• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقرا عباس

عبداللہ ایک غریب آدمی تھا دووقت کی روٹی مشکل سے کما لیتا تھا، مگر اس کی بیوی بہت صابر تھی کبھی اف تک نہ کی احمد عبداللہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جیسے جیسےاحمد بڑا ہونے لگا، اس کی فرمائشیں بھی بڑھتی گئی۔عبداللہ ایک اسکول میں معمولی چوکیدار تھا اور احمد کی فرمائشیں پوری کرنا اس کے اختیار میں نہیں تھا چوکیدار ہونے کی وجہ سے اسکول کے پرنسپل نے احمد کو بغیر فیس کے اسکول میں داخلہ دےدیا تھا۔

وقت گزرتا گیا احمد جوان ہوگیا اس نےبی اے کرلیاتھا۔عبداللہ اب بوڑھا ہوچکا تھا اس میں کام کرنے کی طاقت باقی نہیں تھی ۔ اب جوبھی کرنا تھا احمد نے کرنا تھا ۔ وہ روز صبح سویرے نوکری کی تلاش میں نکلتا اور شام کو ناامید ہوکر واپس آجاتا کافی عرصہ گزر جانے کے بعد وہ بالکل ناامید ہوچکا تھا ۔

اگلے دن اس نے نوکری کی تلاش پر جانے سے ہی انکارکردیا، مگر عبداللہ نے سمجھایا۔ دیکھو احمد! میں نہیں چاہتا کہ تم میری طرح ساری زندگی ہر خوشی کے لئے ترستے ہوئے گزاردو۔اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا ۔جاو اور نوکری تلاش کرو۔ عبداللہ کی باتوں سے احمد کو کافی حوصلہ ہوا اور وہ پھر گھر سے نکل پڑا۔

راستے میں اس کی ملاقات کامران نامی ایک آدمی سے ہوئی۔ وہ منشیات کی فروخت کاکام کرتا تھا ۔ اس نے احمد کو باتوں میں بہلا پھسلا کراس کام پر آمادہ کرلیا۔ احمد بھی اچھی تنخواہ دیکھ کر منع نہیں کرسکا۔

پھر احمد بھی اس دھندے کا حصہ بن گیا اب تو چوری بھی کرنے لگا تھا۔گھر میں لاکھوں روپے کماکر لانے لگا تھا۔ عبداللہ کوتشویش ہوئی تو اس کے پوچھنے پر احمد غصہ ہوگیا کہنے لگا کہ اگر آپ نے ساری زندگی محرومی میں گزار دی تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں بھی ایسے ہی جیوں۔مجھے اچھی نوکری مل گئی ہے توآپ شکر کیوں نہیں ادا کرتے۔’’ بوڑھا باپ بیٹے کا غصہ دیکھ کر خاموش ہوگیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ احمد ایک بہت بڑے گروہ کا حصہ بن گیا۔ کیونکہ وہ زیادہ ماہر نہیں تھا، اس لئے ایک دن منشیات فروخت کرتے ہوئے پولیس نے چھاپہ مارا ،جس میں احمد اور اس کے چند ساتھی گرفتار ہوگئے احمد بہت زیادہ خوفزدہ ہوگیا تھا۔

عبداللہ کو جیسے ہی اطلاع ملی وہ دوڑا دوڑا تھانے پہنچا ۔ عبداللہ کوسامنے دیکھ کر احمد کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بوڑھے باپ کی آنکھوں میں بھی صرف آنسو ہی تھے کیونکہ اس کے بیٹے نے آج اسے مایوس کردیاتھا اسکول کے پرنسپل سے جان پہچان کی وجہ سے احمد کو رہا کردیاگیا ۔

احمد نے گھر آکر روروکر اپنی ماں باپ سے معافی مانگی ۔عبداللہ نے اسے معاف کردیا اور اسے سمجھایا کہ اللہ سے معافی مانگو اور نیک کام کرو۔احمد نے اللہ سے بھی روروکر معافی مانگی۔

اس کے بعد احمد نے گاؤں کے بچوں کو پڑھانا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے گاؤں میں ہی ایک بڑا اسکول کھول لیا جووہاں کے بچوں کے لئے ایک بڑی نعمت بن گیا احمد اب مطمئن تھا کیونکہ اس نے نیکی کا رستہ اختیار کیاتھا اور اللہ نے اسے اجر بھی دیا۔

تازہ ترین