• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی اُردو کانفرنس:ضیاء محی الدین اور شیما کرمانی کی شاندار پرفارمنس

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری عالمی اردو کانفرنس


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری بارہویں عالمی اردو کانفرنس میں غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کی مناسبت سے خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ جس کا عنوان” غالب، ہمہ رنگ شاعر“ تھا۔

اجلاس کی صدارت بھارت سے آئے ہوئے نامور ادیب پروفیسر شمیم حنفی نے کی جب کہ اجلاس میں ڈاکٹر نعمان الحق نے”یگانہ اور مثال زمانہ گونہ گوں“، تحسین فراقی نے ”حیات اور تصور حیات “ اور ہیروجی کتاؤکا نے اپنا مقالہ پیش کیا، نظامت کے فرائض ناصرہ زبیری نے انجام دیئے۔

اس موقع پر شرکاء نے مقالہ پیش کرنے والوں کی زبردست پذیرائی کی۔ اپنے صدارتی خطبے میں شمیم حنفی نے کہا کہ غالب ایسے شاعر ہیں جنہیں عالمگیر سطح پر قبول کیا گیا، ہم مشرق مغرب کو دیکھتے ہوئے بہت سی باتوں کو درگزر کردیتے ہیں، ہندوستان میں ان کے پائے کا کوئی شاعر نہیں ہے، غالب میری زندگی کا بہت بڑا سہارا تھے۔

شمیم حنفی نے مزید کہا کہ غالب کی شاعری میں مذہب اور عقیدہ یا کوئی اور دیوار بن کر کھڑی نہیں ہوسکی۔ غالب ایسے شاعر تھے جنہوں نے بہت دکھ اٹھائے۔

ڈاکٹر نعمان الحق نے غالب پر اپنا مقالہ یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں پیش کیا اور کہا کہ غالب ایک عظیم شاعر ہیں جو ہمارے ہاں اور کوئی بھی نہیں ہے، غالب کا محبوب، جو ایک استعارہ ہے اس لئے وہ اس کو کبھی دیکھ نہیں پائے، غالب نے آسمان اور زمین کی جو بات کی ہے وہ بھی بہت کمال ہے۔

انہوں نے کہا کہ غالب کے ہاں کائنات کی تخلیق دیگر ہے جس میں رشتہ ہے اور دیگر زندگی کے معاملات ہیں۔

ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنا مقالہ حیات اور تصور حیات پیش کیا اور کہا کہ اگر غالب نہ ہوتے تو ہم انیسویں صدی میں دستاویز سے محروم ہوتے، ایک شخص کے رد عمل کا بھی پتہ چلتا ہے جو دیہات کے ٹیڑھے راستوں سے سیدھے راستے پر آنکلا، نسلی اعتبار سے غالب کا تعلق تک کے قبیلے ایبک سے تھا۔

انہوں نے کہا کہ غالب ایک ایسے شاعر ہیں جو زندگی کے تصورات پیش کرتے ہیں، غالب کے ہاں انسان کے ساتھ تعلق اٹوٹ ہے ۔غالب کی شاعری میں زمانے کی مشکلوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔

ہیرو جی کتاؤ کا نے کہا کہ ہمیں پتہ نہیں چل سکا کہ غالب اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں کس طرح سوچتا ہے۔ دیوان غالب کی غزلوں اور نظموں کو دیکھ کرنتیجہ نکالا ہے اور اسے تاریخی طور پر مرتب کرنے کی کوشش کی تھی، غالب نے تیس سال کی عمر سے پہلے بہت کچھ لکھا تیس سال تک دو ہزار سات سو چھیالیس اشعار لکھے اور تیس سال کے بعد انہوں نے پہلے کے مقابلے میں کم لکھا۔

بعد ازاں نامور صداکار ضیا محی الدین نے دیوان غالب سے مرزا اسد اللّٰہ خان غالب کی نظمیں پڑھیں جبکہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ(ناپا) کے میوزک ہیڈ اور معروف ستار نواز استاد نفیس خان نے اپنے شاگردوں کے ہمراہ غالب کی شاعر ی کوستار کی خوبصورت دھنوں کے ساتھ پیش کیا۔

اس موقع پر ضیا محی الدین کو سننے کے لئے شرکاءکی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے انہیں خوب سراہا۔

بعد ازاں معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کو شیما کرمانی نے شاندار انداز میں ٹریبیوٹ بھی پیش کیا۔

تازہ ترین