• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا پر ایک کارٹون کا کافی چرچا ہے، اس میں ایک مریض، ڈاکٹر اور مریض کی اہلیہ کو دکھایا گیا ہے، جس میں ڈاکٹر بتاتا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ مریض کو شدید ذہنی صدمہ پہنچا ہے، اس کے ساتھ کیا کوئی ناقابلِ برداشت واقعہ پیش آیا ہے؟ اہلیہ بتاتی ہے، یہ صدمے سے قبل ٹماٹر کے ریٹ معلوم کرنے بازار گئے تھے۔ 

یہ محض ایک کارٹون نہیں بلکہ وہ سچی تصویر ہے جس میں پاکستانی عوام کی اکثریت کا چہرہ اشرافیہ و حکمران طبقات کی بے حسی لئے واضح نظر آ رہا ہے۔ ایک شے یا ایک واقعہ پر موقوف نہیں، یہاں غریب عوام آئے روز مختلف حوالوں سے اس طرح کے صدموں سے دوچار رہتے ہیں۔ 

آغا خان یونیورسٹی کے گزشتہ تھنک ٹینک کے اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان میں 8کروڑ افراد امراضِ قلب، ہائپر ٹینشن، سرطان، ذیابیطس، دماغی امراض اور دیگر غیر متعدی امراض کے ساتھ جی رہے ہیں۔ 

ملک کے مختلف ماہرین طب کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر دماغی و نفسیاتی امراض کی بنیادی وجہ غربت اور اس سے متعلق مسائل ہیں۔ اب ہم یہاں صرف ایک بنیادی مسئلے یعنی مہنگائی کا ذکر کرتے ہیں، جس سے لوگ ہر آنے والے روز‘ پہلے سے بھی زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ 

تمام تر خوشنما دعوئوں کے باوجود نئے پاکستان میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال نومبر کے مقابلہ میں رواں نومبر میں دالوں میں 100فیصد اور سبزیوں کی قیمتوں میں 200فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ٹماٹر جو 200 سے 300 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے، اس کی وجہ ایران اور افغانستان سے ٹماٹر کی آمد میں نمایاں کمی بتائی جاتی ہے۔

پیاز مہنگا ہونے کے سلسلے میں بتایا جا رہا ہے کہ حکومت پیاز برآمد کرکے زرمبادلہ کما رہی ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پیاز اور ٹماٹر بھارت سے امپورٹ ہوتا تھا، جس پر پابندی کی وجہ سے مہنگائی بڑھی۔

 افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک تو ہم افغانستان جیسے تباہ حال اور بھارت جیسے ازلی دشمن ملک کے بھی محتاج ہیں، تو سوال یہ بھی ہے کہ اگر راہداری و دیگر حوالوں سے بھارت سے تعلقات استوار ہیں تو بھارت سے پیاز نہ منگوانے ہی سے غیرت کے کون سے تقاضے پورے ہو رہے ہیں۔ اس سے تو اپنے ہی عوام کی زندگی مزید دشوار ہو رہی ہے۔ 

اگر بات یہ ہے کہ ہم پیاز کی پیداوار میں خودکفیل ہیں اور زرمبادلہ کیلئے ایسا کر رہے ہیں تو کیا زرمبادلہ کیلئے عوام کی جیب میں موجود رہی سہی رقم پر ہی ڈاکہ ڈالنا ضروری ہے؟ مشیر خزانہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹماٹر 17روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ 

اس پر جو تبصرے ہو رہے ہیں وہ دلچسپ ضرور ہیں لیکن جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا کہ یہی حقیقی تصویر ہے۔ نامور مزاح نگار محمد اسلام نے لکھا ’’مشیر خزانہ نے ٹماٹر کی فی کلو قیمت 17روپے بتا کرعوام کے بنیادی مسئلے سے بے خبری کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے، اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ملکی معیشت کیوں ڈانواں ڈول ہے‘‘ گزشتہ روز مشیر خزانہ نے بڑے فخر سے بتایا کہ آئی ایم ایف ہماری پیشرفت سے کلی طور پر مطمئن ہے۔ 

مقام افسوس ہے کہ غریب عوام پر توجہ کے بجائے ساری توجہ اس بات پر ہے کہ کس طرح عوام پر بوجھ لاد کر آئی ایم ایف کا سود پورا کیا جائے۔

ہم روزانہ ریاست مدینہ کی بات سنتے ہیں، اس سلسلے میں یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ جب عمر بن عبدالعزیز مملکت اسلامیہ کے امیر بننے پر گھر میں داخل ہوئے تو آپ کی داڑھی آنسوئوں سے تر تھی، اہلیہ نے گھبرا کر پوچھا، خیریت ہے؟ آپؓ نے فرمایا، خیریت کہاں ہے، میری گردن پر ننگے، بھوکے، بیمار، مظلوم، مسافر، قیدی، بچے، بوڑھے کم حیثیت لوگوں کا بوجھ آن پڑا ہے۔

 اپنی بیوی سے کہا کہ اپنے تمام زیورات بیت المال میں جمع کرا دو، وگرنہ مجھ سے علیحدگی اختیار کر لو۔ قبل ازیں بیعت کے بعد جب شاہی گھوڑے پیش کئے گئے تو آپ نے کہا نہیں، میرے لئے ذاتی خچر کافی ہے۔ بعد ازاں جب داروغہ اصطبل نے گھوڑوں کیلئے خرچ مانگا تو آپ نے کہا کہ ان تمام گھوڑوں کو لے جاکر فروخت کردو اور رقم بھوکوں میں تقسیم کر دو۔

(صفحہ 185تا190تاریخ اسلام، جلد دوم)

گزشتہ روز گورنر ہائوس کراچی سے گزر رہا تھا تو دیکھا مین شاہراہ پر ٹریفک رکا ہوا ہے، ایک ایمبولینس بھی کھڑی ہے، اس میں موجود مریض کو جناح اسپتال لیجایا رہا تھا لیکن کمشنر ہائوس کے قریب سڑک کھدی ہونے کی وجہ سے ایمبولینس کو طویل مسافت طے کرکے اس سڑک پر سے جناح اسپتال پہنچنا تھا، پتا چلا کہ گورنر صاحب اب گورنر ہائوس منتقل ہوگئے ہیں اور اُن کا قافلہ باہر جانے کے سبب ٹریفک روک دیا گیا، پھر ہم نے بڑی بڑی گاڑیوں کے طویل جلوس میں قافلے کو گزرتے دیکھا، کچھ 15منٹ بعد سڑک رواں ہو سکی۔

عرض صرف اتنی ہے کہ تاریخ حکمرانوں کے قول سے زیادہ کردار اور عوام کے قرار کو یاد رکھتی ہے۔

تازہ ترین