• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا…راجہ اکبردادخان
میاں نواز شریف کی بیرون روانگی کے حوالہ اور قانونی امور سے نمٹنے کیلئے ریاست کو ایک بار پھر ’’نظریہ ضرورت کے تحت وہ اقدامات اٹھانے پرمجبور ہونا پڑا۔ جن کی حیثیت لیگل سٹرکچر سے باہر سمجھی جارہی ہے اور ان انتظامات کو چیلنج کیا جانا وہاں قانونی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ جب حکومت کے اپنے بنائے ہوئے میڈیکل بورڈ جس میں بڑے میاں صاحب کی نمائندگی موجود ہونے سے مفاہمت کی فضا بن گئی اور انہیں بیرون ملک جانے کا متفقہ مشورہ دے دیا گیا تو حالات ان کی روانگی کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے شروع ہوگئے ۔ وزیراعظم کی طرف سے بھی لگاتار یہی پیغام آیا ہے کہ وہ نواز شریف کی صحت کے بارے میں متفکر ہیں اور حکومت ان کے علاج کے حوالے سے مثبت رویہ اختیار کرے گی۔ البتہ ہر مرحلے پر ان کی لیگل ٹیم میاں صاحب کی واپسی یقینی بنانے کیلئے ’’سیکورٹی‘‘ نام کی ڈاکومینٹیشن پہ مصر رہی۔ کیونکہ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں انہیں پاکستانی عوام کی دولت کا ایک معقول حصہ واپس کرنا ہے۔ ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں بھی چل رہے ہیں اور کچھ معاملات زیر تفتیش بھی ہیں اور حکومت کا یہ آئینی فرض کہ وہ یقینی بنائے کہ سابق وزیراعظم عدالتوں میں پیش ہوں اور تمام حوالوں سے معاملات نمٹانے میں اپنی معاونت فراہم کرتے رہیں۔ اس حد تک تو تمام اچھا رہا۔ لیکن جب طرفین کی لیگل ٹیمز نے ان خواہشات اور نیک تمنائوں کو ایک ڈاکو منٹ کی شکل دینے کیلئے اقدامات شروع کئے تو مشکلات ابھرنا شروع ہوئیں۔ میں نوازشریف کو ان کی ’’کنوکشنز‘‘ جن میں جرمانوں کی بھاری رقوم شامل ہیں کو مکمل طور پر نظر انداز کردینا نہ ہی حکومت کیلئے ممکن تھا اور نہ ہی عدالتوں کیلئے اس لئے دونوں ایشوز مرکزیت اختیار کرگئے۔ ہر کوئی میاں صاحب کی صحت کے بارے میں متفکر بھی تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ ان کے ذاتی فعل یا ادارہ سے کوئی ایسی بات ہو جائے جس سے ان کی بیرون ملک روانگی غیر ضروری طور پر لیٹ ہو جائے۔ ہر سیاست دان کو نیب کی پکڑ دھکڑ بہت اچھی لگتی ہے۔ جب تک کہ بات اس تک نہیں پہنچ جاتی۔ نیب والوں کو کیس بنانے اور کامیاب کرانے میں محنت کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں اس پراسیکیوشن سے لوگوں کو سزائیں ہوتی ہیں اور ریکوری کی صورت میں قومی دولت واپس ملکی خزانہ کا حصہ بنتی ہے۔ میاں صاحب کے معاملات بھی ایک میگا کیس ہے یہ ادارہ توقع کرتا ہے کہ ان معاملات میں ریکوری کے ذریعہ کئی بلین ڈالر واپس قومی خزانہ میں جمع ہو جائیں گے اس حوالے سے نیب کا 700بلین روپیہ زر ضمانت طلب کرنا غیر معقول نہیں تھا۔ یہ رقم تو انہیں ہر شکل میں ادا کرنی ہے؟ ادائیگی ہوگی یا نہیں۔ بعد کا سوال ہے؟ شریف خاندان بآسانی یہ رقم برائے سیکورٹی دے سکتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ایسا کرنے سے ان کی شہرت متاثر ہوگی یا ان پہ کوئی لیبل لگ جائے گا۔ ایک کمزور دلیل ہے۔ انہیں باہر نکلنے کا موقع مل رہا تھا۔ انہیں کہیں زیادہ
تعاون ظاہر کرنا چاہئے تھا۔ یا (ن) لیگ دھرنا میں شرکت کے ثمرات لپیٹتے ہوئے عمران خان پہ ثابت کررہی ہے کہ ’’سٹیٹس کو‘‘ جسے وہ توڑنے کا خواب دیکھ رہے ہیں مزید مضبوط ہوکر ان کے لئے ایک زیادہ مضبوط چیلنج بن چکا ہے۔ اس تمام سناریو میں ایک طرف میاں صاحب کی بگڑتی صحت تھی اور دوسری طرف حکومت کی طرف سے یہ یقینی بنانا کہ میاں صاحب بروقت اپنی پیشیوں پر حاضر ہوتے رہیں دو COMPETINGفیکٹرز تھے۔ لوگوں کی ایک بھاری تعداد (ن) والوں سے ناراض ہے کہ انہوں نے جنرل(ر) پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے دیا اور ان کے خلاف متعدد فوجداری مقدمات آج تک زیر التوا ہیں۔ حکومت کی گارنٹی خواہش یقیناً بدنیتی پر مبنی نہیں تھی کیونکہ اگر وہ کوئی ایسی ڈیل دے دیتے اور بڑے میاں صاحب واپس پاکستان نہیں آتے ہیں تو کل یہی اعلیٰ عدالتیں اور عوام عمران خان کی تکہ بوٹی کر دینےمیں قانونی اور اخلاقی طور پر حق بجانب مانے جائیں گے۔ اس تکونی چپقلش میں یقیناً بڑے میاں صاحب جیتے ہوئے ہیں۔ وہ کب واپس جاتے ہیں (یا نہیں جاتے) ڈاکٹر کب انہیں علاج سے فارغ کرتے ہیں ۔ کیا وہ کلثوم نواز کے چلے جانے کے صدمے سے کبھی باہر آسکیں گے؟ مریم نواز کی ان سے دوری ان کی زندگی کے وہ فیکٹرز ہیں جو انہیں کسی بڑے فیصلے سے پہلے احتیاط کے ساتھ جانچنے ہوں گے۔ جس کے لئے انہیں پرسکون ماحول کی ضرورت ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ عدالت کو ایک سیکورٹی بانڈ کی پشت پر ایک ماہ سے زیادہ کا وقت دینا چاہئے تھا تاکہ دونوں پارٹیز ایک آرام دہ ماحول میں معاملات بینی کر سکیں۔ حکومت اور کچھ قانونی ماہرین کی رائے میں عدالت نے ایک غیر محفوظ فیصلہ کیا ہے جس سے وقتی طور پر تو ریلیف مل چکا ہے مگر جنوری میں اس ’’عبوری فیصلہ‘‘ کی توثیق کروانا آسان نہ ہو گاجن حالات اور مشکل میں یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ اسے
Expediency Based Decision
کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حکومت بھی یہی چاہتی تھی کہ انہیں میاں صاحب کی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے (بغیر شرائط کے) کوئی فیصلہ نہ کرنا پڑے۔ میاں صاحب کے حق میں آئے اس فیصلے کے خلاف حکومت نے اپیل بھی نہیں کی۔ طاقتور ’’نظریہ ضرورت‘‘ نے تمام معاملات اس طرح حل کردیئے۔ جہاں حکومت بھی خوش کہ معاملات بگڑ جانے کی شکل میں باہر بھیجنے کی ذمہ داری کسی اور کے گلے میں پڑے گی نظریہ ضروورت کو پروموٹ کرنے والے بھی خوش کہ وہ ایک مشکل صورت سے ایک قابل قبول حل نکال لائے ہیں۔ تمام گورکھ دھندہ کی اگر کسی کو مکمل سمجھ نہیں آرہی تو وہ پاکستانی عوام ہیں کہ پاکستان میں اصل حکمران کون ہیں؟ طاقتور حلقے دولت کے انباروں والے یا دونوں کا اتحاد؟ آئین ضابطوں اور ملکی مفادات میں یقین رکھنے والےہم کمزور لوگوں کی خاموشی سے ایک بار پھر نظریہ ضرورت کی ایک اور عمدہ مثا ل کو قبول کرتے ہوئے ان وقتوں کا انتظار کرنا چاہئے جب عدالتی اور انتظامی فیصلے آئین، قانون کے مطابق ہو سکیں گے۔ کئی لاکھ بیرون ملک پاکستانی/کشمیری بھائی بہنوں کی دعائوں میں میری بھی دعا شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑے
میاں صاحب کو جلد مکمل صحتیابی عطا فرمائے۔
تازہ ترین