• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اویس

کراچی کے بازاروں میں رواں برس خشک میوہ جات کی قیمتوں میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن چلغوزے کی اونچی اڑان نےشہریوں کو پریشان کردیا ہے۔ شہرِقائد میں تقریباً سونے اور چاندی جتنا مہنگا 'چلغوزہ ٹھیلوں پر بکتا ہے۔چلغوزے کی قیمتوں میں اضانے نے شہریوں کو حیران اور دکانداروں کو پریشان کردیا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ پہلے یہ’ مونگ پھلی کی طرح‘ کھایا جاتا تھا، مگر اب یہ نایاب اور غریب آدمی کی دسترس سے بہت دور ہے ۔ آج کے بچوں کو تو اس کا ذائقہ تک معلوم نہیں۔

’’چلغوزے‘‘سونے اور چاندی سے زیادہ مہنگےکہ اب ان کی بھی چوری ہونے لگی

جیسا کے سب جانتے ہیں کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم بہت ہورہے ہیں ہر روزشہر قائد میں قیمتی موبائل یا پھر پرس چھینے جاتے ہیں لیکن اب ایک انوکھی واردات بھی سامنے آئی ہے۔یہ واقعہ شریف آباد کے علاقے میں رونما ہوا۔ یہاں کراچی کے متوسط طبقے کے لوگوں کی آبادی ہے۔ کچھ ہفتے قبل، شام کے سائے ابھی لمبے ہوئے ہی تھے کہ ایک گلی میں اچانک کچھ لوگوں کا شور بلند ہوا۔اس شور میں، ایک موٹر سائیکل کو تیزی سے دوڑتے، بریک چرچرانے اور انجن کے 'گھوں گھوں کی آواز بھی شامل تھی، جو غالباً ایکسی لیٹر کو یکدم گھومانے سے پیدا ہوتی ہے۔

اس کےسب سے زیادہ بیوپاری ایمپریس مارکیٹ، واٹر پمپ اور جوڑیا بازار میں نظر آتے ہیں

واقعہ آناًفاناً ہوا۔ شام معمول کے مطابق آگے بڑھ رہی تھی، گلی میں لوگوں کا آنا جانا بھی عام دنوں جیسا ہی تھا اور روٹین کے مطابق ہی گلی کے ایک کونے پر ڈرائی فروٹ بیجنے والےکا ٹھیلا بھی مونگ پھلی، گجک، پستہ، تل والے لڈو، گٹر کی پٹی، انجیر، اخروٹ، چلغوزے اور بادام سمیت مختلف سردی کے میووں سے لدا ہوا تھا کہ اچانک دو موٹر سائیکل سوار گلی کے دوسرے کونے سے داخل ہوئے اور بہت تیزی سے ٹھیلے کی طرف بڑھنے لگے۔

متعدد لوگوں نے موٹرسائیکل کی غیر معمولی تیز رفتار کو نوٹس کیا، لیکن، جتنی دیر میں سب معاملے کی تہہ تک پہنچتے دونوں نوجوان ٹھیلے کے قریب پہنچے، موٹر سائیکل کی رفتار کچھ لمحوں کے لئے دھیمی ہوئی، ڈرائیور کے عقب میں بیٹھے نوجوان نے پلک جھپکتے ہی ٹھیلے پر رکھے ایک وزنی تھیلے پر جھپٹا مارا اور دونوں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ تنگ گلیوں کی بھول بھلیوں میں غائب ہوگئے اورٹھیلے والا خان پہلے تو ہکا بکا رہ گیا پھر جب بات سمجھ میں آئی تو کچھ دور تک وہ ان کے پیچھے بھاگا، مگر پھرناکام واپس لوٹ آیا ، بھلا وہ اس کے کہاں ہاتھ آتے، وہ تو موٹر سائیکل پر تھےدیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہوگئے۔ 

اس دوران، لوگوں کی اچھا خاصارش ٹھیلے کے اردگرد جمع ہوگیاتھا ۔سب کو یہی تشویش تھی کہ آخر اس ٹھیلے میں تھا کیا جو اس واردات کا سبب بنا۔لوگوں کے پوچھنے پرٹھیلے والے نے بتایا کہ تقریباً پانچ چھ کلو چلغوزے تھے۔

”چلغوزے۔۔۔“ تمام لوگ تقریباً بلند آواز میں چیخے، پھر یکدم ان کےچہروں پر مسکراہٹ آگئی۔

پانچ یا چھ کلو چلغوزے کی مالیت ایک عام قیمتی موبائل سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔ چلغوزہ انتہائی بلندی کو چھوتا ہوا 8 ہزار روپے کلو کی ہوش ربا سطح پر پہنچ گیا، ایک کلو چلغوزے میں موجود دانوں کے حساب سے ایک چلغوزے کی قیمت سوا 2 روپے ہو گئی ہے۔ اس لحاظ سے پانچ یا چھ کلو چلغوزوں کی مالیت کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں،جبکہ چھلا ہوا چلغوزہ 14 ہزار روپے کلو کے حساب سے دستیاب ہے۔چلغوزے کی قیمت دانوں کے حساب سے پرکھی جائے گی یہ کبھی کسی نے ماضی قریب میں سوچا بھی نہیںہوگا۔ اس صورتحال میں عام آدمی چلغوزے کے مزے صرف ’خیالی دنیا‘ میں ہی اٹھا سکتا ہے۔

بے چارے ٹھیلے والے کا کئی مہینوں کا منافع نکل گیا۔ لگتا ہے اب چلغوزے کے ٹھیلوں پر بھی سیکورٹی گارڈ رکھنا پڑے گایاگاڑی کی طرح چلغوزوں ے کا بھی انشورنس کرانا پڑے گا۔ایک اور بڑا واقعہ جنوبی وزیرستان میں پیش آیا ڈاکوؤں نےوانا میں واقع گودام سے 23 بوری چلغوزے اٹھا کر لے گئے جن کی مالیت مارکیٹ ریٹ کے مطابق تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ بنتی ہے۔حد ہوگئی یہ خبر پڑھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ، کیاچلغوزوں کے سامنے ہیرے جواہرات کوئی معنی نہیں رکھتے؟مہنگائی ہر سو ہے اور ہمیشہ رہی ہے لیکن شاید اب تباہ کن مہنگائی کا دور آگیا ہے، مہنگائی کے سبب میاں چلغوزے کی قیمت ایک دانے کے حساب سے سوچی جائے گی ۔

گزری بسری یادیں ہیں جب سردی کی راتوں میں لحاف اور گدوں میں بیٹھ کر سارا سارا گھرانا چلغووں ،مونگ پھلی اور گجک کامزا لیتا تھا،مگر اب وہ دن تو جیسے پر لگا کر اُڑ گئے ہیں۔

کراچی میں چلغوزوں کے سب سے زیادہ بیوپاری ایمپریس مارکیٹ، واٹر پمپ اور جوڑیا بازار میں نظر آتے ہیں، جبکہ شہر کی درجنوں مارکیٹس اس کے علاوہ ہیں ،جہاں ڈرائی فروخت من مانی قیمتوں پر فروخت ہوتا ہے۔پاکستان میں چلغوزے کے درخت شمالی علاقہ جات، بلوچستان، چلاس، گلگت، پارا چنار، وانا گستوئی، ژوب اور استور کی وادیوں میں پائے جاتے ہیں۔یہ درحقیقت ان درختوں کا بیج ہے اور خشک میوے کے طور پر دنیا بھر میں کھایا جاتا ہے۔ 

اس کے درخت سطح سمندر سے دو، دو ہزار فٹ کی بلندی پر اگتے ہیں، جبکہ بلوچستان کے علاقے ژوب کی تحصیل شیرانی میں تو یہ درخت تین ہزار چار سو ستاسی میٹر بلندی پر پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کے لئے تقریباً کئ گھنٹے کا دشوار گزار اور خطرناک راستہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ کراچی پہنچنے تک ان کی قیمت تگنی، چوگنی ہوجاتی ہے۔

تحصیل شیرانی دنیا کے سب سے بڑے، گھنے اور خالص چلغوزے کے جنگلات کا ’آبائی وطن‘ ہے۔یہ جنگلات 25ہزار ہیکٹر سے بھی زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ چلغوزے کے درخت کی اوسط عمر 100 سال بتائی جاتی ہے۔

تازہ ترین