا مصرع ثانی تاریخ وفات ثابت ہوا\۔

مجموعی طور پر امیرؔ مینائی کے بارے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ ایک بلند پایہ نعت گو شاعر تھے ۔ان کے کلام میں خاص قسم کا احساس، درد اور ایک خاص قسم کی روشنی نظر آتی ہے جو صاحبانِ دل کو بے چین کردیتی ہے ۔ لیکن ایسے بے نظیر شخص ،جنہیں ممتاز علی آہ نے خاتم الشعراء کہا ہے، ان کے حالات اور ادبی کارنامے اب تک گُم نامی میں پڑے ہیں۔امیرؔ کی شاعری اور شاعرانہ زندگی پر تفصیل سے نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین