• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کے چند اضلاع‘ سبّی‘ نصیر آباد‘ جعفر آباد‘ صحبت پور‘ جَھل مگسی‘ ہرنائی اور لسبیلہ میں موسمِ گرما میں شدید گرمی پڑتی ہے اور موسمِ سرما کا دورانیہ کم ہوتا ہے، جب کہ صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سمیت زیادہ تر اضلاع میں موسمِ گرما انتہائی خوش گوار اور موسمِ سرما نسبتاً طویل ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران رُونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے پاکستان بالخصوص بلوچستان بھی خاصا متاثر ہوا ہے ۔ 

اب یہاں ماضی کی طرح انتہائی شدید سردی نہیں پڑتی، جب کہ کسی دَور میں ماہِ اگست ہی سے کوئٹہ میں موسمِ سرما کا آغاز ہو جاتا تھا اور نومبر سے فروری تک درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے بھی گر جاتا تھا۔ کوئٹہ کی آب و ہوا سرد اور خُشک ہونے کے باوجود صحت آفریں ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں نومبر سے مارچ تک ہلکی بارش اور برف باری ہوتی ہے۔ تاہم، گزشتہ چند برس کے دوران بارش اور برف باری میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف سردی کی شدّت کافی حد تک کم ہو گئی ہے، بلکہ کئی اضلاع خُشک سالی کی لپیٹ میں بھی ہیں۔ البتہ کوئٹہ میں اب بھی اگست کے وسط سے فضا قدرے خنک ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہ خنکی ستمبر تک برقرار رہتی ہے۔ 

بلوچستان میں موسمِ سرما کے بدلتے رنگ ڈھنگ
محفوظ علی خان

اکتوبر ، نومبر میں موسم سرد ہونا شروع ہو تا ہے اور دسمبر سے مارچ تک شدید سردی پڑتی ہے۔ اس دوران بعض اوقات درجۂ حرارت منفی 10سے منفی 16ڈگری سینٹی گریڈتک گر جاتا ہے، جس کے باعث پانی جمنے سے پائپ لائنز پھٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ درجۂ حرارت گرنے سے گاڑیوں کے ریڈی ایٹرز تک میں پانی جم جاتا ہے، جس کے باعث اکثر افراد سردیوں کے آغاز ہی میں ریڈی ایٹرز میں ’’اینٹی فریز‘‘ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح موسمِ سرما میں کوئٹہ میں گیس کی قلّت بھی واقع ہو جاتی ہے ،تو گیس کی طویل لوڈ شیڈنگ اور پریشر میں کمی کے باعث شہری ایندھن کے متبادل ذرایع استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جو گیس کی نسبت خاصے مہنگے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر سے فروری تک کوئٹہ کی مختلف شاہ راہوں اور سڑکوں پر وقتاًفوقتاً احتجاجی مظاہرے جاری رہتے ہیں۔ 

کوئٹہ کے تعلیمی ادارے 15دسمبر سے فروری کے اختتام تک موسمِ سرما کی تعطیلات کی وجہ سے بند رہتے ہیں۔ اس دوران اکثر خاندان نسبتاً گرم علاقوں میں منتقل ہو جاتے ہیں، جب کہ صاحبِ حیثیت افراد سبّی‘ کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں سکونت اختیار کرلیتے ہیں۔ بلوچستان میں موسمِ سرما کے اختتام پر سبّی میں ایک میلہ منعقد کیا جاتا ہے، جو دراصل بہار کی آمد کی نوید ہوتا ہے۔1921ء میں سبّی میلے کے لیے فروری کے آخری ہفتے کا انتخاب کیا گیا، کیوں کہ اس دوران گرم خطّوں کی جانب نقل مکانی کرنے والے خانہ بدوش اپنے مویشیوں کے ساتھ اپنے علاقوں میں واپس آ جاتے اور بوائی بھی شروع ہو جاتی۔

ماضی میں کوئٹہ مختلف نسلوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا مسکن تھا، جن میں سے اکثر بد امنی کے باعث ہجرت کر گئے۔ تاہم، آج بھی یہاں سندھ‘ پنجاب اور خیبرپختون خوا سے آبائی تعلق رکھنے والے اردو‘ پنجابی اور ہندکو بولنے والوں کی کمی نہیں۔ 

موسمِ سرما کی تعطیلات کے دوران ان افراد کی ایک بڑی تعداد کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد سمیت مُلک کے مختلف حصّوں میں منتقل ہو جاتی ہے ، پھر فروری کے اختتام یا مارچ کے وسط میں ان کی واپسی ہوتی ہے۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ سے موسمِ سرما میں کوئٹہ بڑی حد تک ویران ہو جاتا ہے ، سرِ شام ہی شہر کی معروف شاہ راہوں اور گلی محلوں میں سنّاٹا چھا جاتا ہے، اذانِ مغرب کے ساتھ ہی بازار بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور رات 10بجے تک چند شاہ راہوں کے علاوہ پورا شہر ہی تاریکی میں ڈُوب جاتا ہے۔ نیز، گاڑیوں کی آمد و رفت بھی انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ لہو جما دینے والی سردی میں شہریوں کی اکثریت بِلا وجہ گھروں سے نکلنے سے گریز کرتی ہے۔ 

دسمبر سے فروری تک کوئٹہ کے نواحی علاقوں ہنّہ اوڑک‘ ہنّہ جھیل اور اسپین کاریز میں برف باری ہوتی ہے، جس سے لُطف اندوز ہونے کے لیے شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان مقامات کا رُخ کرتی ہے۔ اس موقعے پر مَن چلے نوجوان برف کے گولے بنا کر ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہیں اور گاڑیوں میں پشتو اور بلوچی گانے لگا کر روایتی رقص، اتنڑ اور چاپ کرتے نظر آتے ہیں۔ موسمِ سرما کے دوران بلوچستان کے مشہور تفریحی مقام، زیارت میں کوئٹہ کی نسبت کافی زیادہ برف باری ہوتی ہے اور سیّاحوں کا بھی خاصا رش ہوتا ہے۔

عصرِ حاضر کے تقاضوں کے پیشِ نظر کوئٹہ میں بھی ہوٹلنگ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ موسمِ سرما میں یہاں مختلف ہوٹلز اور فوڈ سینٹرز میں یخنی کے علاوہ مختلف اقسام کے سوپ بھی دست یاب ہوتے ہیں، جن سے فیملیز خُوب لُطف اندوز ہوتی ہیں۔ چوں کہ کوئٹہ خُشک میوہ جات کے حوالے سے بھی مُلک گیر شُہرت رکھتا ہے، لہٰذا سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی یہاں خُشک میوہ جات کی خرید و فروخت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ 

اس دوران شہر کے مشہور باچا خان چوک پر واقع ڈرائی فروٹ مارکیٹ کی دُکانیں بادام، پستے، اخروٹ، کاجُو، خشک خوبانی، چلغوزے، مونگ پھلی اور دیگر خُشک میوہ جات سے لَد جاتی ہیں۔ تاہم، گزشتہ چند برسوں سے بلوچستان میں جاری خُشک سالی کے باعث ڈرائی فروٹس کی پیداوار میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ سے تاجر افغانستان، ایران اور بھارت سے خُشک میوہ جات درآمد کر رہے ہیں اور اس کے باعث ان کی قیمتیں آسمان کو چُھو رہی ہیں۔ 

قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈرائی فروٹس متوسّط طبقے کی قوّتِ خرید سے بھی باہر ہو چکے ہیں۔ ماضی میں مُلک کے دیگر حصوں کی نسبت کوئٹہ میں مناسب قیمت پر خُشک میوہ جات مل جاتے تھے اور مقامی باشندے موسمِ سرما میں بہ طور سوغات انہیں دیگر صوبوں میں مقیم اپنے عزیز و اقارب کو بھجواتے تھے، لیکن گرانی کے باعث یہ روایت بھی دَم توڑتی جا رہی ہے۔ بلوچستان کے روایتی کھانے مُلک بَھر میں کافی مشہور ہیں، جن میں نمکین روسٹ، جسے مقامی باشندے ’’روش‘‘کہتے ہیں، کھڈّی کباب اور سجّی قابلِ ذکر ہیں۔ 

گرچہ یہ کھانے سال بَھر ہی کھائے جاتے ہیں، لیکن گرم تاثیر کے باعث موسمِ سرما میں ان کے استعمال میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ کھڈّی کباب کی تیاری کے لیے سالم بکرے یا دُنبے پر چُھری سے گہر ے نشانات لگانے کے بعد اسے مختلف مسالے لگا کر کم و بیش 6گھنٹے کے لیے اسی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے، تاکہ تمام مسالا جات گوشت میں اچھی طرح جذب ہو جائیں۔ 

پھر دہکتے ہوئے کوئلوں سے بھرے 3فٹ گہرے گڑھے میں ڈالا جاتا ہے اوراگلے مرحلے میں اسے لوہے کی چادر سے ڈھانپ کر اُس پر گیلی مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ تین گھنٹے دَم دینے کے بعد لذّت و غذائیت سے بھرپور کھڈّی کباب تیار ہو جاتا ہے۔ تیکھے مسالے کے بغیر تیار کیے جانے والے نمکین روسٹ (روش) میں صرف کالی مرچ اور نمک استعمال کیا جاتا ہے ، جب کہ گھی یا تیل کے طور پر جانور کی چربی کام میں لائی جاتی ہے اور مٹھاس پیدا کرنے کے لیے اس میں تھوڑی سی پیاز بھی شامل کی جاتی ہے۔ بکرے ، دُنبے کا گوشت بلوچستان کے باشندوں کی مرغوب غذا ہے۔ مقامی افراد سردیوں سے قبل گوشت خُشک کر لیتے ہیں، جسے مقامی زبان میں ’’لاندی‘‘ کہا جاتا ہے۔ پھر گوشت سے ہڈیاں الگ کر کے اسے مختلف مسالے لگا کر دھوپ میں رکھ دیا جاتا ہے۔

مقامی باشندے نومبر سے مارچ تک لاندی کو خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ڈِش نہ صرف لذیذ ہوتی ہے، بلکہ بدن کو گرم بھی رکھتی ہے، جب کہ مارچ میں گرمائش کم کرنے کے لیے اس کے ساتھ لسّی کا استعمال شروع کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح موسمِ سرما میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے مچھلی کا بھی بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دوران جوائنٹ روڈ اور پرنس روڈ سمیت کوئٹہ کی مختلف معروف شاہ راہوں پر ٹھیلوں اور دُکانوں میں تازہ مچھلی کے انبار لگ جاتے ہیں، جب کہ مختلف دُکانوں میں پکی پکائی مچھلی بھی دست یاب ہوتی ہے۔

سابق بیورو کریٹ، محقّق، دانش وَر اور صحافی، محفوظ علی خان ماضی میں کوئٹہ کی سردی کا احوال کچھ اس طرح بتاتے ہیں کہ ’’آج سے چار، پانچ دہائیاں قبل کوئٹہ میں اس قدر شدید سردی پڑتی تھی کہ سردیوں کا نام سُنتےیااس بارے میں سوچتے ہی کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔ 

تب ہمارے گھر میں سردی سے بچائو کا کوئی معقول بندوبست نہیں تھا، لہٰذا سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی میرے بڑے بھائی بوسیدہ و شکستہ کھڑکیوں پر گتّے کے پیوند لگا کر لہو جمادینے والی یخ بستہ ہوا کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے۔ تاہم، ہوا اس قدر شدید ہوتی کہ ان گتّوں میں چَھید کر دیتی۔ اُس دَور میں صاحبِ حیثیت افراد حرارت حاصل کرنے کے لیے پتّھر کا کوئلہ استعمال کرتے تھے۔ گرچہ اُس زمانے میں کوئلے کی ایک بوری کی قیمت دو روپے تھی، لیکن اس کی خریداری بھی ہمارے بس سے باہر تھی۔ سو، ہماری نانی گرمیوں میں کھانا پکانے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی لکڑی کے انگاروں کو کوئلہ بنا کر بوریوں میں جمع کر لیتیں اور ہم سردیوں میں یہ کوئلہ انگیٹھیوں میں دہکا کر ٹھنڈ سے بچاؤ کا بندوبست کرتے۔ 

اُن دنوں کوئٹہ میں سوختنی لکڑیاں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی تھیں ، بعد میں مٹّی کے تیل کے چُولھے عام ہوئے۔ ہم ٹال سے دو تین مَن لکڑی ایک ساتھ خرید کر لے آتے تھے۔ ٹال والا خدا ترس آدمی تھا۔ وہ ہم سے رعایت کرتا اور ریڑھی کا کرایہ بھی وصول نہ کرتا۔ البتہ شرط یہ تھی کہ ریڑھی ہم خود لے کر جائیں گے اور واپس بھی خود ہی کرنے آئیں گے۔ پھر ان لکڑیوں کو چَھینی، ہتھوڑی یا کُلہاڑی کی مدد سے چیرنے کا مرحلہ آتا۔ اس دوران مَیں ہر ممکن حد تک اپنے بھائی کا ساتھ دیتا۔

پھر یہ لکڑیاں گھر سے ملحقہ گودام میں رکھ دی جاتیں۔ اکثر لکڑیاں گیلی ہوتیں، جنہیں جلانے کے لیے کافی جتن کرنے پڑتے۔ نانی اور بہن پھونکنی سے آگ دہکاتیں، تو پورا گھر دھویں سے بَھر جاتا۔ پھر کسی اسٹول وغیرہ پر لحاف یا کمبل ڈال کر ایک انگیٹھی اس کے نیچے رکھ دی جاتی اور سب اس کے گرد بیٹھ کر حرارت حاصل کرتے۔ رات کے وقت نانی چارپائیوں کے نیچے کوئلے کی انگیٹھیاں رکھ دیتیں، تاکہ بستر گرم رہیں۔ اس عمل سے ہر سال چار پائیوں کے بان جل جاتے اور سردیاں ختم ہونے تک وہ جُھولا بن جاتیں، جب کہ اکثر لحاف اور گدے بھی جل جاتے۔ 

تاہم، سردی اس قدر شدید ہوتی کہ سارے جتن کرنے کے باوجود بھی جسم پر کپکپی طاری رہتی۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ اکتوبر کے دوسرے ہفتے سے شدید سردی پڑنا شروع ہو جاتی تھی اور مارچ تک چھتوں پر برف کی قلفیاں لٹکتی رہتیں۔ اس دوران بارش اور برف باری بھی ہوتی ۔ تاہم، اب اُس تواتر سے بارش نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے کوئٹہ کی ساری کاریزیں خُشک ہو گئی ہیں۔ اُس زمانے میں دسمبر، جنوری اور فروری ’’برف باری کے مہینے‘‘ کہلاتے ۔ 

اس عرصے میں اس قدر برف باری ہوتی کہ بیلچوں کی مدد سے گھروں کی چھتوں سے برف کو صاف کرنا پڑتا۔ اُس زمانے میں گھروں کی چھتیں چادروں پر مشتمل اور آدھی دیواریں کچی ہوتیں اور شدید سردی میں صبح سویرے اسکول جانا نہایت کٹھن مرحلہ ہوتا تھا۔ نانی سردیوں کے آغاز ہی میں ’’کباڑی کی دُکان‘‘ سے ہمارے لیے سوئٹر اور کوٹ خرید کر لے آتیں،کیوں کہ تب کوئٹہ میں لنڈا بازار کا لفظ مستعمل نہ تھا۔ سوئٹر اور کوٹ کا سائز دُرست ہونے کی بہ جائے اس کا گرم ہونا لازمی شرط ہوتی۔ یہ گرم ملبوسات ہمہ وقت ہمارے جسم کا حصّہ بنے رہتے۔ چوں کہ 15دسمبر سے پہلے اسکول میں ایندھن کے استعمال پر پابندی عاید تھی، لہٰذا بچّے سردی سے ٹھٹھرتے رہتے۔ 

مُجھے نانی دو قمیصوں، ایک سوئٹر اورایک کوٹ سے ڈھانپ دیتیں اور سَر پر اُونی ٹوپی پہنا دیتیں۔ تاہم، ہاتھ اور پھٹے ہوئے جوتوں میں پائوں ڈھانپنے کے لیے دستانے اور جرابیں نہ ہوتیں، تو شدید ٹھنڈ کی وجہ سے انگلیوں اور ایڑیوں کی جِلد پَھٹ جاتی اور اُن سے خُون رِسنے لگتا ۔ ہمیں اپریل تک اس عذاب میں مبتلا رہنا پڑتا۔ چوں کہ امتحانات بھی دسمبر میں ہوتے تھے، لہٰذا بچّوں کو کُھلے میدان میں دھوپ میں بِٹھا کر امتحان لیا جاتا۔ 

اس دوران اکثر و بیش تر بچّے خود کو یخ بستہ ہواؤں سے بچاتے رہتے۔ ٹھنڈ کی وجہ سے اُن کی انگلیاں شَل ہو جاتیں اور قلم پکڑنے کے قابل نہ رہتیں، مگر اب ایک تو موسمِ سرما کا دورانیہ خاصا کم ہو گیا ہے، تو دوسری جانب سہولتیں میسّر ہو جانے کے باعث بھی سردی کا موسم ماضی کی نسبت کافی آسانی سے گزر جاتا ہے۔‘‘

تازہ ترین