• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مریم نواز: والد کی تیمارداری پہلے سیاست بعد میں

مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ نواز شریف کی صحت اور مریم نواز کی ضمانت ایسے موضوع تھے جو کہ ہفتہ بھر زیر گفتگو رہے اور ہیجان پیدا کرتے رہے۔ آزادی مارچ پنجاب سے گزرا لیکن شہباز شریف کی قیادت میں اس میں شرکت کے حوالے سے تذبذب اور ڈھلمل کی صورتحال رہی۔ کارکنوں کو متحرک نہ کیا گیا نہ کسی نے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا نہ کارکنوں کو قائل یا مائل کیا گیا کہ آزادی مارچ میں شرکت سے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ 

یہی حال پیپلز پارٹی کا رہا۔ وہ ابتدا سے ہی دھرنے میں شرکت کی مخالفت کرتے رہے۔ پنجاب میں تو مسلم لیگ (ن) کی اکثریت اور زور ہے یہی بہترین موقع تھا کہ گزشتہ 13ماہ میں عمران خان حکومت میں جو ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، معیشت کا جو بیڑا غرق کیا گیا ہے، جس طرح بے روزگاری عام ہو ئی ہے، پنجاب جو کہ تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا اب نہ صرف ترقی کا پہیہ جام ہو گیا بلکہ پرانے منصوبے بھی رک گئے ہیں۔

ایسے ماحول میں تو کارکنوں کی جانب سے دل کی بھڑاس نکالنے کا اچھا موقع تھا۔ پھر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور رہنمائوں کو جس طرح قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑ رہا ہے اس میں تو آزادی مارچ مسلم لیگ (ن) کے لئے ایک نعمت اور غیبی امداد کی مانند آئی تھی اگر مولانا صاحب دو لاکھ کارکن لے کر آئے تھے تو مسلم لیگ کو ڈھائی لاکھ کارکن نکالنے چاہئیں تھے۔ ان کا ووٹ 2018ء کے انتخابات میں ایک کروڑ 30لاکھ تھا۔ دراصل نواز شریف کے بیانیے کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس طرح کی تمام قیادت کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ 

شہباز شریف ابتدا سے ہی اداروں سے لڑائی جھگڑوں کے خلاف ہیں یعنی وہ سٹیٹس کو سے باہر آنے کے قائل نہیں۔ وہ اداروں کی حمایت سے ہی مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے لئے کوئی راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اس آزادی مارچ کی طاقت کا سہارا لے کر اور اپنی قوت کو اس میں مدغم کر کے ایک نئے عمرانی معاہدے کی جانب قدم بڑھاتیں۔ 

اس وقت پاکستان اور پاکستان کی معیشت جس مشکل کا شکار ہے اس میں ضروری ہو گیا ہے کہ جو ’’جھگڑا یا تنازعہ‘‘ پیدا ہو گیا ہے یا جو غلط فہمی یا محاذ آرائی موجود ہے اس کو بیٹھ کر دور کیا جائے۔ سسٹم کو بہتر بنانے اور اس کو مزید شفاف بنانے کے لئے یہ موقع تھا جس کو ضائع کیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ ادارے بھی یہی چاہتے ہوں کہ اپوزیشن جو الزام ان پر عائد کر رہی ہے اس کو رفع کیا جائے۔ 

ایسی غلط فہمی دور کی جائے۔ لیکن کوئی کیا کرے کہ بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت دو بیانیوں میں تقسیم ہے حالانکہ یہ وقت تھا کہ سیاسی اور ریاستی اداروں کے مابین ڈائیلاگ کا انعقاد ہوتا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ عوام الناس اداروں پر شکوک و شبہات کا اظہار کریں لیکن ان کو مطمئن کرنے کی کوئی کاوش نہ کی جائے کہ یہ سب غلط ہے۔ ہاں اگر یہ سب غلط ہے تو ’’مداخلت‘‘ کا خاتمہ بہترین حل ہے۔ 

ٹکرائو اور تصادم سے ملک آگے نہیں جا سکے گا۔ عوام کا اضطراب جب ہی دور ہو گا جب وہ پورے یقین کے ساتھ سمجھیں گے کہ کوئی بھی ادارہ ان کے ساتھ ناانصافی نہیں کر رہا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی قوم کے لئے یہ بہت بڑی خدمت ہوتی جب وہ ایک طویل عرصے سے اس ’’محاذ آرائی‘‘ کا کوئی حل نکال لیتے۔ بہتر ہوتا کہ ایک بڑی میٹنگ میں سب اپنا اپنا سچ بولتے، غلطیوں کوتاہیوں کا اعتراف کرتے پھر ایک نئے عمرانی معاہدے کی جانب بڑھتے لیکن افسوس صد افسوس تمام فریق معاملات کو جوں کا توں رکھنے پر بضد ہیں۔ 

4؍ نومبر کو لاہور میں شہباز شریف کی صدارت میں پارٹی کا ایک اجلاس ہوا لیکن مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے فائدہ اٹھانے کی نہ تو کوئی سبیل کی گئی نہ اس حوالے سے کوئی حکمت عملی وضع کی گئی۔ خواجہ آصف، ایاز صادق، احسن اقبال، رانا تنویر کا رجحان اور حمایت شہباز شریف کی جانب تھی البتہ خرم دستگیر، میاں جاوید لطیف، زبیر عمر وغیرہ نواز شریف کے بیانیے کو زیادہ اہمیت دے رہے تھے۔ 

ان کا موقف تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی عددی طاقت میں اپنی طاقت کو شامل کر کے سسٹم کو اس جنجال سے نکالا جائے جس میں یہ دیر سے پھنسا ہوا ہے۔ اداروں کی مداخلت سے پاک نظام ہی ملک کی سالمیت اور ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے جبکہ اس میٹنگ میں شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے قائد کی صحت کے حوالے سے خدشات اور پریشانی کا اظہار کرتے رہے۔ میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت مسلم لیگ (ن) نے مولانا کا ساتھ نہ دیا تو مولانا کمزور پڑ جائیں گے اور بامر مجبوری ان کو واپس جانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ 

اس اجلاس میں پرویز رشید بھی زیادہ پرجوش نظر نہ آئے۔مریم نواز کی ضمانت بھی گزشتہ ہفتے ایک بڑی سیاسی واقعہ ہے گو کہ اس رہائی کی کڑی شرائط ہیں، ان کا پاسپورٹ ضبط ہے، 7کروڑ جمع کرانا ہے، یہ تو عدالتی معاملات ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان شرائط کو سپریم کوٹ میں چیلنج کریں۔ اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ سیاسی میدان میں کب آتی ہیں؟ آتی بھی ہیں یا نہیں؟ جب وہ باہر آئیں گی تو وہ آزادی مارچ کا آخری مرحلہ ہو گا۔ 

فی الحال تو ان کی تمام توجہ نواز شریف کی صحت کے حوالے سے مرکوز ہے لیکن ان کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ نواز شریف کی صحت اس حال کو کیوں پہنچی ہے؟ اس لئے آخرکار ان کو میدان میں آنا ہو گا۔ بہرحال عدالت نے جس طرح اور جس انداز میں ان کی ضمانت لی ہے اس سے ان کو یہ فائدہ ہوا کہ کوئی ان پر یا ان کے خاندان پر ڈیل کا الزام عائد نہ کر سکے گا اور یہ بھی کہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ جان دے دیں گے این آر او نہیں دیں گے۔ 

بفرض محال اگر ڈھیل کہیں اور سے ملی ہے تو پھر یہ عمران خان کی ناکامی ہے کہ معاملات پر کوئی اور حاوی ہے اور وہ محض دکھاوے کے وزیر اعظم ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کے حامی اور وزراء اب اس ضمانت پر ڈیل کا الزام ہرگز نہیں لگا سکتے، اگر لگاتے ہیں تو وہ عمران خان کے بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔ پنجاب کے حالات اسی طرح دگرگوں چل رہے ہیں، ترقی کہیں نظر نہیں آ رہی، ڈینگی بے قابو ہے، موسم کی تبدیلی کے بعد آلودگی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے، اورنج ٹرین نہ معلوم کیوں نہیں چلائی جا رہی ہے؟ 

شاید عوام کو اس سے جو ریلیف ملے گا اور وہ شہباز شریف کی ٹرانسپورٹ کی سہولت کی اس کاوش کو سراہیں گے وہ عثمان بزدار کو اور عمران خان کو قبول نہیں۔ گزشتہ ہفتے مینار پاکستان پر تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں خادم حسین رضوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک مشکلات کا شکار ہے، انتشار کو ہوا دینے کے بجائے قوم کو متحد کرنا ہو گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین