مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
مولانا ڈاکٹرمحمد حبیب اللہ مختار شہیدؒ کا شمار محقق اور نادرہ روزگار علماء میں ہوتاہے،آپ بےیک کئی خوبیوں کے مالک تھے ، اور ان گنت صلاحیتیں آپ کی شخصیت میں جمع تھیں۔علمی،تحقیقی،تصنیفی ،اور انتظامی میدان میں آپ کی خدمات اور مدبرانہ صلاحیتوں کے سب ہی معترف ہیں۔اصول وضوابط کی پاس داری میں اپنی مثال آپ تھے،وقت کی قدروقیمت نے آپ کی شخصیت کوچارچاندلگادیئے تھے،آپ مختصر عرصہ زندگی میں تنِ تنہاایک پوری جماعت کاکام کرکے،سینےپرشہادت کا تمغہ سجائےاس دارِفانی سےسفر آخرت پر روانہ ہوگئے اوراپنے بعدوالوں کے لئے ایک آئیڈیل اور نمونہ بن گئے۔
مولانا محمد ڈاکٹرحبیب اللہ مختارؒدہلی میں پیداہوئے،آپ کے والدِگرامی حکیم مختارحسن خان دہلویؒ طبیبِ حاذق وماہرحکیم تھے،انہوں نے دہلی میں طب کی تعلیم حاصل کی،پاک وہندکی تقسیم کے بعدہجرت کرکےکراچی تشریف لائے اوریہاں حکمت کے شعبے سے وابستہ رہے،آپ کا علمائے کرام واکابرین سے خصوصی تعلق رہا، اسی تعلق کی بناءپر آپ کے صاحب زادے مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختارنے عظیم دینی درس گاہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے محدّث العصر ،مجاہدِ ختم نبوت علامہ محمد یوسف بنوریؒ کی زیرِنگرانی دینی تعلیم کی تکمیل کی،مزیدتعلیم کے لئے آپ نے مدینہ یونیورسٹی کارُخ کیا،جہاں چارسال تک آپ طلب علم میں مشغول رہے،مدینہ یونیورسٹی سے تعلیمی فراغت کے بعد آپ کوآپ کے شیخ ومربی علامہ بنوریؒ نےاپنے ادارے میں دینی خدمت کے لئے طلب فرمایا،آپ نے اس حکم کی تعمیل کواپنے لئے سعادت سمجھااوراپنے شیخ کے ادارے ’’جامعہ بنوری ٹاؤن ‘‘سے منسلک ہوگئے۔یہاں دینی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم،اے کیا،جس میں آپ فرسٹ پوزیشن حاصل کرکے گولڈمیڈل کے مستحق قرارپائے۔
بعد ازاں آپ نے جامعہ کراچی سے ہی ڈاکٹریٹ(پی،ایچ، ڈی)کی ڈگری بھی حاصل کی۔ علامہ بنوریؒ کے انتقال کے بعد امام اہلِ سنت مولانامفتی احمدالرحمن ؒ کوجامعہ بنوری ٹاؤن کاسربراہ مقررکیاگیااور1991ء میں جب مفتی احمدالرحمن ؒ کاوصال ہواتومولانا ڈاکٹرحبیب اللہ مختاراس مایۂ نازدینی ادارے کے رئیس ومہتمم منتخب ہوئے۔ ساتھ ہی مدارس عربیہ کی ملک گیرتنظیم ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘کے ناظم اعلیٰ بھی چنے گئے۔آپ نے اپنی زندگی کاکوئی لمحہ ضائع نہیں کیا،بلکہ وقت کی قدرقیمت کوجانتے ہوئے اورعمرعزیزکوامانت سمجھتے ہوئے ہمہ وقت آپ تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اورانتظامی معاملات میں مصروف رہے،تاریخ ہمیشہ وقت کے قدردان لوگوں کانام اونچااور روشن رکھتی ہے،آپ کے تاریخی کارناموں کی بناء پر بعدوالوں کے لئے آپ کی شخصیت روشن قندیل کی حیثیت رکھتی ہے۔
آپ خالص علمی اورتحقیقی امورسے تعلق رکھتے تھے،عربی ادب سے خصوصی لگاؤتھا،آپ نے اپنے پیچھے بے شمار تصانیف ،تراجم اورتلامذہ کی صورت میں ذی استعداد علمائے کرام کی جماعت یادگارچھوڑی ہے۔آپ سے استفادہ کرنے والوں میں نامی گرامی علمائے کرام شامل ہیں جو ملک پاکستان اوربیرون ممالک میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔آپ نے اپنی زندگی میں دیگرذمہ داریوں کے نبھانے کے ساتھ ساتھ بیسیوں مفیدعربی کتابوں کا انتہائی سلیس اردوترجمہ کیا،تاکہ اُردوداں طبقے کے لئے اُن کتابوں سے استفادہ کرناآسان ہو،آپ کی تصانیف میں سے ’’کشف النقاب‘‘کوبڑی اہمیت حاصل ہے،اس کتاب کامختصر پسِ منظریہ ہے کہ صحاح ستہ یعنی حدیث کی مشہورچھ کتابوں میں شامل امام ترمذیؒ کی کتاب ’’سننِ ترمذی ‘‘کوخاص اہمیت حاصل ہے،حدیث کے طلبہ کے لئے یہ کتاب بڑی نفع بخش سمجھی جاتی ہے،امام ترمذی ؒ عموماً کسی عنوان کے تحت ایک حدیث ذکرفرماکراُس عنوان سے متعلق دیگراحادیث مکمل ذکرکرنے کی بجائے اُن کی جانب اشارہ کرنے پراکتفاء کرتے ہیںکہ اس موضوع سے متعلق دیگراحادیث بھی فلاں فلاں صحابی سے منقول ہیں،ان احادیث کی تلاش وجستجو کاکام اولاً علامہ بنوری ؒ نے خودشروع فرمایا اور پھراس عظیم حدیثی خدمت کے لئے مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختارکو منتخب کیا،آپ نے ان احادیث کی تحقیق وتلاش فرما کرایک عظیم الشان ذخیرہ جمع فرمایا،یہ عظیم اورمایۂ ناز حدیثی خدمت آپ کی حیات میں ’’کشف النقاب‘‘کے نام سے پانچ جلدوں میں طبع ہوکرمنظرعام پرآئی،نیز آپ ہی کےاسلوب پر اہل علم کی ایک جماعت نے اب تک مزید چارجلدیں بھی مرتب کیں جو چھپ چکی ہیں اور اس سلسلے پر مزید کام تاحال جاری ہے۔ان تمام ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود آپ تصوف وسلوک کی لائن میں بھی پیچھے نہیں رہے ، چناںچہ آپ قطب الارشادحضرت مولانا عبدالعزیز رائے پوریؒ سے بیعت بھی تھے اورآپ کو خلافت بھی حاصل تھی،نیزآپ ذکر و اذکار اور دیگرمعمولات بھی پابندی سے انجام دیاکرتے تھے۔
آپ سات برس تک جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم وشیخ الحدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے،آپ کی سیرت کے کئی پہلو ہیں جن پر سیر حاصل کلام مختصر کالم میں ممکن نہیں ،اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ حال ہی میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ نشرواشاعت’’بینات‘‘ نے آپ کی شخصیت پر ایک ضخیم خصوصی نمبرشائع کرنے کاعزم کیاہے،جس میں ملک پاکستان اور بیرون ممالک کے بلند پایہ اہل علم واہل قلم کے مضامین شامل ہیں،یہ اشاعت خاص عنقریب زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آنے والی ہے۔
نومبر1997ء میں آپ اپنے چندرفقاء کے ہمراہ اپنے ادارے جامعہ بنوری ٹاؤن کی ایک شاخ جو پاپوش کالونی میں واقع تھی ٗمیں ایک تصفیہ طلب مسئلہ کے حل کے لئے تشریف لے گئے،اورواپسی پرآپ کی گاڑی گرومندرکے قریب جامعہ بنوری ٹاؤن سے چندقدم کے فاصلے پرپہنچی تھی کہ دن دہاڑے لوگوں کے جم غفیرکے سامنے 2؍نومبر1997ء کوآپ اپنے رفیق مولانا مفتی عبدالسمیع ؒ اورڈرائیورمحمدطاہرؒکے ہمراہ شہیدکردیئے گئے،آپ کوجامعہ بنوری ٹاؤن کے احاطے میں مسجدکے دائیں جانب اپنے شیخ ومربی علامہ بنوری ؒ اور امام اہل سنت مفتی احمد الرحمن ؒ کے پہلومیں دفن کیاگیا،جہاں آپ ابدی نیندآرام فرمارہے ہیں اور صبح شام بڑی کثرت کے ساتھ ایصال ثواب کے نذرانے ان کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔