• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابری مسجد تنازع، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ کن بنیادوں پر ہوا؟

لاہور (صابر شاہ ) بھارتی سپریم کورٹ نے ہفتے کے روز بابری مسجد کیس میں ہندوئوں کے حق میں فیصلہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کی بنیاد پر دیا ۔ رپورٹ میں یہ ظاہر کیا گیا کہ ہندو 16ویں صدی میں تعمیر کی گئی بابری مسجد کے احاطے میں 1857سے قبل تک پوجا کرتے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ برصغیر پا ک وہند کے اس حصے پر برطانیہ کی حکمرانی تھی ۔ عدالت نے ہندوئوں کے اس دعوے کہ بابری مسجد کی تعمیرایودھیا میں اس مقام پر کی گئی جہاں ان کے دیوتا رام کا جنم ہوا تھا ۔ عدالت نے کہا کہ ہندوئوں کا یہ عقیدہ غیر متنازع ہے کہ رام کا جنم بابری مسجد کے مقام پر ہوا تھا۔ عدالت نے سنی وقف بورڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ آثارِ قدیمہ کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ بابری مسجد کے نیچے بھی تعمیرات موجود تھیں جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتی تھیں اور ان حقائق کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ1857تک ہندو مسجد کے باہر کے مقام پر اپنی عبادت کرتے تھے۔عدالت کا کہنا تھا کہ مسلمان یہ ثابت نہ کرسکے کہ 16ویں صدی میں تعمیر کے بعد مسجد کے اندروانی حصے کی ملکیت ان کے پاس رہی ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ہمیں مسلمانوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اسی لئے ہم وفاقی حکومت کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ ایودھیا میں مسجد کیلئے 5ایکڑ کی زمین الاٹ کرے۔ بابری مسجد کو 1992میں جنونی ہندوئوں نے شہید کردیا تھا جس کے بعد ہونے والے فسادات میں 2ہزار افراد مارے گئے ۔ حملہ کرنے والے انتہا پسند ہندوئوں کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر ایک ایسے ہندو مندر کی باقیات پر کی گئی تھی جسے مسلمان فاتحین نے تباہ کردیا تھا ۔

تازہ ترین