کراچی پولیس کی جرائم پیشہ افراد کی سر پرستی کی باتیں زبان زد عام ہیں جب کہبے گناہ شہریوں کی جان سے کھیلنا بھی ان کا مشغلہ بن گیا ہے ۔ پولیس گردی کاحالیہ واقعہ 22 نومبر کو وقوع پذیرہوا جس میںگذری پولیس نے تعاقب کے بعدکینٹ اسٹیشن کے نزدیک رکی ہوئی کار پر فائرنگ کر کے ایک نوجوان نبیل ہود بائی کو ہلاک اور اس کے دوست رضا امام کو زخمی کردیا ۔ پولیس گردی کا یہ واقعہ نیا نہیں تھا، اس سے قبل بھی اس قسم کے واقعات ریکارڈ پر ہیں ۔
جب یہ خبرذرائع ابلاغ کے توسط سے شہر میں پھیلی تو اعلی پولیس افسران کو ایکشن لینا پڑا اور ،واقعہ میں ملوث ،3اہلکاروں ، سب انسپکٹر عبدالغفار، ہیڈ کانسٹیبل آفتاب اور کانسٹیبل محمد علی شاہ کو حراست میں لے لیا گیا۔پولیس نے زخمی رضا امام کا ابتدائی بیان ریکارڈ کرلیاہے، جس میں اس نے بتایا کہ مقتول نبیل میرا دوست تھا ، ہم دونوںگذری کھڈا مارکیٹ سے کھانا کھا کر آرہے تھے ، پولیس ہمارا پیچھا کررہی تھی جس کا ہمیں علم نہیں تھا۔ جب کینٹ اسٹیشن کے قریب گا ڑی روکی تو پولیس اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کردی ۔ پولیس کو جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم پستول کی گولی کا ایک خول ملا ہے۔ تینوں اہلکار گذری تھانے میں تعینات تھے،جنہیں گرفتار کر کے عدالت میں بھی پیش کیا جاچکا ہے ۔
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس میں مقتول نبیل کی والدہ لیلی، بہن شارمین سمیت دیگر نے کہا کہ پولیس نے کھڑی ہوئی گاڑی پر نبیل کی گردن پر فائرکیا اور اسپتال لے جانے کی بجائے وہاں سے فرار ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ نبیل کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت سے پہلے بھی پولیس گردی کےمتعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ نبیل اسپورٹس مین تھا اسے مارنے کی وجہ ناقابل فہم ہے۔انہوں نے کہا کہ اس اندوہ ناک واقعہ پرابھی تک گذری تھانے کا ایس ایچ او معطل نہیں کیا گیا۔ غم سے نڈھال والدہ نے کہا کہ پولیس تو عوام کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے، سے گناہ لوگوں کا خون بہانے کے لے نہیں۔ ۔انھوں نےوزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سےاپیل کی کہ وہ نبیل قتل کیس کا فوری نوٹس لیں ہم انصاف چاہتے ہیں ۔
ابھی پولیس کے ہاتھوں نبیل کے قتل کی بازگشت جاری تھی کہ پولیس کے مبینہ تشدد سے ایک اور شخص جاں بحق ہو گیا، تاہم پولیس کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے ۔تفصیلات کے مطابق حسین آباد کا رہائشی نعمان عرف نومی ولد عبدالقادرجسے عزیزآباد پولیس نے 17نومبر کو شراب رکھنے پرگرفتار کیا تھا، دوران علاج سول اسپتال میں دم توڑ گیا۔متوفی کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ عزیز آباد پولیس کے اہلکاروں نے متوفی پر تھانے میں تشدد کیا۔،متوفی کے والد اور والدہ کے مطابق عزیز آباد تھانے کا افسرشہزاد تھانے میں نعمان پرمبینہ طور سے تشدد کرتا رہا۔
انہوں نعمان پر کے جانے والے تشدد کو روکنے کے لئے اسے3 ہزار روپے بھی دیئے۔اہل خانہ کے مطابق 18نومبر کو نعمان کو عدالت میں پیش گیا گیا جس کے بعد اسے جیل منتقل کردیا گیا۔جیل اہلکاروں نے بھی اس پر تشدد کیا اور ہم سے20ہزار روپے طلب کئے بعد ازاں ہم نے انھیں5ہزار روپے دیئے ۔18نومبر کی شب نعمان کو تشویشناک حالت میں سینٹرل جیل کے اسپتال منتقل کیا گیا اورحالت نہ سنبھلنے پر جمعرات21نومبر کو جیل انتظامیہ نے اسے سول اسپتال منتقل کردیا، جہاں اتوار کی صبح چھ بجے نعمان دوران علاج چل بسا۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نعمان عرف نومی ولد عبدالقادر 18جنوری2019 کو گرفتار ہوا جس کے قبضے سے شراب کی 24 بوتیں برآمد ہوئی تھیں۔ 19جنوری کو ملزم نعمان کو تفتیشی افسر دائم علی نےعدالت کے حکم پر سینٹرل جیل کے عملے کے حوالے کیا۔پولیس کے مطابق جیل انتظامیہ کسی بیمار یا تشدد زدہ ملزم کو بغیر طبی ٹیسٹ کرائے جیل کی گنتی میں شامل نہیں کرتی اور نہ ہی وصول کرتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبائی پبلک سیفٹی اور پولیس کمپلینٹ کمیشن(پی پی ایس اینڈ پی سی سی ) کے اجلاس میں 22 نومبر کو رونما ہونے والے واقعےجس میں نبیل ہودبائی جاں بحق ہو گئے اور ان کے دوست رضا امام زخمی ہوئے پر سخت ناراضی اور غصے کا اظہار کیا اور امل عمر کیس کی روشنی میں جاری کردہ ناکہ بندی اور اسنیپ چیکنگ کے اسٹینڈرڈ آپریشنل پروسیجر(ایس او پی) کی منظوری دی ۔اجلاس میں سندھ پولیس کی جانب سے شرکت کرنے والی فورس کے استعمال سے متعلق وابستگی کے رولز /ایس او پی اور امل عمر کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد جیسے امور کا جائزہ لیاگیا۔
ایڈیشنل آئی جی پولیس غلام نبی میمن نے کمیشن کو 22 نومبر 2019 کے واقعہ سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سید رضا امام اور نبیل، خیابان حافظ سے کار میں آرہے تھے ۔انہیں خیابان حافظ پر رکنے کے لیے کہاگیا مگر انہوں نے اپنی گاڑی کی رفتارتیز کر دی ،پولیس نے پی اے سی سی تک ان کا پیچھا کیا جہاں پر پولیس پارٹی نے اُن پر فائر کھول دیا۔ جس کے نتیجے میں نبیل گولی لگنے سے موقع پرہی دم توڑ گئے۔انہوں نے کہا کہ ہیڈ کانسٹیبل آفتاب نے اپنے پستول سے 5 رائونڈ فائر کیے جس میں سے 4 ہوائی تھے جب کہ ایک سیدھا فائر کیا جس سے نبیل کی موت واقع ہوئی ۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ پی اے سی سی کے مقام پر ہوا جوکہ سول لائن کی حدودمیں ہے۔پولیس پارٹی جوکہ ایس آئی غفار گذری پولیس ، ہیڈ کانسٹیبل آفتاب اور پولیس کانسٹیبل محمد علی پر مشتمل تھی، ان کے خلاف ایف آئی آر نمبر149/19 درج کرکے تمام ملزمان کو تحویل میں لے لیاگیا۔اس واقعے کی ایس ایس پی انویسٹی گیشن سائوتھ نے تحقیقات کا حکم دیا۔نبیل قتل کیس کے سلسلے میں ایڈیشنل آئی جی پولیس غلام نبی میمن کی وزیر اعلیٰ کے سامنے بریفنگ میں کہا کہ ہیڈ کانسٹیبل آفتاب نے اپنے پستول سے 5 رائونڈ فائر کیے تھے جس میں سے 4 ہوائی فائرتھےجب کہ ایک سیدھا فائر کیا گیا جس سے نبیل کی موت واقع ہوئی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہاس واقعے میںنبیل کے ساتھ بیٹھا ہوا اس کا دوست رضا امام بھی فائرنگ سے زخمی ہوا، اگر ہیڈکانسٹیبل کے 5 فائروں میں سے صرف ایک گولی ہی کارگر ثابت ہوئی تو رضا امام کس کی گولی سے زخمی ہوا۔ کمیشن کوبتایا گیا کہ ’’پولیس اسٹاپ اینڈ سرچ‘‘ کے لیے ایس او پی پہلے ہی جاری کی جاچکی ہے۔امل عمر واقعہ کے بعد ہتھیار رکھنے اور فائرنگ کے لیے ریفریشر کورسز کے لیے ایک جارحانہ مہم شروع کردی گئی تھی۔تقریباً 6 ہزار پولیس افسران کو اب تک تربیت دی جاچکی ہے ۔کمیشن کے ارکان نے آئی جی پر زور دیا کہ وہ اُن پولیس اہلکاروں و افسران کاجوکہ گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی پولیس اسٹیشن پر تعینات ہیں ، تبادلہ کردیاجائے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ لوگ پولیس کی موجودگی میں خود کو محفوظ کی بجائے غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
کراچی آپریشن کے بعدعوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہواتھا مگر اب یہ محکمہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے برتائو اور ایکشن سے اسے برقرار رکھے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ناکہ بندی، اسنیپ چیکنگ جوکہ امل عمر کیس کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے کی ایس او پی کی منظور ی دی۔ایس او پی کے مقاصد میں ناکہ بندی/اسنیپ چیکنگ پوائنٹس پر مناسب تربیت یافتہ پولیس اہلکاروں کی تعیناتی شامل ہے ۔
نبیل قتل کیس پر شہر مں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے اور اب کوئی بھی شخص خود کو پولیس کے ہاتھوں محفوظ نہیں سمجھتا۔ جعلی پولیس مقابلوں میں چند سال کے دوران تقریباً ایک درجن افراد پولیبس گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ 2دسمبر 2019 کوایک افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے نوجوان ، نقیب اللہ محسود کے والدمحمد خان محسود اپنے بیٹے کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیکھنے کی حسرت لیے ہوئے راولپنڈی کے کمبائنڈ ملٹر اسپتال میں انتقال کرگئے۔13 جنوری 2018 کوضلع ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا تھا۔