• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب پولیس۔ بھرتی بطور انسپکٹر ریٹائرڈ بطور انسپکٹر!

نیکی او ر بدی زندگی میں چلتی رہتی ہے لیکن اگر کسی پرایک دفعہ بدنامی کی چھاپ لگ جائے تو یہ بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ اس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اسی لئے کہتے ہیں ”بد سے بدنام برا“ مثلاً اپنی پولیس ہی کو لیجئے۔ یہ بیچاری ایسی بدنام ہے کہ اب اگر (نادانستگی میں ہی سہی) اس سے کوئی اچھا کام بھی ہوجائے توکوئی اسے ”کریڈٹ“ دینے کو تیار نہیں ہوتا، یہ کسی کا کچھ بھلا کرد ے تو وہ بجائے ممنون ہونے کے ”ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں“ والی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ ظلم، زیادتی بھی پولیس کے ساتھ منسوب ہے چنانچہ اگر کبھی یہ معلوم ہو کہ کسی پولیس والے پر ظلم ہو رہا ہے تواسی بدنامی کے پیش نظرپہلے توہم سمجھتے ہیں کہ ”نئیں اصلی گل کوئی ہور ہووے گی“ لیکن اگر ثابت ہوجائے کہ اس پولیس افسر پر واقعی ظلم ہورہا ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ چلوپولیس والا ہی ہے نا کوئی ”انسان“ تو نہیں ہے۔ یہ بالکل اس بڑھیا جیسی سوچ ہے جوایک ایکسیڈنٹ پر پہنچتی ہے اور یہ جان کر کہ ایک پولیس والا مر گیا ہے شکر ادا کرتے ہوئے ”اظہارِ ہمدردی“ یوں کرتی ہے کہ ”چلو شکر اے پولیس والا اے میں سمجھی کوئی ”بندہ“ مر گیا“ یہ زاویہ نظر درست نہیں ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں"Two wrongs do not make one right" لہٰذا اگر کوئی پولیس افسر برائی کرتا ہے تو اسے اس کی سزا ملنی چاہئے۔ لیکن اس کے اپنے ساتھ اگر کوئی نا انصافی ہورہی ہے تواس کا تدارک بھی ضروری ہے۔
اس تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ آج کل دو سوسے قریب ڈائریکٹ بھرتی شدہ پولیس انسپکٹرز ناانصافی کا شکار ہیں۔ یہ لوگ 1998 میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پنجاب پولیس میں بطور انسپکٹر سلیکٹ ہوئے تھے۔ یہ نوجوان اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں سی اے، ایم بی اے، ایم بی بی ایس، ایم اے، ایم ایس سی وغیرہ کے حامل تھے۔ ان ڈائریکٹ انسپکٹرز کی سلیکشن کا فیصلہ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف صاحب نے ”تھانہ کلچر“ کی تبدیلی کے پیش نظر کیا تھا۔ بھرتی میں میرٹ کے اعلیٰ ترین معیار کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ ایک طرف تو پبلک سروس کمیشن جیسا معیاری ادارہ اس میں شامل تھا اور دوسری طرف شہباز شریف صاحب ذاتی دلچسپی سے بھی میرٹ کو یقینی بنا رہے تھے چنانچہ پنجاب پولیس میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کو تمام امتحانی مراحل سے انتہائی صاف شفاف طریقے سے گزار کر ڈائریکٹ انسپکٹر منتخب کیا گیا۔ بھرتی کے فوراً بعد ان کی ٹریننگ کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ قانون کی متعلقہ تعلیم کے علاوہ انہیں اعلیٰ درجے کی جسمانی تربیت فراہم کی گئی جس میں ایلیٹ کمانڈوکورس بھی شامل تھا۔ ابھی یہ تربیت کے آخری مراحل میں تھے کہ اکتوبر 1999 میں حکومت تبدیل ہوگئی۔ محکمے میں ان کے "Future"اور "Promotion Criteria" وغیرہ کے معاملات ابھی طے ہونا تھے لیکن محترم شہباز شریف صاحب کو شاید اس کا موقعہ نہ مل سکا۔ کسی میرٹ کے بغیر آنے والی نئی حکومت نے ان میرٹ والوں کی کوئی قدر نہ کی۔ چنانچہ تربیت مکمل کرنے کے بعد جب انہوں نے ”فیلڈ“ جوائن کیا تو ان کے مقصد کے پیش نظر جو اہمیت انہیں ملنی چاہئے تھی وہ نہ مل سکی لیکن اس کے باوجود ان لڑکوں نے اپنی تعلیم تربیت اور صلاحیتوں کا بہترین استعمال کیا اور جہاں جہاں بھی محکمے نے انہیں ذمہ داریاں دیں انہوں نے اپنی کارکردگی سے بڑا واضح اور مثبت فرق پیداکیا۔ PCS انسپکٹرز جہاں کہیں تعینات رہے عمدہ اخلاق اور بہتر رویہ ان کی ترجیح رہا (پبلک اس بات کی گواہ ہے) روایتی پولیس کے برعکس ”پبلک ڈیلنگ“ کے معیار کی بہتری کے لئے پرخلوص کوشش کی گئی اور اس کے مثبت نتائج ہر جگہ محسوس کئے گئے۔
لیکن ناانصافی یہ ہے کہ آج پندرہ سال گزرنے کے باوجود ان ڈائریکٹ انسپکٹرز کو ترقی نہیں مل سکی۔ ان کا ”سروس اسٹرکچر“ اور ترقی کا طریقہ کار جوشروع میں طے ہونا چاہئے تھاآج تک نہیں بن سکا۔ یہ لوگ سخت اضطراب اور مایوسی کا شکار ہیں۔ محکمے میں اپنے مستقبل کے بارے میں بددلی اورشدیدمایوسی کی بنا پرانکے کئی ساتھی نوکری چھوڑ کرجاچکے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ لوگ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے تمام عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے ہیں اور وہاں سے ہدایات ملنے کے باوجود افسران بالا پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ دوسری طرف ان مستحق و منتظر انسپکٹرز کی بجائے انہوں نے بغیر کسی منطق و دلیل کے، ”رینکرز“ کو پروموٹ کر دیاہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو لوگ ان کے ”جونیئرز“ تھے اور اوائل نوکری میں انکے پاس بطور ASIاور سب انسپکٹرز کام کر رہے تھے وہ اب پروموشن لے کر ان کے اوپر براجمان ہوگئے ہیں ”جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے“
افسران بالا نجانے کیوں ان پی سی ایس انسپکٹرز کی ترقی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں شاید یہ PSP افسران ان انسپکٹرز کی ترقی کو اپنی ”چوہدراہٹ“ اور ”نمبرداری“‘ کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں یا شاید ان کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر انسپکٹرز ترقی کرتے ہوئے DSP اورپھر SP بن گئے تو پنجاب میں PCS کے مختص کوٹے کے پیش نظر ان افسران کو پوسٹنگز کم ملیں گی اور انہیں دیگرصوبوں میں جانا پڑے گا جو ظاہر ہے ان کی ”طبع نازک“ کے لئے کسی طور موزوں نہیں ہے۔ بہرطور یہ انسپکٹرز CSSاور PCS کی روایتی چپقلش کا شکار ہو رہے ہیں اور اپنی ترقی کے زمرے میں مسلسل نظرانداز کئے جارہے ہیں۔
یہ لوگ سخت مایوسی اورپریشانی کا شکار ہیں۔ اس غیریقینی صورتحال اور پریشانی کے عالم میں ان کے کئی ساتھی محکمہ چھوڑ چکے ہیں اور ”باقی جوہیں سب تیاربیٹھے ہیں“ ایسے میں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بعد جناب وزیراعلیٰ صاحب کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان کے اخلاص اور جواں جذبے پر لوگوں کوہمیشہ کی طرح آج بھی یقین ہے انہیں شاید 1998 کی وہ سردیاں یاد ہوں جب وہ سہالہ میں ان انسپکٹرز کی تربیت کے آغاز میں ان کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں Policing کو بہتر بنانے کے علاوہ ان کے ”سروس سٹرکچر“ اور ”جلد پروموشن“ کی باتیں کی تھیں بہتر Policing کے لئے تو ان انسپکٹرز نے اپنا کردارادا کیا۔ تھانوں میں تشدد اور خوف کی فضا کسی قدر کم ہوئی "Community Policing" کے تصور کو اجاگر کیاگیا اور "Public Access" کو بھی کسی قدرآسان بنایا گیا۔ تھانوں میں رہتے ہوئے ایک دن میں 26/26 گھنٹے کام کیااور فرنٹ لائن میں رہ کرجرم کے خلاف جنگ لڑتے رہے … یہاں تک کہ ان کے تین ساتھی انسپکٹرز فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جام شہادت بھی نوش کر چکے ہیں لیکن! ان بیچاروں کے ”سروس سٹرکچر“ کا کیا بنا؟ ان کی جلد پروموشن کا وعدہ کیا ہوا؟؟ کوئی ارباب ِ اختیار سے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ ”کیا انہیں تمام سروس اسی ایک ”رینک“ (انسپکٹر) کے لئے بھرتی کیاگیا تھا؟ یہ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر محکمہ جوائن کرتے وقت انہیں بتایا جاتا کہ اگلے پندرہ بیس سال آپ انسپکٹر ہی رہیں گے توشاید ان میں سے ایک لڑکا بھی جوائن نہ کرتا۔
لیکن ! اب! اب جبکہ محکمے کے تندو تلخ شب و روز نے ان کی جوانیوں کو گہنا دیا ہے ان کی اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کو گزرے مہ وسال کی گرد کھا گئی ہے اور ادھیڑ عمری ان کے دروازے پر کھڑی دستک دے رہی ہے تو یہ کہاں جاسکتے ہیں!! اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ یہ ہلکی سی صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرسکتے کیونکہ Force کا حصہ ہیں۔ (کیسی بے بس ہے یہ "Force") ہمارے ہاں ینگ ڈاکٹرز ”لڑبھڑ“ کر اپنا ”سروس اسٹرکچر“ بنوا لیتے ہیں، کلرکوں کی حق تلفی ہو تو وہ ”قلم“ چھوڑ ڈیتے ہیں حتیٰ کہ ہمارے خاکروب بھی ”جھاڑو“ اٹھا کر احتجاج ”ریکارڈ“ کروارہے ہوتے ہیں۔
لیکن ان بیچاروں کے ہاتھ بندھے اورزبانیں گنگ ہیں۔ تھانوں میں بیٹھے یہ انصاف دینے والے خود بدترین نا انصافی کا شکارہیں۔ یہ اپنے اپ کو ایک بند گلی میں پاتے ہیں۔ دن رات کی مسلسل ڈیوٹیوں پر مستزاد یہ غیریقینی صورتحال ہے جو انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں ہمہ وقت پریشان رکھتی ہے۔ ایسے میں ان سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے (اور جو ان کی ذمہ داریوں کے پیش نظر بلاجواز بھی نہیں) کہ ہر آنے والے سے انہیں خوش دلی، خندہ پیشانی اور عمدہ اخلاق سے پیش آنا چاہئے۔ ندیم قاسمی صاحب نے شاید ان کے لئے ہی کہا تھا:
میں چھپ چھپ کے روؤں اور سر انجمن ہنسوں
یہ مشورہ مجھے میرے درد آشنا کا تھا
یہ لوگ اس توقع پر پورا اترنے کی ،اپنے تئیں کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی اپنی صورتحال کو دیکھا جائے تو بہرطور، یہ آسان کام نہیں ہے بندہ خود پریشان ہو تو کسی دوسرے کو خوشی دینا جس مجاہدے کا متقاضی ہے وہ ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔
انسپکٹر رینک محکمہ پولیس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن شاید اعلیٰ افسران کو اس کی اہمیت کا ادراک نہیں۔ اس رینک کے حامل اتنی کثیر تعداد کے افسران اگر مایوس ہوں گے توساری فورس پر نہایت منفی اثر پڑے گا۔ PCS انسپکٹرز کی سالہا سال ترقی نہ ہونے کی وجہ سے پولیس فورس جس قدر Demoralized ہو رہی ہے اورمحکمے کے نچلے طبقے اور ان کی Working پر جو برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کا بروقت احساس اور ”علاج“ انتہائی ضروری ہے۔
محکمے کے افسران بالا سے ناامید ہو کریہ انسپکٹر ز اب جناب وزیراعلیٰ صاحب کی طرف دیکھ رہے ہیں جنہوں نے انہیں میرٹ پر بھرتی کروا کر ایک ایسا کام سرانجام دیا تھا جس کی بنا پر انہیں یاد رکھا جائے گا۔ انہیں چاہئے کہ اپنے اس ”کار خیر“ کو ”انجام بد“ سے بچائیں۔ یہ پودے آپ نے لگائے تھے انہیں تناور درخت ضرور بننا چاہئے۔ جناب وزیراعلیٰ صاحب کو ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ان ڈائریکٹ انسپکٹرز کی جائزپروموشن کواسی طرح یقینی بنانا چاہئے جس طرح ان کی میرٹ پر بھرتی کو یقینی بنایا گیا تھا… تاکہ یہ ”بھرتی بطور انسپکٹر ریٹائرڈ بطور انسپکٹر“ کے انجام سے بچ سکیں۔
تازہ ترین