• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھا، جب اُردو ناولز میں جِنوں، بُھوتوں اور پریوں کا ذکر عام تھا۔ زمین زادوںکو ماورائے حقیقت کہانیاں، قصّے پڑھنا اچھا لگتا۔ تاہم، یہ رجحان اُس وقت تبدیل ہو گیا، جب 1869ء میں ’’مراۃ العروس‘‘ نامی ناول نے اشاعت کا لبادہ اوڑھا۔ دو بہنوں کی عادات و اطوار پر مبنی اس ناول نے گویا ناول نگاری کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔ ’’مراۃ العروس‘‘ کے ذریعے قارئین، ناولز میں پہلی مرتبہ ایسے کرداروں سے آشنا ہوئے کہ جن کی اچھی، بُری صفات اُس سماج سے کشید کی گئی تھیں کہ جن کا وہ خود حصّہ تھے۔ 

اس ناول میں وہ داستان پیش کی گئی ، جو اُس زمانے میں گھر گھر کی کہانی تھی۔ یوں ایک قلم کار نے سماجی تخلیق کار کا رُوپ اختیار کیا اور یہ قلم کار، ڈپٹی نذیر احمد تھے۔ علی عبّاس حسینی نے ’’اُردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’’ڈپٹی نذیر احمد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اُن تمام قصّوں میں ہماری معاشرتی زندگی کی بالکل سچّی تصویر کشی کی ہے۔ 

انہوں نے جن، پری، بُھوت پریت اور جادو طلسم جیسے غیر انسانی عناصر ترک کر کے اپنے گرد و پیش کے لوگوں اور اپنی ہی طرح کے معمولی انسانوں کے حالات بیان کیے ہیں۔‘‘ ’’مراۃ العروس‘‘اپنی اوّلین اشاعت کے بعد سےاب تک مسلسل شایع ہونے کے اعزاز کی حامل کتاب بھی ہے۔ سہیل بخاری نے ’’اُردو ناول نگاری‘‘ نامی کتاب 1960ء میں تحریر کی اور آج اس کی اشاعت کو بھی60برس ہونے والے ہیں۔ وہ اس کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’اس کتاب کی صحیح تعدادِ اشاعت معلوم کرنا تو نا ممکن ہے، البتہ اندازہ یہ ہے کہ آج تک اس کی لاکھوں جِلدیں چَھپ چُکی ہوں گی۔ اس کا ترجمہ انگریزی، مراٹھی، کشمیری، پنجابی، گجراتی، بنگالی اور ہندی سمیت مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے۔‘‘ گویا یہ بات کسی حد تک طے ہو گئی کہ ڈپٹی نذیر احمد نے اُردو ناول نگاری میں ایک نئے طرز کی بنیاد رکھی۔

اُردو ناول کا مزاج تبدیل کرنے والے نذیر احمد 1831ء میں ضلع، بجنور کی تحصیل، نگینہ کے موضع، ریہڑ میں پیدا ہوئے۔ سالِ ولادت میں البتہ کچھ اختلاف سامنے آتا ہے۔ تاہم، اویس احمد ادیب نے ’’اُردو کا پہلا ناول نگار:شمس العلماء مولوی نذیر احمد دہلوی‘‘ میں اپنی تحقیق سے سنِ پیدایش 1836ء بیان کیا ہے۔ علی احمد، نذیر احمد کے بڑے ، جب کہ ضمیر احمد چھوٹے بھائی تھے۔ علاوہ ازیں، اُن کی تین بہنیں بھی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب برطانوی عمل داری کے باعث انگریزی تعلیم کا حصول ہندوستانی باشندوں کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ البتہ قدامت پسند ہندو اور مسلمان گھرانے انگریزی تعلیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ نذیر احمد کا گھرانا بھی ایسے ہی خیالات کا حامل تھا کہ جہاں انگریزی کانام سنتے ہی بے زاری و ناگواری جھلکنے لگتی۔ 

گھر میں اگر کسی حد تک غُربت کا ڈیرا تھا، تو شرافت کا بسیرا بھی تھا۔ نذیر احمد نے ابتدائی تین، چار برس ماں اور نانی کی نگہداشت میں گزارے۔ بنیادی تعلیم اپنے والد، سعادت علی سے حاصل کی، جنہوں نے بغدادی قاعدہ اور کلامِ پاک پڑھایا۔ پھر مدرسے داخل کروائے گئے۔ تاہم، والد کو جلد ہی محسوس ہو گیا کہ مدرسے میں وقت زیادہ صَرف ہوتا ہے، لہٰذا انہوں نے خود ہی گھر پر عربی و فارسی کی تعلیم دینا شروع کر دی۔ جب نذیر احمد کی عُمر نو، دس برس ہوئی، تو مولوی نصر اللہ خویشگی سے، جو بجنور کے ڈپٹی کلکٹر بھی تھے، تحصیلِ علم کر چکے تھے۔ 

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہندوستانی باشندے ڈپٹی کلکٹر کے عُہدے تک پہنچنے کو ترقّی کی معراج سمجھتے تھے اور نام کے ساتھ ڈپٹی کلکٹر لکھنا، تو شاید شخصیت کی تکمیل سمجھا جاتا۔ مولوی نصر اللہ صاحبِ علم ہونے کے علاوہ خورجہ میں ایک مدرسے کے بانی بھی تھے۔ اُن کی ایک وجہِ شُہرت یہ بھی تھی کہ انہوں نے نواب مصطفیٰ خاں شیفتہؔ کی مشہورِ زمانہ کتاب، ’’گلشنِ بے خار‘‘ کا جواب، ’’گلشنِ ہمیشہ بہار‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ شیفتہؔ سے اپنے وقت کے بہت سے نام وَر لوگ متاثر تھے، جن میں غالبؔ اور مومنؔ جیسے باکمال شاعر بھی شامل تھے۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے تو اُن کے لیے یہاں تک کہا کہ ’’حالیؔ سُخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے… غالبؔ کا معتقد ہے، مقلّد ہے میرؔ کا۔

نذیر احمد نے مولوی نصر اللہ خویشگی سے عربی نحو، منطق اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ اس دوران انہیں اپنے استاد کی دیکھا دیکھی اپنے نام کے ساتھ ’’ڈپٹی کلکٹر‘‘ لکھنے کا شوق چرایا اور تدریس کی ایک زیرِ مطالعہ کتاب میں اپنے نام کے ساتھ’’ ڈپٹی کلکٹر‘‘ تحریر بھی کر دیا۔ اس پر ساتھی طلبا نے استاد کو شکایت کی کہ نذیر احمد ابھی سے ڈپٹی کلکٹر بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ تاہم، شفیق استاد نے بہ جائے سرزنش کے انہیں دُعا دی۔1845 ء میں نذیر احمد کو بجنور چھوڑ کر دہلی منتقل ہونا پڑا۔ وہی دِلّی، جو بار بار تاراج ہونے کے باوجود بھی ہندوستان کے سَر کا تاج تھی۔ 

علم و فضل کا مرکز مانی جانے والی دِلّی میں جو بھی تحصیلِ علم کی غرض سے آتا اور جھولی پھیلاتا، توجھولی بَھر بَھر کے لے جاتا۔ یہاں اوّل اوّل مولوی عبدالخالق اورنگ آبادی کی شاگردی اختیار کی۔ طعام و قیام کی صورت کچھ یوں تھی کہ مسجد سے ملحقہ مدرسے میں شکم سیری بھی ہوتی اور شب بسری بھی۔ ساکنانِ دہلی خوشی و غم کے مواقع پر مساجد اور مدارس میں زیرِ تعلیم طلبا کے لیے کھانا بھیجا کرتے اور یوں دو وقت کی روٹی میسّر آنے پر بیرونِ دہلی سے آئے طلبا شُکرِ خداوندی بجا لاتے۔ 

نذیر احمد کا معاملہ بھی کچھ یوں ہی تھا کہ کبھی مسجد تو کبھی اپنے استاد مولوی عبدالخالق اورنگ آبادی کے گھر پر پیٹ کی آگ بُجھا لیا کرتے۔ وہ استاد کی خدمت اس طرح بھی بجا لاتے کہ اُن کے گھر کے کام کاج کرتے اور سودا سلف بھی لا دیا کرتے۔ خدا خدا کر کے یہ زمانہ گزرا۔ اُس سے اگلی منزل دہلی کالج میں داخلے کا حصول تھا اور 1846ء میں یہ معرکہ بھی سَر ہو گیا۔

اس دوران نذیر احمد کے والد انتقال کر گئے اور یوں گھر کی کفالت کی ذمّے داری بھی اُن کے کاندھوں پر آن پڑی۔ اگر اُن کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا، تو شاید تعلیم سے کنارہ کَشی اختیار کر کے گھر والوں کی دیکھ بھال پر پوری توجّہ صرف کرتا کہ یہ بھی اُس وقت کے تقاضوں کے عین مطابق سب سے ضروری کام تھا۔ تاہم، نذیر احمد نے اُس گھڑی یہ عہد کیا کہ گھر کی کفالت کے ساتھ تعلیم کا حصول بھی کارِ زندگی کا ایک حصّہ ہو گا۔ سو، وہ دو طرفہ محاذوں پر ڈٹ گئے۔ دہلی کالج میں محمد حسین آزاد اور ذکاء اللہ بھی زیرِ تعلیم تھے۔ 

یوں اُن سے میل جول بڑھ گیا اور ان کی صحبتوں سے سیکھنے سکھانے کا عمل خُوب پروان چڑھنے لگا۔ ادب، ریاضی، تاریخ اور جغرافیہ سب پر بھرپور توجّہ دی۔ گرچہ مٔوخر الذّکر دو مضامین سے اُن کو کوئی خاص دِل چسپی نہ تھی، مگر وقت کی ضرورت کے تحت اُن مضامین میں بھی کما حقہ مہارت حاصل کر لی۔ قابل اساتذہ، ذہین طالب علم اور اچھی علمی فضا… یوں ’’اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں‘‘ کے مصداق نذیر احمد کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پروان چڑھنے لگی۔ چوں کہ کالج میں مقامی اساتذہ کے علاوہ انگریز استاد بھی تعلیم دیا کرتے اور شاگردوں کو خاصی توجّہ اور لگن سے پڑھاتے، تو اُن کے اندازِ تدریس کا بہ غور مشاہدہ کرنے کے نتیجے میں نذیر احمد میں موجود انگریزی زبان سے نفرت و بے زاری خاصی حد تک تحلیل ہو گئی۔

کالج میں تحصیلِ علم کی مُدّت طویل رہی۔ اسی اثنا میں عربی زبان پر اس حد تک مہارت حاصل کر لی کہ ’’مولوی صاحب‘‘ کہلانے لگے۔ کالج ہی کی زندگی میں 1850-51ء کے آس پاس مولوی عبدالخالق کی پوتی سے اُن کی شادی ہو گئی۔1854ء میں ملازمت کی تلاش شروع ہوئی اور کسی نہ کسی طرح ڈائریکٹر تعلیمات تک رسائی حاصل کی۔ 

ملاقات میں اُن کے سامنے اپنی اسناد رکھ دیں اور کہا کہ ’’اگر میرے لائق کوئی ملازمت ہے، تو دے دیں، ورنہ مَیں یہیں یہ ڈگریاں چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔‘‘ یوں کنجاہ، ضلع گجرات میں 40روپے ماہانہ کی بنیاد پر شعبہِ تدریس سے وابستہ ہوئے۔ دو برس کے عرصے میں یہ ملازمت ترک کر کے1856ء میں کان پور چلے آئے اور ڈپٹی انسپکٹر، مدارس مقرّر کر دیے گئے۔ یہ ملازمت اچھی چلتی اور مستقبل میں ترقّی کے بھی امکانات کافی روشن تھے، مگر قسمت سے کون لڑ سکتا ہے۔ انسپکٹر مدارس، مسٹر فلر سے کسی بات پر تکرار ہوئی اور نذیر احمد نے بِلا تکلّف استعفیٰ دے کر دِلّی کی راہ اختیار کی۔ 

کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ہندوستان کی تاریخ بدلنے والا سال یعنی 1857ء آن پہنچا۔ کون تھا، جو غدر سے متاثر نہ تھا۔ فرنگیوں کے خلاف ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کا غصّہ عروج پر تھا۔ بہ قول مولانا غلام رسول مہر، ’’بنیادی سبب انگریزوں کی اجنبیت کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘ مقامی باشندوں نے گرچہ سخت مقابلہ کیا اور ممکنہ حد تک بہادری کے جوہر بھی دکھائے، تاہم انگریز فوج بہت منظّم اور طاقت وَر تھی اور اُس زمانے کے جدید ہتھیاروں سے لیس بھی۔ یوں انگریزوں نے اپنے خلاف ہونے والی بغاوت کو بھرپور انداز میں کُچل دیا۔

تب نذیر احمد دہلی میں مقیم تھے اور یہ حد سے زیادہ ظلم اور بربریّت کا نشانہ یوں بنی کہ یہاں بہادر شاہ ظفر کی برائے نام سہی، لیکن عمل داری موجود ضرور تھی۔ غدر کے دوران نذیر احمد، مولانا عبدالقادر کے گھر ڈیرا ڈالے رہے۔ اتفاقاً اُن کے گھر کے بالکل سامنے ایک انگریز خاتون فسادات کی زد میں آ کر زخمی ہو گئی۔ اہلِ خانہ اُسے اٹھا کر اندر لائے اور مناسب دیکھ بھال کی، جس سے وہ بھلی چنگی ہو گئی۔ جہاں پورے دہلی میں ہنگامے ہوتے رہے، وہیں انگریز خاتون کی موجودگی کے باعث مولانا عبدالقادر کا گھر بالکل محفوظ رہا۔ 

حالات بہتر ہوئے، تو نذیر احمد ایک بار پھر محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہو گئے۔ تاہم، اس مرتبہ وہ ڈپٹی انسپکٹر، الٰہ آباد مقرّر کیے گئے۔ اُن کے لیے الہٰ آباد میں ایک اچھی صورت یہ پیدا ہوئی کہ وہ مُنشی عبداللہ خاں کے ہاں مقیم ہو گئے، جو انگریزی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ اُن ہی کی ایما پر نذیر احمد نے انگریزی پر بھر پور توجّہ دی اور جلد ہی اس زبان کے اسرار و رموز سے واقف ہو چلے۔ اُن ہی دنوں الٰہ آباد میں قانون کی کُتب کے انگریزی سے اُردو میں ترجمے کا کام جاری تھا۔ ترجمے کے لیے ماہرین کی جو کمیٹی قائم ہوئی، اُس میں نذیر احمد کا نام بھی شامل تھا۔ 

اُنہوں نے یہ کام اس لیاقت اور ہُنر مندی سے کیا کہ اُن کی صلاحیتوں کی اہلِ فن کی جانب سے خوب خوب تحسین ہوئی اور نہ صرف یہ کہ تحسین ہوئی، بلکہ اُنہیں تحصیل دار کا عُہدہ بھی پیش کیا گیا۔ نیز، اُن سے کہا گیا کہ وہ جلد ڈپٹی کلکٹر بھی بنا دیے جائیں گے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تحصیل دار اور ڈپٹی کلکٹر بننے کے لیے ایک باضابطہ امتحان میں کام یاب ہونا ضروری ہوتا۔ نذیر احمدنے نہ صرف تحصیل دار کا امتحان پاس کیا، بلکہ ڈپٹی کلکٹر کے امتحان میں اس طرح سُرخ رُو ہوئے کہ کسی بھی انگریز اور مقامی باشندے سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔ یوں اُن کے نام کے ساتھ ’’ڈپٹی کلکٹر‘‘ کا اضافہ ہو چلا۔ گویا طالبِ علمی کے زمانے میں ازراہِ شوق ’’ڈپٹی کلکٹر‘‘ تحریر کرنا قدرت کو پسند آ گیا تھا۔

1863ء میں اُنہیں کان پور اور پھر گورکھ پور میں فرائض کی انجام دہی کے لیے متعیّن کیا گیا۔ اُن ہی مصروفیات میں 1869ء کا سال آ گیا۔ اب اُن کی اولاد عُمر کی اُس منزل کو پہنچ چُکی تھی کہ جہاں بہتر تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت پیش آتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کو رائج کُتب سے اطمینان نہ ہوا اور اپنے بچّوں کے لیے خود ہی کتابیں تیار کیں۔ نتیجتاً، بیٹے کے لیے ’’چند پند‘‘ اور بیٹی کے لیے ’’مراۃ العروس‘‘نامی کُتب سامنے آئیں۔ بچّوں کو ان کی وَرق گردانی میں خوب لُطف محسوس ہوتا۔ ایک روز کچھ یوں ہوا کہ بیٹا، بشیر باغ کی سیر کو گیا۔ ہاتھ میں کتاب بھی موجود تھی۔ 

باغ میں محکمۂ تعلیم کا ڈائریکٹر، جو انگریز تھا، سیر کے لیے آیا ہوا تھا۔ بیٹے نے پہچان کر سلام کیا۔ اُس نے سلام کا جواب دینے کے بعد نام پوچھا اور دریافت کیا کہ ’’ہاتھ میں کتاب کون سی ہے؟‘‘ بشیر نے نام بتایا کہ’’چند پند‘‘۔ انگریز نے حیران ہو کر کہا کہ ’’یہ کون سی کتاب ہے، جو میری نظر سے نہیں گزری۔‘‘ پھر دریافت کیا کہ ’’مصنّف کون ہے؟‘‘، تو بیٹے نے باپ کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کتاب صرف میرے لیے لکھی گئی ہے۔‘‘ نیز، یہ بھی بتایا کہ ’’میری بہن کے لیے بھی ایک کتاب، ’’مراۃ العروس‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔‘‘ ڈائریکٹر نے کہا کہ ’’وہ کتاب بھی مُجھے دکھاؤ۔‘‘ بیٹے نے جواب دیا کہ ’’وہ گھر سے لے کر آتا ہوں۔‘‘ غرض ’’مراۃ العروس‘‘ بھی لائی گئی۔ 

پھر افسر نے بچّے سے کہا کہ ’’تم گھر جاؤ، کتابیں پہنچا دی جائیں گی۔‘‘ بچّہ گھر واپس آگیا۔ شام ڈھلے ڈپٹی نذیر احمد گھر آئے، تو بیٹی نے شکایت کی کہ ’’بھائی اپنی اور میری کتابیں کسی کو دے آیا ہے۔‘‘ انہوں نے بیٹے سے پورا احوال دریافت کیا اور قدرے حیران بھی ہوئے کہ افسر صاحب کو بچّوں کی کتب کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ اگلی صبح وہ خود افسر سے جا کر ملے، تو اُس نے کتابوں کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ یہ کتابیں تو ہر ایک کو پڑھنی چاہئیں۔ بہرحال، ان کُتب کی کئی نقول تیار ہوئیں۔ چند ہفتوں بعد اُسی افسر کا خط ڈپٹی نذیر احمدکے نام آیا، جس میں ’’مراۃ العروس‘‘ کے بارے میں بتایا گیا کہ ’’صوبائی حکومت نے اس کتاب پر مصنّف کو ایک ہزار روپے اور ایک گھڑی بہ طور تحفہ دینے کا اعلان کیا ہے۔‘‘

اس اعلان کے بعد ’’مراۃ العروس‘‘ راتوں رات قریہ قریہ اور کوچہ کوچہ شُہرت پا گئی ۔ جسے دیکھو ’’ مراۃ العروس‘‘ پڑھتا نظر آتا۔ یہ ناول دو بہنوں، اکبری اور اصغری کے، جن کی شادیاں دو بھائیوں سے ہوئی تھیں، قصّے پر مشتمل تھا۔ اکبری تعلیم و تربیت اور تہذیب سے قطعاً نا آشنا اور بلا کی بدتمیز و پھوہڑ۔ اُس کی سُسرال میں کسی سے نہ بنی، جب کہ چھوٹی بہن، اصغری نے اُس کے برعکس طبیعت پائی تھی۔ 

انتہا درجے کی سلیقہ مند اور سمجھ دار۔ سُسرال کیا گئی کہ اُس کی کایا ہی پلٹ دی اور ہر کوئی اصغری کے گُن گانے لگا۔ ’’مراۃ العروس‘‘ کی مقبولیت کا یہ عالم ہو گیا کہ اُسے جہیز میں دیا جانے لگا۔ اسی کے تسلسل میں1872 ء میں ’’بنات النعش‘‘ لکھی گئی۔ اسے بھی بے حد پسند کیا گیا اور حکومت نے اُس پر 500روپے بہ طور انعام دیے۔ متذکرہ دو کُتب کے بعد 1874ء میں ڈپٹی نذیر احمد کی ایک اور معرکۃ الآراء کتاب، ’’توبۃ النّصوح‘‘ سامنے آئی۔ 

چند ناقدین کا کہنا ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد کی یہ کتاب اُن کا شاہ کار ہے ۔1877ءمیں انہوں نے حیدر آباد، دکن کا رُخ کیا۔ وہاں کی علم دوست حکومت نے اُن کی صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن کی تن خواہ 850روپے ماہ وار مقرّر کی، جو کچھ ہی عرصے میں بڑھ کر 1700روپے ماہ وار ہو گئی۔ یہاں دیگر علمی اُمور کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد نے حفظِ قرآن کی طرف بھی توجّہ دی اور محض چھے ماہ کے اندر حافظِ قرآن ہوگئے۔ بعد ازاں، ’’فسانۂ مبتلا‘‘(1885ء ) اور ’’ابن الوقت‘‘ (1888ء ) شائقین ِ ادب کے سامنے آئیں اور انہیں بھی پسندیدگی کی سند ملی۔ ڈپٹی نذیر احمد ایک کثیر التصانیف مصنّف تھے ۔ اُن کی دیگر کُتب میں ’ایّامیٰ‘‘، ’’رویائے صادقہ‘‘، ’’منتخب الحکایات‘‘،’’اُمّہات الامّہ‘‘ کے علاوہ بہت سی اخلاقی، دینی اور مذہبی کُتب شامل ہیں۔

ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی زندگی متوسّط طبقے کے ایک فرد کی حیثیت سے بسر کی اور اُن کی تحریروں میں بھی دِلّی کا متوسّط طبقہ واضح طور پر جھلکتا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے ناولز میں ہونے والی گفتگو، بالخصوص وہ مکالمے، جن میں خواتین کی زبان، محاورے اور ضرب الامثال شامل ہیں، بِلاشُبہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اپنے قلم کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ اُن کا بنیادی مقصد تھا اور اُنہوں نے شاید اپنے اس مقصد سے ایک لمحہ بھی رُوگردانی نہیں کی۔ تاہم، کمال یہ کیا کہ اپنے ارد گرد کی فضا کو اپنے مشاہدے اور مکالمے سے تبدیل کرنے کی شعوری کوشش کی۔ 

آخری تجزیے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے سماج کی نہ صرف تصویر کَشی کی، بلکہ اُسے اپنے تئیں صحیح رُخ دینے میں بھی جی جان سے مصروف رہے۔ ایک اعلیٰ تخلیق کار کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیق میں اپنے سماج کے حقیقی اور روزمرّہ اُمور پیش کرنے کا پہلو غالب رکھتا ہو۔ اس اعتبار سے نذیر احمد بِلاشُبہ ایک سچّے تخلیق کار کا درجہ رکھتے ہیں۔ دِل چسپ اَمر یہ ہے کہ اُن کی تصانیف کے عنوانات، ’’مراۃ العروس‘‘، ’’توبۃ النّصوح‘‘، ’’بِنات النعش‘‘، ’’ابن الوقت‘‘، ’’محصنات‘‘، ’’ایّامیٰ‘‘، ’’رویائے صادقہ‘‘ وغیرہ ہندوستانی سماج سے دُور اور عربی فضا سے قریب نظر آتے ہیں۔ سّچی بات یہ ہے کہ اگر آج ڈپٹی نذیر احمد کا نام زندہ ہے، تو وہ اُن کے اعلیٰ اور شان دار ناولز ہی کی بہ دولت ہے۔ 

بابائے اُردو، مولوی عبدالحق نے اُن کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’شمس العلماء ڈاکٹر مولانا نذیر احمد مرحوم ہماری قوم میں ایک ایسے فردِ بے نظیر گزرے ہیں کہ جو ہمیشہ یاد رہیں گے ۔ کم از کم جب تک اُردو زبان زندہ ہے، اُن کا نام بِلاشُبہ زندہ رہے گا۔ وہ محض اپنی محنت، استقلال اور قابلیت سے دُنیا میں بڑھے اور ایک معمولی غریب شخص سے امیر اور ایک ادنیٰ طالب علم سے اعلیٰ درجے کے فاضل ہو گئے۔ اُن کی زندگی سیلف ہیلپ (اپنی مدد آپ سے آگے بڑھنے) کی ایک نمایاں اور روشن مثال ہے۔‘‘ڈپٹی نذیر احمد نے1912ءمیں دہلی میں وفات پائی۔

تازہ ترین