• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی خواتین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی منفرد صلاحیتوں کے بل بُوتے پر مُلک و قوم کا نام روشن کر رہی ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے، جب اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ اہلِ خانہ کی مکمل سپورٹ بھی حاصل ہو۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ شوبز سے وابستہ شخصیات کی اولاد وہ مقام حاصل نہیں کر پاتی، جو اُن کے والدین نے حاصل کیا۔ 

لیکن پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف پروڈیوسر، ڈائریکٹر، اقبال لطیف کی بڑی صاحب زادی، سدرہ اقبال نے نہ صرف والدین، میمن کمیونٹی ، بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام بھی بہت روشن کیا ۔ سدرہ کو زمانۂ طالب علمی ہی سے کچھ نیا کرنے کی جستجو تھی،تب ہی اسٹیج، مائیک اور حاضرین کا سامناکرنا کم عُمری ہی میں سیکھ لیا ۔

سدرہ نے دو مختلف تدریسی اداروں سےڈبل ماسٹرز کیا ۔ایک ڈگری ایم بی اے (مارکیٹنگ)اور دوسری انٹر نیشنل ریلیشنز میں حاصل کی،جب کہ دورانِ تعلیم بےشمار انٹرنیشنل فورمز پر پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ انہوںنےاپنے کیرئیر کا آغازپاکستان ٹیلی ویژن کے ایک شو کی میزبانی سے کیا اور آج ان کا شمار صفِ اوّل کی کمپیئرز میں کیا جاتا ہے۔

وہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں سرکاری تقاریب کی میزبانی کا اعزاز حاصل کرچُکی ہیں۔23مارچ، 14اگست اور 6ستمبرکے مواقع پر منعقد کی جانے والی سرکاری تقاریب کی نظامت کی ذمّے داریاں احسن طور پر انجام دیتی ہیں،تو ایک بہترین موٹی ویشنل اسپیکر بھی ہیں۔ انہیں اُردو اور انگریزی دونوں زبان پر یک ساں عبور حاصل ہے۔

ہم نے نئی نسل کی اسی پسندیدہ، منجھی ہوئی کمپیئر، سدرہ اقبال سے سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے ایک تفصیلی ملاقات کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

بچپن سے ’ہٹلر‘ ہوں
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س:خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:میرا تعلق میمن برادری سے ہے۔ والد اقبال لطیف پاکستان ٹیلی ویژن سے30برس منسلک رہے۔ اس دوران بحیثیت پروڈیوسر، ڈائریکٹر خدمات انجام دیں اور درجنوں ڈراما سیریلز، سیریز پروڈیوس کیں۔ بعدازاں، مختلف پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے ساتھ بھی کام کیا،جب کہ والدہ گھریلو خاتون ہیں۔ مَیں نے ابتدائی تعلیم بیکن ہائوس،کراچی سےحاصل کی۔پھر جامعہ کراچی سے مارکیٹنگ میں ایم بی اے کے بعدکالج آف بزنس مینیجمنٹ سےآئی آر میں ماسٹرز کیا۔ رہی بات تربیت کی، تووالدین نےتربیت پر کچھ ضرورت سےزیادہ ہی فوکس رکھا۔

س: کتنے بہن بھائی ہیں، آپ کا نمبر کون سا ہے؟

ج:ہم تین بہنیں ہی والدین کی آنکھوںکا تارا ہیں کہ ہمارا کوئی بھائی نہیں۔ مَیں بڑی ہوں، باقی دونوں چھوٹی پیا دیس سدھارچُکی ہیں۔

س: بچپن کیسا گزرا ،شرارتیں کرتے یا…؟

ج:مَیں بہت زیادہ شرارتی تھی، مگر گھر میں میری چیزوں کو کوئی ہاتھ تک نہیں لگا سکتا تھا۔

س: لائق طالبہ تھیں یا…؟

ج:اسکول تا یونی ورسٹی بہت اچھی طالبہ رہی۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا،خاص طور پر تقریری مقابلوں، تھیٹر اور موسیقی سے دِل چسپی تھی۔

س:بڑی ہونے کے ناتےبہنوں پر رعب رکھا؟

ج:جی ، بچپن میں چھوٹی بہنوں پر میرا ہی حُکم چلتا تھا۔ اسی وجہ سے مجھے ’’ہٹلر‘‘ کہا جاتا۔

س: پہلی ملازمت کہاں کی ؟

ج:ایم بی اے کی بنیاد پر پہلی ملازمت ایک معروف میڈیا گروپ میں کی۔اُن دِنوں وہ گروپ اپنا ٹی وی چینل بھی لانچ کرنے والا تھا، تو مجھ سےنہ صرف ایک مارننگ شو ڈیزائن اور پروڈیوس کروایا گیا، بلکہ میزبانی بھی کروائی گئی۔ اس طرح پہلی بارمَیں بغیر کسی جھجک، خوف کے کیمرے کے سامنے آئی۔

س: کیمرے کا سامنا پُر اعتماد ہوکر کیا،تو اس کی کوئی خاص وجہ تھی؟

ج: اصل میںمَیں نے سات برس ہی کی عُمر سےتقریری مقابلوں میں حصّہ لینا شروع کردیا تھا،پھراسکول، کالج میں پاکستان یوتھ ،جب کہ کئی انٹرنیشنل فورمزپر مُلک کی نمائندگی بھی کی۔

مجھے لندن میں پہلا انعام اُس مقابلے میں ملا تھا، جس میں26مُمالک نے حصّہ لیا تھا۔ اسی دوران منسٹری آف ایجوکیشن، یو اے ای نے مجھے اپنا سفیر بھی بنایا۔ اسکول لائف میں پہلی بارورلڈ اکنامک فورم میں بھی حصّہ لیا،تو یو ںکہہ لیں کہ ان ہی سرگرمیوں کی بدولت میرا اعتماد بڑھتا چلا گیا۔

س: انگریزی میزبانی کا پہلا تجربہ کب ہوا؟

ج: پی ٹی وی سے نشر ہونے والے ایک شو"The World This Week"سے انگریزی میزبانی کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں خاتون میزبان یا تو مارننگ شو کرسکتی تھی یا کرنٹ افیئر کا پروگرام۔ میرا حوالہ کرنٹ افیئر بن گیا اوریوں مَیں بزنس جرنلزم کی طرف چلی گئی۔

س:تقاریب میں کمپیئرنگ کا خیال کیسے آیا؟

ج: اسٹیج اور مائیک سےرشتہ بہت پُرانا ہے،چَھٹی جماعت میں تھی،تو ایک تقریب کی میزبانی کے لیے کہا گیا،تو بس تب ہی سے خوشی خوشی یہ کام شروع کردیا۔

س:پہلی بڑی تقریب کی کمپیئرنگ کب کی ؟

ج:اسلام آباد میںجنرل (ر) پرویز مشرف کی ایک تقریب کی نظامت کی تھی،تب وہ آرمی چیف اور صدر تھے۔

س:زندگی کی پہلی کمائی کتنی تھی؟

ج:برٹش کاؤنسل کی جانب سے ایک لاکھ روپے کا چیک ملا ، تو خوشی سے نہال ہوگئی تھی۔

س:فیلڈ میں آنے کے بعد ذاتی زندگی متاثر ہوئی؟

ج:مجھے کبھی ایسا نہیں لگا کہ میری ذاتی زندگی متاثر ہو رہی ہے،کیوں کہ مَیں نے پروفیشنل زندگی کےآغاز ہی سے اپنی چیزوں پر کنٹرول رکھا ہے۔ مَیں ان باغی نوجوانوںمیں سےہوں، جو اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں اور استعفیٰ ہر وقت جیب میں لیے پِھرتے ہیں۔ 

جس بھی ادارے میں کام کیا، ہمیشہ یہی کہاکہ مَیں ادارے کے لیے کام کرتی ہوں، کسی فرد کی ملازم نہیں۔ ویسے شوبزنس اور میڈیا، جنونی ،پاگل لوگوں کا شعبہ ہے، اگر آپ کویہاںکام کا صرف شوق ہے، جنون نہیں، تو آپ نہیں چل سکتے۔ مَیں آج خود کو زیادہ پُراعتماد اور آزاد مانتی ہوں اور اپنی ذات پریہ اعتماد وقت کے ساتھ ہی آتا ہے۔

س: آپ کی گفتگو میں یہ لکھنوی اُردو ،خُوب صُورت انگریزی کا سلیقہ کہاں سے آیا؟

ج:اس کی وجہ والدین ہیں۔ میرے ننھیال کے تمام افراد بہت پڑھے لکھےہیں۔ ہم سب کزنزجب چھٹیوں میںاکھٹے ہوتےتھے، تو ایک دوسرے سے انگریزی ہی میں بات کرتے۔اور مَیں توسوچتی، لکھتی، پڑھتی اور خواب بھی انگریزی ہی میں دیکھتی ہوں۔ دوسری جانب والد نے اُردو ادب میں ماسٹرز کیاہوا تھا۔

انہوں نے اپنےڈراموں میں ہمیشہ زبان و بیان کا خاص خیال رکھا۔ ہم کبھی اُردو بولتے ہوئے غلطی کرتے ، تو وہ فوراً تصحیح کرتے تھے،خاص طور پر اُردو گرامربہت درست کی۔ پھرخوش قسمتی سے اچھے وقتوں میں بڑے ہو رہے تھے، تو پی ٹی وی پر شائستہ زبان سُننے کوملی۔ بچپن میں دادا جان اخبار پڑھنے کی ہدایت کرتے تھے،تواخبارات سے بھی بہت کچھ سیکھا۔

س : خود کو پانچ سال بعد کہاں دیکھ رہی ہیں؟

ج:اب سے زیادہ خوش اور کام یاب دیکھ رہی ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ 30سے60برس کی عمر کے دوران خوشی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے، جب آپ نئی نسل کے لیے کچھ کرتے ہیں، تو مَیں اپنےخصوصی لیکچرزمیں یوتھ کو اپنے ساتھ لے کر چل رہی ہوں۔

س:آپ خُوش شکل اور خُوش گفتار بھی ہیں، والد صاحب ڈراما پروڈیوسر ہیں، اداکاری کی جانب کیوں نہیں آئیں؟

ج:ایسا نہیں کہ میرا اس طرف کبھی دھیان نہیں گیا۔مجھےاداکاری کا شوق رہا ہے۔ اس سلسلے میں تھیٹربھی پڑھا ، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اداکاری کے لیے بہت وقت چاہیے اور مجھے اپنے وقت پر اپناکنٹرول اچھا لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی وی پر زیادہ تر لائیو پروگرامز کرتی ہوں۔ ڈراموں کی ریکارڈنگزسے مجھے بہت اُلجھن ہوتی ہےکہ اُن میں بہت وقت ضایع ہوتا ہے۔

س: 2012ء میں آئفا ایوارڈ کے ریڈ کارپٹ کی میزبانی بھی کی،اُس بارے میں کچھ بتائیں؟

ج:وہ دراصل ہم نے اپنی کمپنی کے سوشل پراجیکٹ کے لیے بالی وُڈ کے سُپراسٹارز مادھوری ڈکشٹ، شاہ رُخ خان، شاہد کپور اور پریانکا چوپڑاوغیرہ کے انٹرویوز کیے تھے۔

س:تھیٹر میں آپ کا فیوریٹ کون رہا؟

ج:معین اختر مرحوم ۔ انہوں نے میری بھی بہت حوصلہ افزائی کی۔ وہ اسٹیج پر جانے سے پہلے دُعا ضرور کرتے تھے۔

س:خود کو ایلیٹ کلاس کی کمپیئر سمجھتی ہیں؟

ج:اپنے بارے میں گمان اچھا ہی رکھنا چاہیے۔

س:آئی ایس پی آر کے بڑے پروگرامز کی میزبانی کے لیے تیاری کس طرح کرتی ہیں؟

ج:شہداء کی فیملی کے ساتھ وقت گزارتی ہوں۔ کچھ اسکرپٹ مَیں خود لکھتی ہوں اور کچھ مجھے دیا جاتا ہے۔

س:کوئی ایسا ایوارڈ، جسے حاصل کرنے کی خواہش ہو؟

ج:عوام میں مقبولیت کا ایوارڈ۔مَیںبچپن میں لیڈی ڈیانا سے بہت متاثر تھی اور اسی لیے کہ وہ عوام میں بہت مقبول تھیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی سب سے بڑا ایوارڈ ہوتا ہے۔

س:شادی کا کب تک ارادہ ہے؟

ج:مجھے سمجھ نہیں آتا کہ جو لڑکی خودمختار اوربرسرِ روزگارہو، اُسے ’’مشکل لڑکی‘‘کیوں کہا جاتا ہے۔دیکھیں ،سیدھی سی بات ہے، سدرہ، اس لیے شادی نہیں کرتی کہ اُسے اپنی زندگی بہت پسند ہے۔اورشادی اُسی سے کروں گی، جو میری موجودہ زندگی میں اپنی جگہ بنانے میںکام یاب ہو گا، کیوں کہ مجھےصرف نکاح کےتین بول نہیں پڑھوانے ۔اللہ نے ہر ایک کا جوڑا بنایا ہے، تو مجھےبھی پسند کےجیون ساتھی کا انتظار ہے اور وہ دُنیا میں کہیں نہ کہیں موجودضرور ہے۔ شاید، کہیں ٹریفک جام میں پھنسا ہوا ہو، لیکن آئے گاضرور ۔

س:آپ کی صُبح کب ہوتی ہے اور اُٹھتے ہی پہلا کام کیا کرتی ہیں؟

ج:سویرے ساڑھے پانچ بجے اُٹھ جاتی ہوں کہ مجھے وہ وقت بہت اچھا لگتا ہے، جب سورج بھی طلوع نہ ہواہو۔اُٹھتے ہی پلاننگ کرلیتی ہوں کہ آج دِن بَھر میں کیا کیا کرنا ہے۔ اوررات گیارہ بجے تک سو بھی جاتی ہوں۔

س:فارغ اوقات کے کیا مشاغل ہیں؟

ج:کتابوں کی عاشق ہوں، فلمیں شوق سے دیکھتی ہوں۔ مجھے مسٹریئیس اور تھرلر موویز بہت پسند ہیں۔

س: زندگی سے کیا سیکھا؟

ج:یہی کہ اپنی خوشی کی چابی اپنے پاس رکھنی چاہیے، کسی اور کو اسٹیئرنگ سیٹ پر نہ بٹھائیں کہ خود کو خوش رکھنا،ہماری اپنی ذمّے داری ہے۔

س: اب تک کی زندگی میں جو چاہا،وہ ملا یا کوئی خواہش ادھوری ہے؟

ج:الحمدللہ۔سب کچھ ملا،بلکہ جو کبھی چاہابھی نہیں،وہ بھی ملا۔اللہ نے مجھےمیرےوہم و گمان سےبھی بڑھ کر نوازا ہے۔

س:زندگی کاسب سےحسین دَور کون سا ہے؟

ج:جوگزر گیا، گزر رہا ہے اوراِن شاء اللہ آنے والا دَور اس سے بھی زیادہ خُوب صُورت ہو گا۔

س:عشق و محبّت کا زندگی میں کس قدر دخل ہے؟

ج:عشق و محبّت ہی نے تو زندگی کے ہر رشتے کو خُوب صُورتی سے باندھ رکھا ہے، ان کے بغیرتو زندگی گزارنے کا تصوّر تک نہیں کیا جاسکتا۔

س: خود آپ کو کسی سے عشق ہوا؟

ج:نہیں، البتہ والدین کا عشق دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہوں۔ مَیں سمجھتی ہوں پنے کام اور انسانیت سے عشق،عشق کی معراج ہے ۔

س:کام یاب زندگی گزارنے کا اصول کیا ہے؟

ج:اپنی ذمّے داریاں خود قبول کریں۔

س:دُنیا کے کس مُلک مَیں اپنا گھرتعمیر کرنے کا دِل چاہتا ہے؟

ج:مجھے لگتا ہے کہ میری روح لندن میں بستی ہے،کیوں کہ زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ بھی وہی تھا، جب لندن میں تقریری مقابلہ جیتا۔ لندن سےبہت قریبی رشتہ ہے۔ یوں کہہ لیں کہ وہ میرادوسرا گھر ہے،جہاںسال میں ایک بار ضرور جاتی ہوں۔ کئی اور مُمالک بھی گھومے، جیسےمدینہ منوّرہ اور دہلی جاکر روح کو سُکون ملا۔

س : کھانا پکانےکا شوق ہے؟

ج: شوق تو بہت زیادہ ہے ، لیکن لذیذ کھانے اُس وقت ہی بناپاتی ہوں، جب بہت پُرسکون ہوں۔

س: کسی بات پر غصّہ آئے تو ردِعمل کیا ہوتا ہے؟

ج:باآوازِ بلند چیختی، چلاتی ہوں۔

س:فیصلے دُرست کرتی ہیں، دِل کی سُنتی ہیں یا دماغ کی؟

ج: اب تک دِل کی سُنتے ہوئے درست ہی فیصلے کیے ہیں۔

س:ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے،اگر…؟

ج: اگر ’’نا‘‘ کا لفظ نکال دیا جائے۔

س:خوشیاں کرنسی سے ملتیں، تو کیا خریدتیں؟

ج:میرے لیے سب سے اہم ’’وقت‘‘ ہے اور اگریہ کہیں فروخت ہو رہا ہوتا، تو فوراً خرید لیتی۔

س:اسٹائل وقت کے ساتھ بدلتی ہیں؟

ج: نہیں، بلکہ جب محسوس کرتی ہوں کہ آج یہ بہتر لگے گا، تو وہی اسٹائل اپنا لیتی ہوں۔

س:پریشانی سے نکلنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟

ج:حیرت کی بات بتائوں،مَیں پریشان ہوتی ہی نہیں ہوں۔

س:اپنی شخصیت میں سب سے اچھا کیا لگتا ہے؟

ج: مَیں چوں کہ اپنی فیوریٹ ہوں، اس لیے پورا سراپا ہی اچھا لگتا ہے۔

س:اُداس ہوں، تو کیا کرتی ہیں،اورپریشانی کے عالم میں کون سا ایسا شخص ہے، جس کے کاندھے پر سَر رکھ کر رونے کو جی چاہتا ہے؟

ج: روتی تو ہرگز نہیں ہوں۔اُداسی ختم کرنے کے لیے سب سے پہلےرب کے حضور دو رکعت نفل ادا کرتی ہوں۔پھر جب دِل کا بوجھ ہلکا ہوجائے، تو پسندیدہ ڈش سے لُطف اندوز ہوتی ہوں۔

س:اگر کوئی آپ پر تنقید کرے، توردِّعمل کیا ہوتا ہے؟

ج:فضول باتیں بالکل نہیں سُنتی کہ میرے دوپٹے اور قمیص کی لمبائی میں خوشی دیکھنے والا خوداپنا ہی نقصان کر رہا ہوتا ہے۔

س:خود کو کس عُمر کا تصوّر کرتی ہیں؟

ج:مَیں عُمر کی قید کو مانتی ہی نہیں،اسے صرف ایک گنتی کا کھیل سمجھتی ہوں، جسے کہیںلکھ کر کہیں بُھول جانا چاہیے۔

س:ستاروں پر یقین رکھتی ہیں؟

ج:بہت زیادہ۔ اس سے متعلق دِل چسپی سے پڑھتی بھی ہوں۔

س:زندگی کا یاد گار لمحہ؟

ج:جب پہلی بار عُمرہ ادا کیا تھا۔

س:کوئی ایسی بات ،جو لاکھ کوشش کے باوجودممکن نہ ہو؟

ج:خاموش رہنا۔مَیں کسی صُورت خاموش نہیںرہ سکتی ۔

س:موبائل فون کا زندگی میںکتنا عمل دخل ہے؟

ج:موبائل فون کے بغیر سانس رُک جاتی ہے اور اگر زندگی سے نکال دیں ،تودھڑکنیں تیز سُنائی دیتی ہیں۔

س:موسیقی کا شوق ہے؟

ج:جی، گیت سنگیت اچھے لگتے ہیں۔

س: سینیما جاکر فلم دیکھتی ہیں؟

ج: فلمیں دیکھنے کا توجنون ہے۔ ابھی سینیما جاکر’’جوکر‘‘فلم دیکھی، مگر بالکل پسند نہیں آئی۔

س:گھر سے نکلتے ہوئے کون سی تین چیزیں ساتھ رکھتی ہیں؟

ج:موبائل فون، ہینڈز فری اور پرس۔

س:اگر آپ کےپرس کی تلاشی لی جائے، تو کیا برآمدہو گا؟

ج:بہت ساری رسیدیںکہ مَیں جو بھی چیز خریدتی ہوں، اس کی رسیدسنبھال کر پرس میں رکھ لیتی ہوں۔

س:شاپنگ کرتے ہوئے بھائو تائو کرتی ہیں؟

ج:بھائو تائو نہیں کرتی۔ اگر تین سوٹ پسند آ جائیں، تو تینوں خرید لیتی ہوں۔

س:ذہین شخص کی رفاقت پسند ہے یا…؟

ج:مَیں دولت مند یا خوش شکل کی بجائےکسی ذہین شخص ہی کی رفاقت پسند کرتی ہوں کہ سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔

س:آپ کے نزدیک عورت نرم دِل ہے یا مَرد…؟

ج:میرے خیال میں مَرد زیادہ نرم دِل ہوتے ہیں۔البتہ ہر مَرد کی کام یابی کے پیچھےعورت کی محنت کا عمل دخل ہوتا ہے۔

س:میڈیا کی آزادی کی قائل ہیں؟

ج:میڈیاآزاد رہے، مگربے مہار نہ ہو۔

س:سیاست سے دِل چسپی ہے؟

ج:ایسی سیاست، جو سماجی اور عوامی مسائل حل کرے، اچھی لگتی ہے۔

س:کوئی ایسا دِن ،جس کےبار بار آنے کا انتظار ہو؟

ج:سال گِرہ کا دِن کہ تب ڈھیروں تحائف ملتے ہیں۔

س: پاکستانی فن کاراؤں میں کون پسند ہیں؟

ج:ماہرہ خان بہت پسند ہیں،مہوش حیات اور مایا علی کی فلمیں بھی شوق سے دیکھتی ہوں،جب کہ صبا قمراور زارا نور عباس کی اداکاری اچھی لگتی ہے۔

س:ڈرامے دیکھتی ہیں؟

ج: جی بالکل دیکھتی ہوں۔ابھی حال ہی مَیں نشر ہونے والاڈراما ’’خاص‘‘ بہت پسند آیا۔ اس میں صنم بلوچ نے کمال کی پرفارمینس دی۔ ویسے مجھے اپنے والد کا پروڈیوس کیا ہوا ڈراما، ’’رفتہ رفتہ‘‘ بے حد پسند ہے۔ اس میں معین اختر نے کمال اداکاری کی تھی۔

اللہ سے کبھی ’’بھائی‘‘ نہیں مانگا

ہم تین بہنیں ہیں۔ کوئی بھائی نہیں اور اس احساس سے آج بھی بے پناہ خوشی ہوتی ہےکہ ہم سب بہنیں اپنی مرضی کی مالک ہیں۔ اگر بھائی ہوتا، تو بلاوجہ رعب دکھاتا۔ بچپن میں امّی ابّو کہتے تھے، ’’تم اللہ سےبھائی کے لیے دُعا مانگو، بچّوں کی دُعا جلدی قبول ہوتی ہے‘‘ مگر مَیں پانچ سال کی عُمر میں بھی والدین سے کہتی تھی کہ ’’مجھے بھائی نہیں چاہیے‘‘۔

معیاری فلم پروڈیوس کروں گی

مجھے اداکاری کا تھوڑا بہت شوق تھا،توٹیلی ویژن پر10برس تک سیاسی پروگرامز کیے۔اب اس سے زیادہ ایکٹنگ کیا کرتی۔ہاں، اگر مجھے موقع ملا تو ایک معیاری فلم پروڈیوس کروں گی اور اس کی ڈائریکشن بھی دوں گی کہ مجھے ڈائریکشن کا بہت شوق ہے۔مَیں نےبہت سی ڈاکیومینٹریز بھی بنائی ہیں اورچوں کہ کہانیاں سُنانا بہت پسند ہے ،تو فلم کی کہانی بھی خود ہی لکھوں گی۔

میرا بچپن اور قیمتی تحائف

میرا بچپن بہت خُو ب صُورت یادوں سے سجا ہے۔یوں کہہ لیں کہ مَیں نے ایک شہزادی جیسی زندگی گزاری۔میری سال گرہ بہت دھوم دھام سے منائی جاتی تھی اور سال گرہ کا اگلا دِن توبہت ہی خُوب صُورت لگتا تھا،جب میرے پاس سیکڑوں قیمتی تحائف ہوتے۔ اےکاش! وہ وقت ایک بار پھر لوٹ آئے۔

تازہ ترین
تازہ ترین