اسلام آ باد ( نمائندہ جنگ، جنگ نیوز) قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دوسرے دن بھی خاصا ہنگامہ رہا۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کی۔
اپوزیشن نے حکومتی مذاکراتی ٹیم میں اسپیکر اورچیئرمین سینیٹ کو فریق بننے پر شدید تنقید کی اورغیر جانبدار رہنے کا مطالبہ کیا، اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے ایک دوسرے کیخلاف نعرے بازی کی تلخ زبان کا استعمال کیا۔
خواجہ آصف نے کہا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بے خبر ، ہم جانتے ہیں، آپ پر آسمان گرنے والا ہے،ہمارا امپائر سپریم کورٹ ہے، آپکی انگلی نہ جانے کہاں گئی۔
مراد سعید نے کہا کہ خواجہ آصف نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر غلط الزام لگایا ہے، جب وہ وزیر خارجہ تھے تو اقامہ پر نوکری کرتے تھے،انکی پوری کابینہ کا یہی حال تھا کوئی دھوبی تھا، کوئی چو کیدار تھا، کوئی دودھ والا تھا، پرویز خٹک نے کہا کہ مولانا اگر مذاکرات کو ٹائم پاس کہتے ہیں تو ہم بھی یہی کر رہے ہیں، دہ جتنے دن چاہیں بیٹھیں،ہمیں بھی بات کا شوق نہیں۔
سینیٹ میں سینیٹر شبلی فرازکی جانب سے اپوزیشن کومولانافضل الرحمٰن کواپنا لیڈرمان لینے کے بعد بیت لینے اور ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیربھٹو کا نام نہ لینے کے بیان پراپیپلزپارٹی نے حتجاج شدید احتجاج کیا گیا۔ اپوزیشن ارکان نے احتساب کو سیاسی انتقام قرار دیا۔
شبلی فراز نے کہا کہ گرفتار لیڈروں پر کیسز ہمارے بنائے ہوئے نہیں،پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ حکومتوں کے رویوں سے حالات بدلتے یا سنورتے ہیں،معاملہ اسمبلی میں زیر بحث آتا تو دھرنا دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ہماری ڈیمانڈ پر الیکشن جلد ہونیوالے ہیں، حکومت کو تب پتہ چلے گا جب چھت ان کے سر پر ا ٓ گرے گی ۔ جس پر تحریک انصاف کے مراد سعید نے کہا کہ خواجہ آصف نے قاسم سوری پر غلط الزام لگایا ہے، موصوف جب وزیر خارجہ تھے تو اقامہ پر نوکری کرتے تھے، ان کی کابینہ کا یہ حال تھا کہ کوئی دھوبی تھا، کوئی چو کیدار۔
پرویز خٹک نے کہا کہ مولانا ٹائم پاس کر رہے ہیں تو ہم بھی یہی کر رہے ہیں، جتنے دن چاہیں بیٹھیں، ہمیں بھی بات کا شوق نہیں۔ اسپیکر اسد قیصر نے اجلاس کی صدارت کی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یہاں آئین کو پا مال کیا جا ر ہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے فیصلہ د ے دیا ہے کہ صدر مملکت نے ممبران کی تقرری کا جو نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے وہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے حکومت سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ میرے اوپر آرٹیکل چھ لگا نا چا ہتے ہیں۔ یہ تو صدر پر بنتا ہے۔ ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ساتھ والی بلڈنگ کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں اور سپریم کورٹ سے فیصلہ لیں۔ ہمارا ایمپائر سپریم کورٹ ہے۔ ہمارا ایمپائر نیازی والا نہیں ہے۔ انگلی اٹھی تو نہیں پتہ نہیں کہاں چلی گئی۔ ہم سپر یم کورٹ کی انگلی کا انتظار کریں گے۔
خواجہ آصف نے گزشتہ روز کی گئی قانون سازی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کل جو کچھ ایوان میں ہوا وہ ہماری پا ر لیما نی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تقاریر کو mute کر دیا جا تا ہے۔ اگر ہمیں ان دیواروں میں بھی اظہار رائے کی آ زادی نہیں ہے تو یہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
انہوں نے ڈپٹی اسپیکر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص جو 65ہزار جعلی ووٹوں کی وجہ سے نا اہل ہوا۔ وہ سٹے آرڈر پر بیٹھا ہے ۔ کل تک سٹے آرڈر حرم تھا اور عمران خان کہتے تھے کہ یہ سٹے آرڈر کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ آج سٹے آرڈر حلال ہو گیا ہے۔ سٹے آرڈر کے پیچھے چھپنے والے شخص نے کل یہ سیاہ دن دکھایا۔ ہماری ترامیم کو نظر انداز کرکے بارہ آرڈی نینس پاس کرائے گئے۔ نیازی صاحب اپنے آفس میں بیٹھ کر دیکھتے رہے کہ یہ بچے جمہورے کیا کر رہے ہیں۔ اس عمل سے سارا ایوان شرمسار ہوا۔ یہ جمہوریت کے لیے ہر گز نیک شگون اور سود مند نہیں ہے۔ خواجہ آصف نے خبردار کیا کہ اگر یہی رویے رہے کہ زیادہ دور نہیں کہ سارا نظام لپیٹ دیا جا ئے گا۔
انہوں نے پرویز خٹک سے کہا کہ خٹک صاحب جمہوریت کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ اداروں کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ یہ آپ کے بوئے ہوئے بیج ہیں جس کا آج آپ کو سامنا ہے۔ آپ بھی کنٹینر پر کھرے ہوکر ڈانس کیا کرتے تھے۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ یہ کام بھی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے پرویز خٹک کے بارے میں کہا کہ یہ میرا بھائی ہے لیکن جو ٹھمکا اس نے لگایا وہ ہم نہیں لگاسکتے ۔خواجہ آصف نے کہا کہ مو لانا اسعد محمود نے اسپیکر پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا حصہ بننے پر اعتراض درست ہے۔ اسپیکر اور چیئرمین سینٹ کا عہدہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔ ان کا مذاکراتی کمیٹی میں بیٹھنا درست نہیں ہے۔
انہوں نے اسپیکر سے کہا کہ آپ نے کردار ادا کرنا ہے تو جمہوریت کیلئے کریں ایک پارٹی کے لیے نہیں ۔ آپ کی کرسی اور منصب کا تقا ضا ہے کہ آپ جمہوریت کے وکیل بنیں۔ اس ایوان کے وکیل بنیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے جو حلف اٹھا یا ہے اس کیلئے یہاں بھی جوابدہ ہیں اور خداکے سامنے بھی۔خواجہ آصف نے حکومت سے کہا کہ کل آپ 2014میں الیکشن کا مطالبہ کر رہے تھےاگر آج ہم کر رہے ہیں تو اس میں کیا غلط بات ہے۔ پرویز خٹک نے جملہ کسا کہ آپ نے کونسا کروا دیئے تھے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ الیکشن جلد ہونے والے ہیں اور ہماری ڈیمانڈ پر ہوں گے۔ بعض چیزوں کا مجھے علم ہے آپ کو نہیں۔ حکومت والے لوگ سب سے کم علم رکھتے ہیں۔چراغ تلے اندھیر اہوتا ہے۔ آپ کو اس وقت پتہ چلے گا جب چھت آپ کے سر پر گر جا ئے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تلاشی لی گئی لیکن آھ فارن فنڈنگ کیس میں انکی تلاشی ہوئی تویہ تاریخیں لے رہے ہیں۔ انہیں انڈیا سے پیسے ملے ۔ کل یہ کہتے تھے کہ ہماری شلواریں گیلی ہو گئی ہیں۔ آج ان کی شلواریں گیلی ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا اس پر سارا ایوان شرمسار ہے۔ انہوں نے پرویز خٹک سے کہا کہ آپ کو آج نہیں توکل احساس ہو جا ئے گا۔ ہم ڈپٹی مسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے۔
وزیردفاع پرویز خٹک نےجب تقریر کا آغاز کیا تو اپوزیشن اراکین نے شور شرابا کیا جس پر پرویز خٹک نے کہا کہ آج دل سے بولنا چاہتا ہوں، کیا آپ لوگ سنیں گے، سن تو لو یار، یہ تماشہ نہیں چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ مارچ والے صبر کریں، ابھی بہت دیکھنا اور برداشت کرنا پڑے گا، جتنا بیٹھنا ہے بیٹھو لیکن ملک کو نقصان نہیں پہنچانا، اگر مولانا کہتے ہیں جرگہ ٹائم پاس کے لیے ہیں تو ہم بھی آپ سے ٹائم پاس کررہے ہیں۔پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہم نے سارے دور دیکھے ہیں، 40 سال سے سیاست میں ہوں، یہ ملک ہمارا ہے ہم نے اس کے لیے قربانیاں دی ہیں، کوئی ہمیں آرڈیننس جاری کرنے سے نہیں روک سکتا، کیا اپوزیشن نے آئین نہیں پڑھا؟ آئین میں آرڈیننس کی گنجائش موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو آئیں ٹیبل پر بیٹھیں، جمہوریت کے نام پر ملک کا بیڑہ غرق کردیا گیا، یہ آج جمہوریت اور قانون کی بات کرتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ جمہوریت اور قانون کیا ہے۔
وزیر مو اصلات مراد سعید نے کہا ہے کہ خواجہ آصف نے ڈپٹی اسپیکر قسم سوری پر غلط الزام لگایا۔ انہوں نے 25973ووٹ لئے۔ 65ہزار ووٹ جعلی ووٹ لینے کا الزام لگا کر غلط بیانی کی گئی۔ جب وہ وزیر خارجہ تھے تو اقامہ پر نوکری کرتے تھے۔ ان کی پوری کابینہ کا یہی حال تھا کوئی دھوبی تھا ۔ کوئی چو کیدار تھا۔ کوئی دودھ والا تھا۔ جب آپ یہ کریں گے تو سوال تو ہوگا اور آپ کو جواب دینا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ کل ڈپٹی اسپیکر نے دو پوائنٹ آف آرڈر دیے تو انہوں نے پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ کر دیا کہ خواجہ سعدرفیق کو بلائو۔ آصف علی زرداری کو بلاؤ۔ انہوں نے بل پر کوئی بات نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے امریکہ میں کہا کہ مسلم لیگ لبرل جماعت ہے اور اب یہاں مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی تقریر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام چار بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
ادھر ایوان بالا میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے تقریر اور پھر معانگی نہ مانگنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اپوزیشن نے ایوان سے واک آئوٹ کیا اور سینیٹر مولا بخش چانڈ یو کی جانب سے کورم کی نشاندہی کر دی گئی کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس پیر 3 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ قبل ازیں تحریک پر بات کرتے ہوئے سینیٹر محمد کبیر شاہی نے کہا کہ جے یو آئی نے میٹرو بس سروس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی ہے، اس کے باوجود بھی حکومت میٹرو بس کیوں نہیں چلا رہی؟، 2014اور موجودہ دھرنے میں بہت فرق ہے، اس وقت گندگی سے پورا ڈی چوک تعفن زدہ تھا، موجودہ دھرنے کے شرکاء صبح سویرے صفائی کرتے ہیں۔
مولانا فیض محمد نے کہا کہ حکمرانوں کے گفتار اور اور کردار میں فرق ہیں، ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہے، حکومت ہمارے بندوں کو تنگ کر رہی ہے، ہمارے زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں، 14؍ ملین مارچ کیے ایک مرتبہ بھی مقدمہ درج نہیں ہوا۔
سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں آرڈیننس گردی ہو رہی ہے، آرڈیننس یہاں ایوان میں پیش نہیں کئے جا رہے، پارلیمان کی توقیر پامال ہو رہی ہے، پارلیمان کی توقیر کو بحال کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
قائد ایوان سید شبلی فراز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے اپوزیشن کی تقریر سن رہے ہیں، کرپشن اور سیاسی انتقام پر گفتگو کی گئی، جب بھی کسی سیاسی لیڈر کو گرفتار کیا گیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ سیاسی انتقام ہے۔ پی پی پی اور (ن) لیگ کے پاس پچھلے دس سالوں میں نیب قوانین میں تبدیلی کے مواقع تھے، دونوں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سیاست اس ملک کو بنانے کیلئے جوائن کی، لوگ ان دونوں پارٹیوں سے لوگ تنگ آچکے تھے، یہ انسانی حقوق کا معاملہ نہیں خالص کرپشن کا کیس ہیں، گرفتار لیڈروں پر کیسز ہمارے بنائے ہوئے نہیں، ہم ابھی بنائیں گے، انکو پکڑیں گے، سیاست کرنا سب کا حق ہے، حکومت میں آکر یہ آپ کا حق نہیں کہ آپ ملک کی جڑیں کاٹیں، ملکی معیشت اور اداروں کو تباہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سے بہتر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی سطح پر موثر طور پر ناموس رسالت کا معاملہ نہیں اٹھایا گیا، پانچ سال بعد ہمارا بھی کڑا احتساب ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ افسوس ہو رہا ہے کہ اپنے آپ کو لبرل کہنے والی جماعت بھی مولانا کے پیچھے کھڑی ہو گئی ہے، پیپلزپارٹی کو اب ذوالفقار بھٹو اور بینظیر کا نام نہیں لینا چاہئے، انکو مولانا کی بیعت کرلینی چاہئیں۔ شبلی فراز کی تقریر کے دوران پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔