بلال احمد ڈار
اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گزرتا رہا ہے لیکن ہر دور میں شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے اس کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے اپنی ان تھک کوششوں سے اردو ادب میں بہت سی نئی اصناف متعارف کروائی ہیں ،جن میں انشائیہ بھی ایک اہم صنف ہے۔موجودہ دور میں زندگی کے نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ایسی صورت میں انشائیہ اظہارِ کا بہترین ذریعہ ہے۔ مصنف بے تکلفی اور شگفتگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتاہے۔
ہر صنف ادب کے کچھ مبادیات و مقضیات ہوتے ہیں جن کی بنا پر ہم اسے دوسری اصناف سے بآسانی ممیّز کرسکتے ہیں۔جس طرح غزل ،قصیدہ،مرثیہ، مثنوی کو صنف شعر سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ کرسکتے ہیں۔ داستان، افسانہ اور ناول کو ایک دوسرے میں گڈمڈ نہیں ہونے دیتے ،اسی طرح انشائیہ کو بھی اس سے ملتی جلتی تحریروں یعنی مضمون،فکاہیہ اور طنزو مزاح سے الگ کرسکتے ہیں۔انشائیہ کی جامع و مانع تعریف کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی ہے۔اسی سعی و جستجو کے نتیجے میں کئی تعریفیں ادیبوں اور نقادوں نے پیش کی ہیں۔
جب ہم انشائیہ کی تعریف کا تعیّن کرنے کے لیے لغاتدیکھتے ہیں تو کم از کم معنویت ضرور سامنے آجاتی ہے۔ انشائیہ کا لفظ انشا سے نکلا ہے۔ اس معنی عبارت،تحریر،دل سے بات پیدا کرنا،علم معانی و بیان،صنائع و بدائع،طرز تحریر اور وہ جملہ جس میں سچ اور جھوٹ کا گمان نہ ہو،سامنے آتے ہیں۔انشائیہ کے ان لغوی معنی کو بیان کردینے سے مدعا واضح نہیں ہوتا۔انشائیہ کی تعریف کا تعین کرنے کے لئے دو چیزیں اہمیت کی حامل ہیں۔بقول سید محمد حسنین:’’ انشاء کا مادہ نشا(نش ئ) جس کے لغوی معنی پیدا کرنا ہے۔۔۔انشاء کی توانائی دراصل خیال کی تازگی، تنومندی سے ظاہر ہوتی ہے۔انشائی قوت سے بات میں معنویت پیدا ہوتی ہے اور خیالات کی لہریں نکلتی ہیں۔‘‘
بقول ڈاکٹر وحید قریشی: انشاء کا لفظ عربی زبان سے اپنی اصطلاحی حیثیت کے ساتھ پیش ہوا ہے۔ انشا کا لفظ ابتدا میں ایک دفتری اصطلاح تھا۔ اس کا اطلاق سرکاری فرامین اور مکتوبات کے رف ڈرافٹ پرہوتا تھا اور صاف شدہ مسودے کو تحریر کے نا م سے پکارا جاتا تھا۔اس نے دیوان اور انشاء کا نام پایا۔رفتہ رفتہ فرامین اور مکتوبات کی تحریر و ترتیب کے لئے انشا کا لفظ مستعمل ہوگیا۔یہی نثر احکام اور فرامین اور مکتوبات کی زبان قرار پائی۔اس نثر میں خطابت کا عنصر جزو اعظم تھا۔اس سے انشا پردازی کی وہ خاص نہج وجود میں آگئی جس کو ہم انشائیہ کے نام سے یاد کرتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر وحید قریشی نےکشاف تنقیدی اصطلاحات‘ میں لکھا ہے: ’’انشائیہ ایک اصطلاح کی حیثیت سے Essayکا ترجمہ ہے۔پہلے پہل اسے بھی مضمون ہی کہا جاتا تھا لیکن مضمون ایک ایسی عام اصطلاح ہے جس کی حدود میں سوانحی مضمون،تحقیقی مقالہ حتیٰ کہ اخبا ر کا مقالہ افتتاحیہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ سید محمد حسنین نے جب انشائیہ کے لفط کو زائیدگی یا آفریدگی کے ساتھ جوڑا تھا تو غالباََ مشکور حسین یاد کے ذہن میں یہی معنی ٹھر گئے تھے۔ وہ لکھتے ہیں’’میں انشائیہ کو ادب کی ام الاصناف کہا کرتا ہوں۔انشائیہ ادب کا ایک فکری اظہار ہے اس لئے ہر ادیب اس کا موجد ہوتا ہے۔دنیا کی ہر زبان میں جب اس کے ادب کا آغاز ہوا تو انشائیہ وجود میں آیا۔‘‘
ڈاکٹر وحید قریشی انشایئے کی ہیئت کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’انشائیے، افسانے، ڈرامے اور دیگرفنی صورتوں میں بھی لکھے جاسکتے ہیں اورلکھے جاتے رہے ہیں اور ان کا رشتہ کبھی ناول سے کبھی ڈرامے سے کبھی افسانے سے جا ملتا ہے۔انشائیے کی اپنی خارجی شکل نہیں ہے۔یہ فارم دوسرے اصناف سے حا صل کرتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ’ دوسرا کنارا‘ میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ،’’انشائیہ کی کوئی مخصوص ہیئت نہیں ہے حتیٰ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ اسے لازمی طور پر مضمون ہی کے اسلوب میں لکھا جائے۔ ایک اچھے انشائیہ کی پہچان یہ ہے کہ آپ اس کے مطالعے کے بعد کتاب کو چند لحظوں کے لیے بند کردیں گے اور انشائیہ میں بکھرے ہوئے بہت سے اشارات کا سہارا لے کر خود ہی سوچتے اور محظوظ ہوتے چلے جائیں گے۔‘‘
انشائیہ نگار موضوع کے بارے میں ہلکے پھلکے انداز کو اپناتا ہے۔ بے تکلفی اور سادگی کے ساتھ اپنے تاثرات کو بیان کرتا ہے۔شگفتہ انداز میں اپنا مافی الضمیرقاری تک پہنچاتاہے۔بعض اوقات طنزومزاح سے بھی کام لیتا ہے۔انشائیہ نگار زندگی کا مبصر ہوتا ہے اور نقاد بھی۔وہ اپنے انشائیے کے ذریعے سے اپنے تجربات کا نچوڑ پیش کردیتا ہے۔زندگی اور اس کے مسائل سے پردہ اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔
انشائیہ نگار زندگی کو جس طرح سے برتتا ہے اور جس رنگ میں دیکھتا ہے اسے وہ اپنی تمام تر داخلی کیفیات کے ساتھ پیش کردیتا ہے۔وہ اختصار سے کام لے کر جامعیت کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔انشائیہ میں کوئی پلاٹ نہیں ہوتا اور نہ یہ مزاحیہ مضمون ہوتا ہے اور نہ افسانہ اور مقالہ۔انشائیہ نگار شروع سے اختتام تک خود بھی بے خبر ہوتا ہے۔
اس کا قوت مشاہدہ وسیع اور تیز ہونا ضروری ہے تب ہی وہ انشائیہ کے فن سے انصاف کرسکتا ہے۔ وہ الفاظ کو نئے معنی اور نئے تناظر میں پرونے کے فن سے واقف کار ہو۔انشائیہ اپنے عہد کا ترجمان اور عکاس ہوتا ہے۔اس کے لیے بندھے ٹکے اصول نہیں ہیں۔اختصار،غیر رسمی انداز،اسلوب کی شگفتگی،عدم تکمیل کا احساس، شخصی نقطۂ نظر وغیرہ جیسی خصوصیات کا ہونا ضروری ہے اور ان ہی اجزاء سے جو فن پارہ تکمیل پائے گا وہ انشائیہ کہلائے گا۔