اسلام آباد (انصار عباسی) امتیاز گِل اور علی احمد نامی دو مشکوک افراد کو اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے اسٹاف کے ارکان میں بھرتی کیا تھا لیکن اُن دنوں میں بھی یہ دونوں افراد کسی اور وجہ کی بجائے سلیمان شہباز سے تعلق کی وجہ سے زیادہ مشہور تھے۔
آزاد ذرائع پی ٹی آئی کے ان الزامات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امتیاز گل اور علی احمد کو ڈائریکٹر پولیٹیکل افیئرز اور ڈائریکٹر اسٹریٹجی جیسے عہدے دیے گئے تھے لیکن یہ لوگ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں اہم ترین بیوروکریٹس کی ٹیم میں شامل نہیں تھے۔
ان دونوں افراد کے پاس وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں کوئی دفتر نہیں تھا اور شاید ہی ان کی سیکریٹریٹ کی بیوروکریسی میں کسی سے کوئی بات چیت بھی رہی ہو لیکن دونوں افراد کو اکثر سلیمان شہباز کے 55H کے ماڈل ٹائون کے دفتر میں دیکھا جاتا تھا۔
یہ لوگ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب کے ماڈل ٹائون آفس میں بھی دیکھے جاتے تھے۔ ان دونوں افراد کے بارے میں اکثر کہا جاتا تھا کہ یہ لوگ سلیمان شہباز کےکلاس فیلوز اور د وست تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو صرف 30؍ ہزار روپے ماہانہ کی معمولی تنخواہ پر ڈائریکٹر جیسے عہدوں پر لگایا گیا تھا لیکن یہ لوگ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے جڑا کوئی سرکاری کام نہیں کرتے تھے۔ اُس وقت وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں کام کرنے والی بیوروکریسی کو علم نہیں تھا کہ امتیاز گل اور علی احمد آخر کیا کام کرتے ہیں۔
عمومی تاثر یہ تھا کہ سیلمان شہباز نے دونوں کو شاید اس لئے نوازا ہے کہ دونوں کا ماضی میں سلیمان شہباز سے کوئی تعلق تھا۔ تاہم، اب سرکاری انکشافات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ دونوں افراد شہباز شریف فیملی کیلئے منی لانڈرنگ میں ملوث تھے۔
اگرچہ ان دونوں کا زیادہ تعلق سلیمان شہباز سے بتایا گیا ہے لیکن بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف نے انہیں سرکاری عہدے کیوں دیے؟ یہی وجہ ہے کہ بیریسٹر شہزاد اکبر نے شہباز شریف کیلئے چند اہم سوالات یہ اٹھائے ہیں کہ کیا امتیاز گل اور علی احمد کو چیف منسٹرز آفس میں ڈائریکٹر پولیٹیکل افیئرز اور ڈائریکٹر اسٹریٹجی نہیں لگایا گیا تھا؟ حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ دونوں افراد منی لانڈرنگ اور کرپشن کیلئے شہباز شریف اور سلیمان شہباز کے فرنٹ مین تھے۔
ان دونوں افراد پر الزام ہے کہ وہ گُڈ نیچر ٹریڈنگ نامی کمپنی کے مالک تھے اور یہ کمپنی سلیمان شہباز کیلئے منی لانڈرنگ کرتی تھی۔ امتیاز گل پر ا لزام ہے کہ انہوں نے سلیمان شہباز کے ساتھ چند غیر ممالک کا سفر بھی کیا تھا۔ حکومت کا الزام ہے کہ دونوں نے شہباز شریف فیملی کے اکاؤنٹس میں بھاری رقوم منتقل کیں۔
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے امور احتساب شہزاد اکبر نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ نون لیگ کے صدر شہباز شریف اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں اور گزشتہ 10؍ سال کے د وران ان کے اثاثوں میں 70؍ فیصد اضافہ ہوا تھا۔
شہزاد اکبر نے نشاندہی کی تھی کہ شہباز شریف کی جی ایم سی کمپنی کے تین ملازمین، جو اربوں روپے کا نیٹ ورک چلانے میں ملوث تھے، مختلف عہدوں پر وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں کام کرتے رہے ہیں۔ شہزاد اکبر نے شہباز شریف کو چیلنج کیا کہ وہ ان سوالوں کا جواب دیں۔
شہزاد اکبر نے نیب سے مطالبہ کیا کہ گڈ نیچر ٹریڈنگ کمپنی کیخلاف تحقیقات کرائی جائیں کیونکہ اسی کمپنی کے تحت جعلی ٹی ٹی کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ انہوں نے واضح کیا کہ جی ایم سی اس وقت سامنے آئی تھی جب شریف فیملی کے اثاثوں کی تحقیقات کا آغاز ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 200؍ سے زائد ٹی ٹی کے ذریعے اربوں روپے منتقل کیے گئے۔ آزاد ذرائع کا خیال ہے کہ شہباز شریف فیملی کیخلاف منی لانڈرنگ کیس نیب میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کے اہل خانہ کیخلاف زیر تحقیقات دیگر کیسز کے مقابلے میں زیادہ سنگین نوعیت کا لگ رہا ہے۔
اس مخصوص کیس میں حکومت کو ثبوت ملنا باقی ہیں کہ آیا منی لانڈرنگ کا تعلق کسی طرح کی کک بیکس، کمیشن یا کرپشن سے ہے یا یہ پاکستان میں عام پاکستانی کاروباری افراد کی طرح کی ایک ہی سرگرمی تھی جو ٹیکسوں سے بچنے کیلئے اپنے مجموعی منافع کو ظاہر نہیں کرتے اور اپنی غیر ٹیکس شدہ رقم ہنڈی اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے باہر بھجوا دیتے ہیں۔
تاہم، بڑی کاروباری شخصیات کی اس غیرمعمولی اقدام کے باوجود یہ کیس شریف فیملی کے لیے زبردست پریشانی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ شہباز شریف فیملی کے افراد پر مشکوک ترسیلات زر سے رقوم وصول کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے اور اس لئے بھی کہ منی لانڈرنگ کے لیے جن دو افراد کو استعمال کیا گیا وہ وزیراعلیٰ آفس میں ملازم تھے۔