پاکستانی ادب میں تاریخی ناول لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، الیاس سیتاپوری سے لے کر خان آصف تک کئی نام دکھائی دیتے ہیں، انہی ناول نگاروں میں نمایاں اور مقبول نام’’نسیم حجازی‘‘ کا بھی ہے۔ انہوں نے اردو زبان کے تاریخی فکشن لکھنے میں اپنی تخلیقی و تصوراتی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے ان کی شہرت اور اثرات کا دائرہ کئی نسلوں تک محیط ہے۔ اسلامی تاریخ کو اردو فکشن کا روپ دینے میں جس قدر مستقل مزاجی سے وہ تمام عمر ڈٹے رہے، ان کا یہ جذبہ قابل ستائش ہے۔
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا، لیکن وہ اپنے قلمی نام کی بدولت ہی معروف ہوئے۔ 1914 میں غیر منقسم ہندوستان کے وقت پنجاب کے ضلع گرداسپور کی تحصیل دھاری وال کے گائوں سوجن پور میں پیدا ہوئے، 1996 میں راولپنڈی میں انتقال ہوا۔ نسیم حجازی نے 1938 میں اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد اپنے قلمی سفر کی ابتدا کی۔ تخلیقی دنیا میں افسانہ نویسی سے داخل ہوئے اور پہلا افسانہ’’شودر‘‘ لکھا، جو ہندو معاشرت کی عکاسی کرتا تھا، لیکن جلد ہی وہ ناول نگاری کی طرف راغب ہوگئے ۔ ان کی صحافت سے بھی وابستگی رہی۔ 1992 میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔
نسیم حجازی کا شمار پاکستان کے ایسے اولین تاریخی ناول نگاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اسلامی تاریخ کو اپنے ناولوں میں بیانیے اور اسلوب کو نظریاتی فکر کے طور پر اختیار کیا ۔ کہانیوں کو دلچسپ اور عوامی انداز میں پیش کیا۔ 1940 سے 1990 تک نسیم حجازی اردو فکشن تخلیق کرتے رہے، مسلمانوں کی فتوحات اور تاریخ کو ناول کی صنف میں محفوظ کیا۔ کہانیوں کے مرکزی خیال اور کرداروں کی تشکیل میں مورخ کے طور پر مسلمانوں کے مذہبی احساسات کی کلی طور سے ترجمانی کی۔ طنز و مزاح اور سفرنامہ کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی۔
یہ کہا جاسکتا ہے، وہ ایک ناول نگارہونے کے ساتھ ساتھ مورخ اور مبلغ بھی ثابت ہوئے، کیونکہ تمام زندگی اپنے مخصوص اور محدود موضوعات پر کاربند رہے، جس کی وجہ سے ان کے ادب کو پروپیگنڈا ادب بھی کہا گیا، انہوں نے ایک مخصوص طبقہ کے لیے کہانیاں لکھیں، اس تمام بحث کے باوجود، ان کی مقبولیت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ان کے ناولوں کو وسیع پیمانے پر پڑھا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں، وہ اسلامی تاریخ کے پاپولر لٹریچر کے ناول نگار ہیں، جن کے ہاں ممکن ہے، ادبی جزئیات کی کمی بیشی رہی ہو، لیکن شہرت کے معاملے میں وہ پاپولر بھی تھے اور خوش نصیب بھی۔
نسیم حجازی نے اپنے قلم کا محور مسلمانوں کی تاریخ کو ہی رکھا۔ علامہ اقبال نے جس طرح شاعری میں اندلس کے مسلمانوں کو یاد رکھا،تو نثر میں نسیم حجازی نے مسلمانوں کی عمومی تاریخ، برصغیر اور یورپ میں مسلمانوں کی تاریخ کی بابت اپنی کہانیوں کے تانے بانے بنے۔ ان کے لکھے ہوئے ناولوں پر ڈرامے اور فلمیں بھی بنائی گئیں۔ 1940 میں پہلی مرتبہ ان کا جو ناول شائع ہوا، اس کا نام’’انسان اور دیوتا‘‘ تھا۔ ان کے لکھے گئے ناولوں کی تعداد 16 ہے، جن میں سے 4 کا موضوع مسلمانوں کے دور کا اسپین ہے، جس کو اندلس بھی کہا جاتا تھا۔ ان ناولوں میں قارئین کو ہسپانیہ، قرطبہ اور غرناطہ کا ذکر بارہا ملے گا، ان چار ناولوں کے نام یوسف بن تاشفین، شاہین، اندھیری رات کے مسافر، کلیسا اور آگ ہیں۔ ان میں سے جو ناول یہاں متذکرہ ہے، اس کا نام ’’شاہین‘‘ ہے۔
یہ ان کا وہ مقبول ترین ناول ہے، جس کی پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ڈرامائی تشکیل کی گئی، پھر اس کو فلم کے بڑے پردے پر’’غرناطہ‘‘ کے نام سے پیش کیا گیا۔ تاریخ کے موضوع پر بنی یہ فلم باکس آفس پر کوئی تاریخی کامیابی تو حاصل نہ کرسکی، لیکن اس کی اپنی تاریخی حیثیت ضرور ہے، جس کو بہرحال فراموش نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے، آج بھی یہ فلم پاکستان کی اہم تاریخی فلموں کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔
اسپین میں مسلمانوں کے عہد کو اپنے ان چاروں ناولوں کے ذریعے قارئین سے روشناس کرواتے ہوئے’’شاہین‘‘ کو اس لیے لکھا، کیونکہ ان کے اس ناول کا مرکزی خیال اسپین میں مسلمانوں کے عہد حکومت کا آخری دور ہے، جس میں اندلس کے نوجوان حریت پسندہ بدر بن مغیرہ اور ان کے ساتھیوں کی داستان کو قلم بند کیا گیا کہ کس طرح وہ اسلام دشمن قوتوں سے نبرد آزما رہے اور مسلمانوں کے زیراقتدار اس آخری ریاست کو محفوظ رکھنے کے لیے کس طرح کی کوششیں کیں، لیکن مسلمان حکمرانوں کے آپس کے اختلافات ہی ان کی شکست و ریخت کی اصل وجہ بنے۔
اسپین کی تاریخ میں طارق بن زیاد اور یوسف بن تاشفین کی شاندار فتوحات کے بعد، آٹھ سو سالہ تک اندلس پر حکمرانی کرنے کے بعد 1492 کو وہاں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ اس واقعہ کو تاریخ میں’’سقوطِ غرناطہ‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں نے اس سنہری دور میں علم و ادب کے شعبوں میں خوب ترقی کی، یہی وہ دور ہے، جس میں ابن رشد اور الفارابی جیسے عالم اور مفکر پیدا ہوئے۔
یورپ کی تاریخ میں مسلمانوں کے اس دور کی تاریخی حیثیت برقرار رہے گی، کیونکہ یہیں سے نشاۃ ثانیہ کی ابتدا ہوئی اور جدید دنیا کی ترقی کا پہیہ گھومنا شروع ہوا۔ امریکاکی دریافت ہوئی اور نوآبادیاتی نظام کا دائرہ پھیل کر پوری دنیا پر محیط ہوگیا، جس سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی متاثر ہوئی۔
نسیم حجازی کا یہ معروف ناول پہلی مرتبہ 1948 میں اشاعت پذیر ہوا، جبکہ اس پر فلم ’’غرناطہ‘‘ 1971 میں بنی۔ اس فلم کی ہدایات معروف فلم ساز، ریاض شاہد نے دی تھیں۔ اس فلم میں جنہوں نے مختلف اور حقیقی تاریخ کے کرداروں کو اپنی اداکاری سے فلم کے پردے پر پیش کیا، ان اداکاروں میں سرفہرست یوسف خان تھے، جنہوں نے اپنی جذباتی اور والہانہ اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے اور بدر بن مغیرہ کے کردار کو خوب نبھایا۔ ان کے ساتھ دیگر جن اداکاروں نے فلم میں کام کیا، ان میں ادیب، طالش، روزینہ، جمیل، ساقی ، آسیہ، اقبال حسن، صابرہ سلطانہ، ترانہ اور اسلم پرویز شامل تھے۔ فلم کے پروڈیوسر ملک حسین احمد تھے۔
کہانی نسیم حجازی کی تھی، لیکن اس کے مکالمے اور اسکرین پلے ریاض شاہد نے ہی لکھا تھا۔ معروف موسیقار اے حمید نے فلم کی موسیقی ترتیب دی اور تنویر نقوی نے گیت نگاری کی، جبکہ اس کے لیے اپنی آواز کا جادو جگانے والوں میں نور جہاں، مہدی حسن، نسیم بیگم، مالا، تصور خانم، منیرحسین اور مجیب عالم تھے۔ اس فلم کا ایک گیت’’کس نام سے پکاروں، کیا نام ہے تمہارا‘‘ کو بہت زیادہ پسند کیا گیا، دیگر گیتوں کی دھنیں بھی مسحور کر دینے والی تھیں، جن کی کشش آج بھی محسوس ہوتی ہے۔