اداکاری ایک ایسا فن ہے، جس میں فن کار کو کچھ منفرد کر کے دِکھانا پڑتا ہے۔ ایک فن کار ساری زندگی دُکھ و تکلیف اور حالات کی ستم ظریفی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے ،لیکن جب اسے بادشاہ کے کردار میں کسی ڈرامے یا فلم میں پیش کیا جاتا ہے، تو وہ اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھر کر بادشاہ نظر آتا ہے۔ یُوں تو پاکستانی ٹی وی اور فلموں نے بہت سے نامور اداکار اور اداکارائیں متعارف کروائیں۔ ریشم اور صبا قمر کا شمار بھی ایسی اداکارائوں میں ہوتا ہے ،جنہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ٹی وی سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سینما کے باکس آفس پر چھا گئیں۔
ریشم 2؍اکتوبر 1968ء کو پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام صائمہ ہے، لیکن صائمہ نام کی ایک اداکارہ پہلے ہی سے فلم میں مشہور تھیں، اس لیے انہوں نے اپنا نام ریشم رکھا۔ خُوب صورت چہرہ، تیکھے نقش و نگار اور ناز و انداز اس کے سراپے کا تعارف تھے۔ فیصل آباد سے کئی آرزوئیں، خواہشات لے کر جب وہ فن کے مرکز لاہور پہنچیں، تو قسمت اُن پر مہربان ہوگئی اور پی ٹی وی پر انہیں ایک ڈرامے ’’دن‘‘ میں اداکاری کا موقع مل گیا۔
خداداد صلاحیتوں سے مالا مال اداکارہ نے اس ڈرامے میں اپنی موجودگی کا دیکھنے والوں کو اس طرح سے احساس دلایا کہ وہ ایک ستارہ بن کر آسمان فن پر چمکنے لگیں۔ اس کے بعد جب وہ ٹی وی پلے ’’دکھ سکھ‘‘ میں آئیں، تو ناظرین نے ان کے کردار کو بہت پسند کیا۔ یہ وہ دور تھا، جب فلم انڈسٹری میں اردو فلموں کے کام یاب دور کا دوبارہ آغاز ہوچکا تھا۔ شمیم آرا نے فلم ’’منڈا بگڑا جائے‘‘ بنا کر اس نئے دور کا آغاز کیا۔ 1995ء میں ہدایت کار سید نور نے پہلی بار ریشم کو اپنی فلم ’’جیوا‘‘ میں نئے اداکار بابر علی کے ساتھ ہیروئن کاسٹ کیا۔ اس فلم میں ریشم کی اداکاری اور اس گانے پر؎ ’’جانو سن ذرا‘‘ میں پرفارمنس نے بہت شہرت پائی۔
سلور اسکرین پر وہ واقعی جانو بن کر ابھریں۔ فلم ’’جیوا‘‘ کی ملک گیر کام یابی نے باکس آفس میں ریشم کو جو کام یابی دلوائی اس نے فلمی صنعت میں ایک خوب صورت فریش چہرے کا اضافہ کیا۔ فلم ساز و ہدایت کار شمیم آرا نے اپنی فلم ’’لو95 ‘‘میں ریشم کو کاسٹ کیا۔ یہ ایک مکمل تفریحی کمرشل فلم تھی، جس میں ایک بہت بڑی کاسٹ شامل تھی۔ ریشم ان تمام فن کاروں میں اپنی اداکاری میں الگ نظر آئیں ۔ سید نور کی فلم ’’چور مچائے شور‘‘ اور ’’گھونگھٹ‘‘ میں بھی ان کی کردار نگاری بے حد پسند کی گئی۔ 1997ء میں ریشم کی اعلیٰ اور ناقابل فراموش اداکاری سے مزین فلم ’’سنگم‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں انہوں نے اپنے اس اصل نام کا کردار اس قدر فطری انداز میں نبھایا کہ وہ پوری فلم میں حاوی رہیں۔
اس فلم میں ریشم پر فلمایا ہوا ایک گیت؎ ’’آپیار دل میں جگا’’ آج بھی سپرہٹ ہے۔ سنگم کے بعد ہدایت کار حسن عسکری کی تقسیم ہند کے پس منظر میں بنائی جانے والی کام یاب اور یادگار فلم ’’جنت کی تلاش‘‘ میں ریشم فن اداکاری کی اس معراج کو چھوتی ہوئی نظر آئیں جو ماضی میں بابرہ شریف، ممتاز اور آسیہ کی اداکاری میں پایا جاتا تھا۔ جنت کی تلاش میں ان کا کردار ایک مظلوم لڑکی کا تھا، جو انہوں نے بنا میک اپ ادا کیا اور شائقین فلم کو چونکا دیا۔ اس فلم میں انہیں شان دار کردار نگاری پر نیشنل ایوارڈ ملا۔ ریشم کے فلمی کئیرئیر میں گھونگھٹ، دوپٹہ جل رہا ہے، انتہا، ڈکیٹ، دو بوند پانی نامی فلموں کو بہترین کردار نگاری کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے۔
فلمی دنیا میں جب اردو فلموں کے بجائے دوبارہ پنجابی فلموں کی بہتات شروع ہوئی تو اس باصلاحیت اداکارہ کو صرف برائے نام کردار ملتے رہے، جس نے ان کے فین شپ کو بے حد متاثر کیا۔ خیال یہ ہے کہ اس طرح کی پنجابی فلموں میں ریشم نے اپنے آپ کو ضائع کیا، جب کہ وہ آج بھی ٹی وی کی ایک بہترین اداکارہ کے طور پر اپنا تعارف رکھتی ہیں۔ انہوں نے ٹی وی پر جن ڈراموں میں اداکاری کے انمنٹ نقوش قائم کیے، ان میں بنجر، من و سلویٰ، اشک، عشق عبادت، ناگن اور نور بی بی کے نام شامل ہیں۔
اب ہم آج کی منجھی ہوئی اداکارہ صبا قمر کے بارے میں کچھ بات کرتے ہیں۔ ہر انسان کچھ خواب رکھتا ہے، جن کی تعبیر پانے کو وہ اپنی زندگی کا نصب العین بنالیتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں اداکاری کا لوہا منوانے والی صبا قمر کے نام اور کام سے سبھی واقف ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اس فلم اسٹار اور ماڈل نے جب 2004ء میں اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا، تو اسے خود یہ نہیں معلوم تھا کہ ایک روز وہ اتنی بڑی آرٹسٹ بنے گی۔ فنی دنیا میں آج وہ جس مقام پر فائز ہیں۔
اس کے لیے انہیں بہت محنت کرنی پڑی۔ کہتے ہیں کہ انسان میں کچھ کرنے کی ہمت اور صلاحیتیں ہوں تو پھر اسے منزل مل ہی جاتی ہے۔ صبا قمر کا پورا نام صبا قمر زمان ہے۔ 5؍اپریل 1984ء کو حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئیں۔ معزز گھرانے کی یہ خوب صورت ور اسٹائل اداکارہ فنی دنیا میں 2004ء میں نمودار ہوئیں۔ پہلی بار ٹی وی ڈرامے میں کام کرتے وقت اس کے ذہن میں بالکل نہیں تھا کہ وہ ایک روز اداکارہ بنے گی۔ ٹی وی پر ڈرامے کی شوٹنگ دیکھنے کی غرض سے جانے والی اس لڑکی کو اچانک ہدایت کار شاہد پاشا نے اپنے ڈرامے میں جب ہیروئن کا کردار کرنے کو کہا، تو وہ چونک گئیں اور پھر اسے چیلنج سمجھ کر قبول کرلیا۔
قدرت صبا کو باد صبا بنا کر قمر کی وہ روشنی عطا کرنا چاہ رہی تھی، جس سے فن کا جہاں روشن ہوتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دیکھتے دیکھتے وہ سپراسٹار بن گئیں۔ پہلی بار ڈراما ’’میں عورت ہوں‘‘ میں جب ٹی وی کے ناظرین نے ان کی شان دار اداکاری دیکھی، تو ان میں چھپی ہوئی ایک بہت بڑی فن کارہ کو وہ بھانپ گئے۔ ٹی وی سے ماڈلنگ کی دنیا میں بھی صبا نے کام یابی سے اپنی انیگز مکمل کی۔ 2010ء میں ان کا ایک ٹی وی پلے ’’داستان‘‘ آن ائیر جو تقسیم ہند کے پس منظر میں بنایا گیا تھا۔ اس ڈرامے میں انہیں شان دار اداکاری پر پاکستان میڈیا ایوارڈ ملا۔ صبا قمر کو اصل شہرت 2011ء میں ’’تھکن‘‘ سے ملی۔ اس ٹی وی پلے میں وہ پہلی بار لیڈنگ رول میں آئیں۔
اس ڈرامے کی ملک گیر کام یابی نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس کے بعد مات، جو چلے تو جان سے گزر گئے، میں وہ اپنی عمدہ اور بے ساختہ اداکاری سے ابھریں۔ ان کی اداکاری میں دیکھنے والوں کو فن اداکاری کی وہ جھلک نظر آئی، جو کبھی ٹی وی پر روحی بانو، غزالہ کیفی، عظمیٰ گیلانی، کے کرداروں میں پائی جاتی تھی۔ ٹی وی اسکرین جو آج اپنے کئی چینلز کی وجہ سے ایک بہت بڑی دیکھنے والوں کی ریٹنگ رکھتی ہے، انہیں متاثر کرنا اور مطمئن کرنا خاصا مشکل کام ہے، لیکن صبا قمر نے اپنی اداکاری سے اس امر کو سہل کر دکھایا، جب لوگوں نے انہیں ’’کاش ایسا ہو‘‘ ’’اضطراب‘‘ نامی ڈراموں میں دیکھا تو ان کی فنی شخصیت کا جادو لوگوں پر سر چڑھ کر بولا۔
جیو نے 2013ء میں چند پاکستانی کلاسیک فلموں کا ری میک ٹیلی فلمز کی صورت میں بنایا۔ 1977ء میں ریلیز ہونے والی سپر ہٹ مووی ’’آئینہ‘‘ کا ری میک بھی بنایا گیا، جس کے لیے شبنم کے کردار میں صبا قمر کو کاسٹ کیا گیا۔ ’’ریٹا‘‘ کے اس ماڈرن اور امیر زادی کے کردار کو انہوں نے بہ حسن و خُوبی ادا کرکے بڑی داد پائی۔ اس ٹیلی فلم کے بعد ان کا فلمی کیرئیر شروع ہوا۔ سرمد کھوسٹ کی فلم ’’منٹو‘‘ میں صبا نے نور جہاں کے کردار کو اس ہنرمندی سے ادا کیا کہ وہ پوری فلم میں اپنے کردار سے متاثر کرتی نظر آئیں۔ یہ بائیو لائف فلم منٹو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنائی گئی،جو کمرشل پہلو سے ذرا ہٹ کر تھی۔
یہ فلم 2015ء میں ریلیز ہوئی۔ 2016ء میں صبا قمر کی فم ’’لاہور سے آگے‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ ایک تفریح سے بھرپور مزاحیہ فلم تھی، جس میں ان کی جوڑی ایک مزاحیہ اداکار یاسر حسین کے ساتھ بنائی گئی، جو ناکام رہی۔ اس فلم میں ہیرو کا انتخاب سرے سے غلط تھا، ورنہ اس فلم سے صبا قمر لاہور سے بہت آگے جاتے دکھائی دیں، جس کی تصدیق یوں ہوتی ہے کہ 2017ء میں بالی وڈ فلم ’’ہندی میڈیم‘‘ میں انہیں اداکار عرفان خان کے مدِمقابل لیڈنگ رول ملا۔ یہ طبقاتی نظام تعلیم پر مبنی ایک سپر بلاک بسٹر فلم تھی ، جس نے دنیا کے مختلف ممالک میں باکس آفس پر غیرمعمولی کام یابی حاصل کی۔ اس فلم میں صبا قمر کو شان دار اداکاری پر بھارت کے سب سے بڑے غیرسرکاری فلم ایوارڈ ’’فلم فیئر‘‘ کے لیے نامزد کیا گیا، جو ان کے لیے بہت بڑے اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے۔
صبا قمر نے چند شارٹ فلمز ٹی وی کے لیے کیں، جن میں دِل دیاں گلاں، اس دل کی ایسی تیسی اور کاجل کے نام شامل ہیں۔ صبا قمر نہ صرف سنجیدہ، رومانی کرداروں میں کام یاب رہیں،بلکہ وہ گلیمر اور مزاحیہ ٹائپ کرداروں میں بھی بے حد پسند کی گئیں۔ جیو کے شہرت یافتہ کام یاب ٹی وی پروگرام ’’ہم سب اُمید سے ہیں‘‘ میں ان کی شوخیوں اور مزاح سے بھرپور مختلف گیٹ اپ کو آج بھی ناظرین بھلا نہیں پائے۔ انہوں نے ہر طرح کے کردار کرکے اپنا نام ایک ور اسٹائل اداکارہ کے طور پر منوایا، جو اس سے قبل اداکارہ بابرہ شریف کے نام کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔
صبا قمر کسی کردار کو ادا کرتے وقت اس کردار کی گہرائیوں میں کھو کر اسے اپنے اوپر اس طرح سے طاری کردیتی ہیں کہ جیسے وہ کچھ دیر کے لیے صبا نہیں۔ وہ کردار ہے، جو اسے دیا گیا ہے۔ اگر کردار المیہ ہے، تو وہ اس کردار کے رنج و الم کو خود پر اس طرح سے جذب کردیتی ہے کہ نہ صرف اپنی آنکھیں نمناک کردیتی ہیں، بلکہ وہ آنکھیں بھی نمناک کردیتی ہیں، جو اس کردار کو دیکھ رہی ہوتی ہیں اور جب کردار میں مزاح کا عنصر شامل ہے، تو وہ اپنی صورت، انداز اور تکلم کو بھرپور مزاح کے ساتھ جب اسکرین پر پیش کرتی ہیں، تو قہقہے گونجنے لگتے ہیں۔
یہ کسی فن کار کے فن کی اصل بلندی ہے۔ صبا قمر کو اپنی شان دار فنی کارکردگی کے صلے میں 2012ء میں حکومت کی طرف سے تمغہ امتیاز ملا اور 2016ء میں وہ پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے نوازی گئیں۔ ان کا فنی سفر آج بھی جاری ہے ان کے مداح انہیں ہمیشہ ڈراما چیخ اور باغی، جیسے کرداروں میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔