• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ اخبار کا مزاج سیاسی ہوتا ہے لیکن اب صحافت ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے سیاسی کے ساتھ ساتھ نیم ادبی رنگ اختیار کر چکی ہے اور قارئین کی تفنن طبع کے لئے ہر قسم کا سامان مہیا کرتی ہے۔ میں نے اپنے آپ کو لکھنے کے لئے آمادہ کرنا چاہا تو کلیاتِ اقبال سے فال نکالی۔ فال نکالنے کا مطلب ہے کہ بلا سوچے سمجھے کتاب کو اچانک کھولنا اور دیکھنا کہ سامنے کیا چھپا ہوا ہے۔ اس طرح میری ملاقات اقبال کی مشہور نظم خضر راہ سے ہو گئی۔ اقبال کی نظر میں حضرت خضر علیہ السلام عمرِ دوام کی وجہ سے دنیا کے سب سے زیادہ تجربہ کار آدمی ہیں اس لئے ان سے بہتر کوئی راہنما نہیں ہو سکتا۔ ان کی باتوں اور مشوروں میں حکمت تلاش کرنے سے ہی راہنمائی ملتی ہے۔ ’’خضرِ راہ‘‘ پڑھنی شروع کی تو یوں محسوس ہوا جیسے علامہ اقبال سے خیالی یا تصوراتی ملاقات ہو رہی ہے۔ اسی سفر میں آگے بڑھا تو محسوس ہوا کہ شاید علامہ اقبال کی حضرت خضر ؑسے ملاقات بھی ہو چکی ہے کیونکہ حضرت خضر ؑ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عمرِ دوام سے نوازا ہے اور اس ’’نوازنے‘‘ میں کوئی حکمت بھی ضرور ہوگی کیونکہ رب کے فیصلے بلاحکمت نہیں ہوتے۔ پھر خیال آیا کہ اس احساس کی تصدیق کیسے ہو؟ تصدیق کے لئے اقبال کی سب سے زیادہ مستند سوانح عمری ’’زندہ رُود‘‘ پر نظر پڑی جسے مرحوم ڈاکٹر جاوید اقبال نے گہری تحقیق کے بعد نہایت محنت سے لکھا ہے اور اسے تقریباً حرفِ آخر بنا دیا ہے۔ ’’زندہ رُود‘‘ پڑھنی شروع کی تو صفحات 317-18پر اس احساس یا خیال کی سند مل گئی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال خضرِ راہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو خضرؑ کی شخصیت سے شناسائی کا ذاتی تجربہ تھا‘‘۔ ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے روشن خیال اور روشن دماغ کا یہ تسلیم کرنا میرے نزدیک سند کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے روحانیت سے انکاری مادہ پرستوں کو بھی یہ بات مان لینی چاہئے۔ انہوں نے اقبال کی حضرت خضرؑ سے ملاقات کا پسِ منظر بھی بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’جن دنوں اقبال نے یہ نظم لکھنا شروع کی اُن پر نقرس کے مرض کا شدید حملہ ہوا اور انہوں نے کئی راتیں لگاتار بیداری کے عالم میں گزاریں۔ وہ انار کلی والے مکان کی بیٹھک سے ملحقہ کمرے میں اٹھ آئے تھے اور رات کو عموماً علی بخش ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ایک شب درد کی شدت کے سبب ان پر نیم بےہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس کیفیت میں انہیں محسوس ہوا گویا کوئی مرد بزرگ ان کے پاس بیٹھا ہے۔ اقبال اس مرد سے سوال پوچھتے ہیں اور وہ ان کے ہر سوال کا جواب دیتا جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ مرد بزرگ اٹھتا ہے اور چل دیتا ہے۔ اس کے رخصت ہونے کے فوراً بعد اقبال نے علی بخش کو آواز دے کر بلایا اور اس مرد بزرگ کے پیچھے دوڑایا تاکہ اسے واپس لے آئے۔ علی بخش کا بیان ہے کہ وہ بیٹھک کے فرش پر لیٹا اس وقت جاگ رہا تھا اور اقبال کو تنہائی میں کسی کے ساتھ باتیں کرتا سُن رہا تھا۔ رات کے تقریباً تین بجے تھے۔ علی بخش تعمیلِ حکم میں پھرتی سے سیڑھیاں اترا لیکن نچلے دروازے کو اندر سے مقفل پایا۔ دروازہ کھول کر بازار میں نکلا مگر ہُو کا عالم طاری تھا۔ بازار کے دونوں طرف دور دور تک اسے کوئی بھی شخص دکھائی نہ دیا‘‘۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا فرمان ہے کہ علی بخش نے خود ان سے اس واقعے کا ذکر کیا تھا۔ مزید لکھتے ہیں ’’بعد میں اس قسم کے چند اور واقعات راقم کے اپنے مشاہدے میں بھی آئے‘‘ (صفحہ 327)۔ خود علامہ اقبال نے گرامی کے اس نظم پر اعتراضات کے جواب میں ان کو لکھا کہ قرآن مجید کو پڑھیے، ’’سورئہ کہف میں حضرت موسیٰ ؑاور خضرؑ کے قصے کو ملاحظہ فرمایئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے خضر ؑ کی اس خصوصیت کو کس خوبی سے ملحوظ رکھا ہے‘‘۔ اسی حوالے سے علامہ اقبال خضرؑ سے راہنمائی طلب کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔

یہاں تک لکھ چکا ہوں تو مجھے ماہر قلب ڈاکٹر عبدالرشید سیال یاد آ رہے ہیں۔ ایک روز اُن سے ون ٹو ون ملاقات ہو رہی تھی اور ہم ایک خاموش گوشے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اُس روز اُن کی ذہنی و قلبی کیفیت کچھ اس طرح کی تھی کہ وہ زندگی کے تجربات اور خاص طور پر روحانی تجربات سے پردہ اٹھا رہے تھے یا شیئر کر رہے تھے۔ جیسے کوئی غمگسار ہمدرد دوست راز و نیاز کرتا ہے۔ کہنے لگے کہ ایک روز میں اپنے اسپتال کے اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا، اچانک دفتر کا دروازہ آہستہ سے کھلا اور ایک بزرگ میرے سامنے رکھی کرسی پر آ کر بیٹھ گئے۔ عام طور پر ملاقاتی سیکرٹری کے ذریعے آتے تھے۔ بزرگ نے مجھ سے کچھ سوالات کئے اور عبادات کے حوالے سے راہنمائی کی۔ وہ عبادات میری ذاتی تھیں، انہیں کیسے خبر ہوئی یہ پوچھنے کا خیال تک نہ آیا۔ ان دنوں میں قرآن مجید کا منظوم انگریزی میں ترجمہ کر رہا تھا۔ مجھے ان سے کچھ پوچھنے کی جرأت ہی نہ ہوئی۔ پھر وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر نکل گئے۔ میں بدستور کرسی پر بیٹھا رہا اور انہیں رخصت کرنے کی بھی ہمت نہ کر سکا۔ ان کے جانے کے بعد طبیعت میں تجسس پیدا ہوا کہ یہ کون صاحب تھے جبکہ ان کی موجودگی میں ان سے یہ سوال پوچھنے کا خیال تک نہ آیا۔ تجسس کے پیچ و خم میں مبتلا تھا تو کشفی انداز میں بتایا گیا یہ خضر علیہ السلام تھے اور تمہاری راہنمائی کے لئے آئے تھے۔ عام طور پر لوگ حضرت خضر علیہ السلام کو تصوراتی اور غیرموجود شخصیت سمجھتے ہیں لیکن علامہ اقبال کی نظم خضر راہ پڑھ کر اور پھر اس پر ڈاکٹر جاوید اقبال کی ’’ذاتی شناسائی‘‘ کی رائے پڑھ کر اور سب سے آخر میں ایک محبی عابد و زاہد ماہرِ امراض قلب روحانی شخصیت کی زبانی خضر علیہ السلام سے ملاقات کا احوال سُن کر مجھے یقین آ گیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللّٰہ تعالیٰ نے ابدی زندگی اور دوام بخشا ہے اور وہ حکمِ ربی کے تحت راہنمائی کا فرض ادا کرتے ہیں لیکن ہم جیسے دنیا داروں کی ان احوال تک رسائی نہیں ہوتی۔ بےشک میرا رب ہر شے پر قادر ہے لیکن اس کی قدرت کے راز اور احوال صرف برگزیدہ ہستیوں پر ہی منکشف ہوتے ہیں۔ باقی خلقِ خدا دوسری مخلوقات کی مانند اپنی معمول کی زندگی گزار کر رخصت ہو جاتی ہے۔ صدیوں سے یہی سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔

تازہ ترین