• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حقوق ، حقوق ، حقوق ہر طرف صرف حقوق کی بات ہوتی ہے۔ فرائض کی بات کب ہوگی؟ انسانی حقوق کی انجمنیں ہر جگہ موجود ہیں ،آواز اٹھاتی ہیں اور بااختیار بھی ہیں۔ لیکن حقوق کا رونا پھر بھی موجود ہے۔ جبکہ انسانی فرائض کی انجمنیں کہیں نہیں ہیں۔ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔کیا حقوق وفرائض کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ کیا فرائض پورے کئے بغیر حقوق حاصل کئے جاسکتے ہیں؟ یقیناً یہ وہ سوال ہیں کہ جن کے جوابات سوچ لینے چاہئیں۔ حق کے لیے آواز کیوں اٹھائی جاتی ہے؟ یقیناً جب معاشرے میں کوئی مسئلہ پایاجاتا ہے تو۔ کیا مسائل اور برائی کے خلاف آواز اٹھادینے سے وہ مسائل اور برائیاں ختم ہوجاتی ہیں؟ کیا ان کی پبلسٹی سے ان کا وجود ختم ہوجاتا ہے؟ کیا مسائل کے حل تلاش کئے بغیر مسائل ختم ہوسکتے ہیں؟ بالکل اسی طرح معاشی برائیوں کے خاتمے کے لیے تجاویز سوچنی چاہئیںاور پھر ان تجاویز پر عمل درآمد کرکے ہی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ لیکن یہاں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ برائیوں کو عام کرکے برائیوں پہ قابوپالیا جائے گا۔ اسی لیے صرف حقوق حقوق کی گردان ہے فرائض کا کوئی ذکر نہیں۔ ایسے میں مسائل کا حل کیسے ہو؟ برائیوں کا خاتمہ کیسے ہو؟ غربت کے لیے بہت سی فلاحی تنظیمیں اور این جی اوز کام کررہی ہیں۔ غربت کو ایک بہت بڑا مسئلہ جاننا جاتا ہے۔ یقیناً ہے۔ لیکن آخر اس کی وجہ جاننے کی کبھی کوشش بھی کی گئی؟ دیہاتوں سے زیادہ یہ مسئلہ شہر وں میں ہے۔ جہاں فلاحی تنظیمیں اور این جی اوز غربت کے خلاف سرگرم ہیں۔ لیکن یہ غربت کا جن کنٹرول ہی نہیں کرپارہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ معلوم کیا جائے کہ یہ غربت کی وجوہات کیا ہیں؟ کیاان غریب لوگوں کے پاس کام (محنت کرنے کے) کے مواقع میسر نہیں ہیں؟ یا جو مواقع ان کو میسر آرہے ہیں وہ اس سے مطمئن نہیں اور اس لیے کام نہیں کررہے؟ کیا جو کام کررہے ہیں انہیں اپنے مالکان اور آجروں کی طرف سے شدید مالی دباؤ میں رکھاجاتا ہے۔ لہذا وہ محنت کے باوجود مین مارکیٹ سے اپنا حصہ نہیں لے پارہے ہیں ؟ کیا یہ غریب محنت کرنے کو تیارہیں چاہیے انہیں موقع ملے یا نہیں ۔ کیونکہ ان کی رائے یہ ہوتی ہے کہ جب بغیر کچھ کئے سب کچھ مل جاتا ہے تو محنت کرکے اپنا حصہ کم کرنے کی کیاضرورت ہے؟ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے ناسور ہیں، معیشت پر بوجھ ہیں اور اپنی غربت کارونا روتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ غربت کی اصل تعریف کیا ہے؟ کیا جس کے پاس کچھ کمائی نہ ہو وہ غریب ہے یا جو کمانا ہی نہ چاہتاہو وہ بھی غریب کی تعریف میںآتا ہے؟ کیونکہ کمانا اور معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا ہر شخص پر فرض ہے۔ لیکن ہمارے بہت سے لوگ معاشرے میں اپنا حصہ ڈالے بغیر معاشرے سے بہت کچھ ڈیمانڈ کرتے ہیں اور " مظلوم" کہلواتے ہیں۔ کیا شور مچانے، تشہیرکرکے، معیشت میں کوئی کام کئے بغیرغربت کے ظلم سے نجات مل سکتی ہے؟ ہاں وہ لوگ یقیناً مظلوم وغریب ہیںجنہیں اپنی محنت کرنے کے بعداپنا حصہ معاشرے ومعیشت میں ڈالنے کے باوجود کچھ مالی معاونت حاصل نہیں ہوتی یا جو اپنی معذوری(جسمانی یا ذہنی) کی بدولت بے بس ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے حقوق کی ضروربات ہونی چاہیئے۔ لیکن وہ جو اپنی غربت کو کیش کرواتے ہیں۔ مظلوم بننے کہ جو شوقین ہوتے ہیں ۔ ان سے ہمدردی۔۔۔ لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک واضح لکیر کھینچی جائے کہ مظلوم کی اصل تعریف اور غربت کی اصل پہچان کیا ہے ؟کیا یہ اپنی ذمہ داری ادا کرکے بھی ناکام ہیں یا صرف حقوق کی تلاش میں سرگرداںبغیر فرائض ادا کئے ہوئے ؟ کیونکہ اب "تقابلی غربت" Comparative porvertyاور absolute porverty" "مطلق غربت "کا فرق سمجھنا ضروری ہے!

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین