• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوازشریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت سے کسے کیا ملا؟

اسلام آباد (طارق بٹ) نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے میں کم از کم دس روز ضائع کیے ہیں۔اس وقت میں حکومت اور ن لیگ کے درمیان سیاسی اور عدالتی محاذ آرائی دیکھی گئی، اس دوران کسے کیا ملا؟۔

اس کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے کیااور سابق وزیراعظم کے پاکستان سے باہر جانے کی تمام رکاوٹیں ختم کرتے ہوئے ساڑھے سات ارب روپے کے انڈیمنٹی بونڈ کی غیر قانونی شرط کو مسترد کردیا۔

جس کی وجہ سے حکومت کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ لاہور ہائی کورٹ نے اس کا موقف رد کرکے ن لیگ کا موقف قبول کیا۔ 

وزیراعظم عمران خان کی ترجیح انڈیمنٹی بونڈ کا حصول تھا تاکہ وہ اپنے حمایتیوں کو مطمئن کرسکیں، تاکہ وہ یہ کہہ سکیں کہ وہ نوازشریف سے یہ اقرار کراچکے ہیں کہ انہوں نے کرپشن کی ہے۔

جب کہ ن لیگ کا ماننا تھا کہ انڈیمنٹی بونڈ کو پی ٹی آئی، ن لیگ اور شریف خاندان کے خلاف استعمال کرے گی۔ ن لیگ کسی بھی طور پر اس شرط کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے جیسے ہی اپنے بھائی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست کی تو وزیراعظم کے پرانے ساتھی نے فوری طور پر اعلان کیا کہ نوازشریف کو طبی بنیادوں پر بیرون ملک علاج کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

عمران خان نے بھی کہا کہ حکومت سابق وزیراعظم کا نام ای سی ایل سے نکال دے گی۔ یہاں انڈیمنٹی بونڈ کی شرط کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ تاہم، کچھ وفاقی وزرا نے اس غیر مشروط اجازت کی مخالفت کی اور انڈیمنٹی بونڈ کی شرط سامنے لے آئے۔

دریں اثناء حکومت کے اتحادیوں خاص طور پر ق لیگ نے حکومت پر دبائو ڈالنا شروع کردیا کہ انڈیمنٹی بونڈ کی شرط ختم کی جائے۔ اسی طرح معروف وکلاء نے بھی اس شرط کی مخالفت کی۔ اب لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ حکومت نے ان 10روز میں کیا کھویا اور کیا پایا؟۔ 

قانونی ماہرین کا کہنا تھاکہ انڈیمنٹی بونڈ سے اس کی خلاف ورزی کرنے پر ساڑھے سات ارب روپے بازیاب نہیں ہوسکتے بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیے طویل عدالتی کارروائی کی ضرورت ہوگی۔ جب کہ دوسری جانب شہباز شریف کا دیا گیا حلف نامہ ایک قانونی دستاویز ہے، جس پر آسانی سے عمل درآمد ہوسکتا ہے۔

ن لیگ چیف نے کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا ہے۔ن لیگ اب دعویٰ کرسکتی ہے کہ اسے عدالت کی جانب سے ریلیف ملا ہے۔ اس کے برعکس حکومت اب یہ کہہ سکتی ہے کہ اس نے ایک فیصلہ کیا اور اس پر ڈٹی رہی حالاں کہ اسے کئی بار نظرثانی کا کہا گیا۔

اگر سابق وزیراعظم واپس نہیں آتے تو حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکے گا۔لاہور ہائی کورٹ نے پہلے 25 اکتوبر کو چوہدری شوگر ملز تحقیقات میں نوازشریف کو ضمانت دی۔ جب کہ 29اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں علاج کے لیے 8 ہفتوں کی ضمانت دی۔

جس میں اب 41روز باقی رہ گئے ہیں۔ اس کی معیاد ختم ہونے کے بعد نوازشریف پنجاب حکومت سے توسیع کے لیے رابطہ کریں گے۔اس مشکل وقت میں نوازشریف نے بلند حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ کسی شرط کے آگے نہیں جھکے اور انہوں نے واضح کیا کہ اگر اس طرح کا مطالبہ کیا گیا تو وہ بیرون ملک نہیں جائیں گے۔

اس سے قبل بھی وہ مسلسل برطانیہ جاکر علاج کرانے کو رد کرتے رہے اور کہتے رہے کہ وہ پاکستان میں ہی ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کریں گے۔ تاہم، گھروالوں کے دبائو پر انہیں اپنا ذہن تبدیل کرنا پڑا۔

تازہ ترین