• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہر جانے والے سال کو مشکلات اور آنے والے سال کو پُرامید اور توقعات پوری ہونے کا سال کہا جاتا ہے، اب بھی 2019کے سال کو ختم ہونے میں تین ہفتے کے قریب رہ گئے ہیں، ماضی کی طرح یہ سال بھی ایک سے بڑھ کر ایک چیلنج کا سال رہا اور عملاً سیاسی اور سماجی میدان میں افراتفری اور مارا ماری کا سلسلہ جاری رہا جبکہ معاشی میدان میں ماضی کے حکمرانوں اور موجودہ حکمرانوں کے درمیان لوٹ مار کے الزامات اور معاشی تباہی کے الزامات اور وضاحتوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے بدلے میں بیچارے عوام کو تو کچھ نہیں ملا، اعداد و شمار کی لڑائی میں چند طاقتور اداروں اور خاندانوں کو فائدہ ضرور پہنچتا ہے مگر عوام بیچارے معاشی پریشانیوں میں ہی مبتلا رہتے ہیں۔ اب نیا سال آنے والا ہے، ماضی کے قصے کہانیوں کو ایک طرف چھوڑ کر نئے سال کو معاشی اصلاحات کا پھل قرار دینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حکومت اپنے دعووں اور اقدامات کو عملی شکل دے کر عوام کو معاشی اور سماجی تحفظ دینے کے لئے اپنے معاشی ایجنڈے کے ثمرات عوام کو عملی طور پر دینا شروع کرے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم کو جامع منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی اقتصادی ٹیم اور میڈیا منیجرز کو خصوصی ٹاسک دینا چاہئے جس کے نتائج پر عوام کو یقین بھی آئے۔ انہیں روٹی سستی ملنا شروع ہو گئی ہے اور روزگار اور کاروبار کے مواقع بھی عملی طور پر بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت کے وزراء سیاسی بیان بازی کے بجائے حقیقی معاشی اقدامات کی تصویر کشی کریں۔ اس لئے کہ ضرورت سے زیادہ پاکستانی آزاد میڈیا کی مہربانی سے اب عوام یہ سن سن کر تنگ آچکے ہیں کہ ہماری معیشت ہمالیہ کی چوٹی سر کر رہی ہے۔ یہی وطیرہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا بھی رہا ہے اس لئے عوام کو اب زبانی جمع خرچ کی باتوں سے زیادہ دیر تک طفل تسلیاں دینے کے بجائے عملی طور پر کئی وجوہ کی بناء پر دن بدن بند ہوتے کاروبار کو بحال کرنے اور نوجوانوں اور عام گھرانوں میں معاشی مشکلات کے حوالے سے پیدا ہونے والی بدگمانیوں کو دور کرنا ہوگا۔ اور اس سے قومی سطح پر جو نقصان ہوگا، وہ ہماری سیاسی قیادت، حکمران اور اپوزیشن سب پر سے عوام کا اعتماد اٹھ سکتا ہے، اس لئے کہ 2019کے سال میں ہماری پارلیمنٹ کے ریڈار پر جتنے قومی اقتصادی مسائل زیرِ بحث آئے وہ کسی کو بھی دعویٰ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، عوام سب جانتے ہیں۔ اس کے برعکس چور، ایک دوسرے کو قومی دولت لوٹنے والا اور نجانے کیا کیا کہا جاتا رہا۔ اس حوالے سے کئی مواقع پر تو اخلاقیات کے درجے سے بھی گر کر باتیں کی جاتی رہیں۔ اب نئے سال میں سیاسی بیان بازی میں اخلاقیات کے درجے کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہوگا اور حکومتی اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے کے تحت ہر گھرانے کی معاشی ضروریات پوری کرنے کا احساس کرنا ہو گا۔ اس کے لئے قومی اداروں کے میں یکجہتی پیدا کرنے اور عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور ڈپریشن دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں تمام سیاسی قیادت عوام پر رحم کرے اور آپس کی مارا ماری اور لڑائی جھگڑے میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر پاکستان کا امیج خراب نہ کرے کہ یہ قوم لڑتی بھی رہتی ہے اور یہاں زیادہ تر سیاست نان ایشوز پر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ناانصافی اور کرپشن جیسا ناسور پوری قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے معیشت کا پہیہ ٹریک پر لانے کے لئے عملی اقدامات ناگزیر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر بھی عوامی مسائل کے حل کیلئے سوچ بچار کر سکتی ہے۔

تازہ ترین