• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں ان دنوں اعلیٰ سطح پر بدترین پیشہ ورانہ کوتاہیوں کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے اور یہ سب ایک ایسے وقت پر ہورہا ہے جب ملک کے وزیرِ اعظم عمران خان صاحب ہیں۔

شیخ زید اسٹیڈیم ابوظہبی میں ٹی 10لیگ میں ’این او سی‘ دے کر واپس لینا بورڈ کے گلے کی ایک ایسی ہڈی بن چکا ہے جو اگلی جا رہی ہے نہ ہی نگلی جا سکی ہے۔

ایک حقیقت تو اب سب پر عیاں ہے کہ ٹی 10 لیگ میں کھلاڑیوں کو نہ بھیجنا چیئرمین پی سی بی احسان مانی اور چیف ایگزیکٹو وسیم خان کا فیصلہ نہیں تھا، دونوں بے چارے اس فیصلے کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں اور دونوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ لیگ میں کھلاڑیوں کو نہ بھیجنے کے فیصلے کا صرف دفاع کرنا ہے۔

اس دفاع کے لیے ان کا جتنا مذاق بنتا ہے اس حوالے سے بورڈ کا میڈیا ڈیپارٹمنٹ بھی منہ میں انگلیاں ڈال کر صرف دانتوں میں چبانے کے سواء کچھ کرنے کا متحمل دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ٹی 10 لیگ میں کھلاڑیوں کا ہزاروں ڈالرز کا معاہدہ ہوا میں اڑانے کی منطق اسلام آباد کی ایک فون کال کا نتیجہ ہے۔

پہلے بورڈ نے عذر پیش کیا کہ 16 کرکٹرز ٹی 10 لیگ میں اس لیے نہیں جا سکتے، کیونکہ بورڈ نے کھلاڑیوں کے فٹنس کیمپ کا فیصلہ کیا ہے، جو 13 نومبر سے اعلان کردہ تاریخ کے ساتھ شروع ہی نہیں ہوا، پھر اس دوران بورڈ نے جنوبی افریقہ لیگ کے لیے سابق کپتان شعیب ملک، وہاب ریاض، آصف علی اور محمد نواز کو شرکت کی اجازت دے کر خود ہی سوال کھڑا کر دیا کہ ٹی 10 لیگ میں کرکڑز کو شرکت کی اجازت نہ دینا، کسی دباؤ کا نتیجہ تھا؟

ذرائع کے مطابق چیئرمین پی سی بی احسان مانی متحدہ عرب امارات کرکٹ بورڈ کے نائب چیئرمین خالد الزارونی کو بتا چکے ہیں کہ اس بارے میں وہ بے بس ہیں، اس بارے میں کرکٹ ویب سائٹس اور ملک کے چند اخبارات میں باقاعدہ وزیرِ اعظم عمران خان کے نام کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان کے کہنے پر پی سی بی چیئرمین کو یہ اقدام لینا پڑا۔

یہ دلچسپ امر ہے کہ اگر ملک کی سپریم اتھارٹی کے کہنے پر کھلاڑیوں کو روکا گیا، جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا، تو پھر معروف گلوکار عاطف اسلم، سابق ٹیسٹ کرکٹر مشتاق احمد، بطور کوچ اور پاکستان سوپر لیگ کی فرنچائز ’کوئٹہ گیلڈی ایٹرز‘ کے نبیل ہاشمی کس طرح بھارتی فرنچائز ’دکن گیلڈی ایٹر‘ کے میڈیا معاملات کو دیکھ رہے ہیں، یہ تو کھلا تضاد ہے۔

اس سارے یو ٹرن اور بے ہنگم اور بے ربط کاموں سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے کام کرنے کے طریقہ کار پر نہ صرف سوالات اٹھ رہے ہیں، بلکہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب بطور چیئرمین احسان مانی فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں تو بورڈ کون چلا رہا ہے؟

تازہ ترین