• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج آپؐ کا دن ہے۔ حقیقت میں تو سارے دن ہی آپؐ کے ہیں۔ یہ کائنات، یہ شمس و قمر سب آپؐ کے ہی ہیں۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ایک طرف ہم سے زیادہ خوش قسمت کون ہوگا کہ ہم پیغمبر آخر الزماں محبوب ِخداؐ کی امت میں پیدا کیے گئے اور ہم رسول ہاشمیؐ کی وہ قوم ہیں جو ترکیب میں خاص ہے۔ دوسری طرف ہم سے زیادہ بد بخت کون ہوگا کہ جن کو لوح وقلم عطا کیے جارہے ہوں وہ چھوٹی چھوٹی مسجدوں، صوبوں اور ملکوں پر آپس میں لڑ رہے ہوں۔ ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑے ہوں۔ ایک برادر ملک پر یلغار ہو تو دوسرے بھائی اس کے دفاع میں ساتھ دینے کے بجائے حملہ آوروں کا ساتھ دے رہے ہوں۔ ہم محمدؐ کی غلامی کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن زمینی خدائوں سے ڈرتے ہیں۔ جب ہمیں صف بندی کی ضرورت ہوتی ہے، گھوڑے تیار کرنے کا وقت آتا ہے تو ہمیں مصلحتیں گھیر لیتی ہیں۔

حضورؐ! ہم شرمندہ ہیں، نادم ہیں۔ ہمارے شہر خوف میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ہم آپس میں بر سرپیکار ہیں۔ ہم نے صداقت کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ عقل و دانش۔ منطق سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے۔ ہم نے اخوت کی رگیں خود ہی کاٹی ہیں۔ ہم نے زمانے کو خود آگے جانے دیا۔ آپؐ کی رحلت کے فوراً بعد ہم کس طرح روشنی بن کر پھیل رہے تھے۔ چھٹی ساتویں صدی میں ہم نے کس طرح علوم و فنون کو، سائنس کو، طب کو دوسری زبانوں سے عربی میں منتقل کیا۔ ہمارے سائنسدانوں نے کائنات کے کتنے اسرار تلاش کیے۔ ہماری ایجادات اور دریافتوں سے یورپ نے احیائے علوم کی تحریک کی بنیاد ڈالی۔ پھر یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ہم نے ہدایت کی روشنی کھودی۔ علم کا دامن چھوڑ دیا۔ ہم جذبۂ تحقیق بھلا بیٹھے۔ تاریکی ہم پر حاوی ہوگئی۔ دوسروں کو اجالے بخش کر ہم اندھیروں میں ڈوب گئے۔ یہود و نصاریٰ نے ہمیں لخت لخت کردیا۔ ہم جو براعظموں پر حکمرانی کررہے تھے ، اللہ کا پیغام دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلارہے تھے، انسانوں کو ایک امت کی لڑی میں پرو رہے تھے۔ ہم دوسروں کی غلامی میں پابہ زنجیر ہوتے رہے۔

ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے بتوں سے امیدیں باندھتے رہے۔ کبھی اس بلاک سے وابستہ ہوئے کبھی دوسرے سے۔ کبھی امریکہ کا دامن تھامتے رہے کبھی سوویت یونین کا۔ ہمارے اثاثوں پر استعماری عیش کرتے رہے۔ اپنے کارخانوں کی تعداد بڑھاتے رہے۔ مسلمان ریاستوں میں نوجوان بے روزگاری اور بے تدبیری سے تنگ آکر ان استعماریوں کی فیکٹریاں چلاتے رہے۔ ان کی معیشت کو بلندیوں تک پہنچاتے رہے۔ ہم نے اپنے جوانوں کی توانائیوں کو امّت کی خوشحالی کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ہمارے علماو فضلا اور محقق بھی استعماریوں کی یونیورسٹیوں کی رونق بڑھاتے رہے۔

لے کے آیا ہوں مناجات مدینے والے! ٹھیک ہوتے نہیں حالات مدینے والے! یہ امت صبحِ آزادیٔ کامل کو ترستی ہے۔ غلامی اور بے بسی کی رات ختم ہونے میں نہیں آتی۔ آپؐ کا درس تو یہ تھا کہ سب برابر ہیں۔ کالے اور گورے میں عربی عجمی میں کوئی فرق نہیں۔ امیر غریب سب اللہ کی نظر میں ایک ہیں۔ وہاں صرف تقویٰ کی قدر ہے۔ اللہ نے کہا کہ انسان کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں جس کے لیے کوشش کرے۔ لیکن یہاں تو ایک ایسا با اثر طبقہ ہے۔ جسے کوشش کے بنا زمینیں ملی ہوئی ہیں۔ ڈالروں کی بارش ہوتی ہے۔ بے پایاں دولت ہے۔ اپنے ملک کے ہر بڑے شہر میں بنگلے ہیں۔ غیر ممالک میں بھی جائیدادیں ہیں۔ بڑی تعداد میں ایسے بے بہرہ، بے بس، بے کس ہیں جن کے پاس سر چھپانے کو ایک کمرہ بھی نہیں ہے۔ یہ تو دن رات محنت کرتے ہیں۔ پھر کسی حد تک اپنا پیٹ پالتے ہیں۔

حضورؐ! ہم نے پھر بم دھماکوں میں جنت ڈھونڈنا شروع کردی۔ اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کی جان سے کھیلنے لگے اور اسے جہاد کا نام دیا۔ حضورؐ! ہم سخت نادم ہیں کہ اس بحرانی ابتلا میں جتنے مسلمان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، اتنے کافر نیست و نابود نہیں کیے گئے۔ ہمارے نوجوان جو زندہ رہ کر ملک و قوم کی خدمت کرسکتے تھے۔ اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بن سکتے تھے۔انہیں خود کش جیکٹ پہناکر بتایا گیا کہ جنت کا راستہ یہی ہے۔ کتنے باپ بے سہارا ہوگئے۔ کتنی مائوں کی گود اجڑ گئی۔ سارے مسلم ملکوں میں یہ وارداتیں ہوئیں مگر پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ یہیں اب سب سے زیادہ بیوائیں، سب سے زیادہ یتیم، سب سے زیادہ معذور ہیں۔ اب بھی خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کب کسی کو کافر قرار دے دیا جائے۔ کب کسی پر ارتداد کا فتویٰ صادر کردیا جائے۔ کسی زمانے میں ہم پر دروازے کھلتے جاتے تھے۔ اب در بند ہورہے ہیں۔ ظلم کے ہاتھ مضبوط ہورہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں سوالات تڑپ رہے ہیں۔ ہمارے حکمران ہمارے علماء ان کا جواب نہیں دیتے۔ کچھ خاندان رقبوں پر قابض ہیں۔ کچھ درگاہوں کے اجارہ دار ہیں۔ کچھ دین کے مطلق العنان حاکم بن گئے ہیں۔لیکن ہم کروڑوں آپؐ کے عشق سے سرشار ہیں۔ ہمیں رہنمائی چاہئے۔ آپؐ کی شفاعت چاہئے۔حضورؐ ہم خطا کار ہیں۔ جاہل ہیں۔ پھر بھی آپؐ کی امت کے فرد ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ ہم پر عنایت ، ہم پر کرم۔ اللہ سے سفارش کریں کہ ہمارے بھٹکے ہوئے حاکموں کو صراط مستقیم عطا کرے۔ امت کو آزادیٔ کامل سے ہمکنار کرے۔

تازہ ترین