انسانی تاریخ پر نظر رکھنا اورعالمی ایشوز کو زیرقلم لانا میرا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے، جب بھی مجھے بیرون ملک دورے کا موقع ملتا ہے یا کسی دوسرے ملک کی کوئی خبر میری نظر سے گزرتی ہے ، میں سوچتا ہوں کہ آخر دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہم ترقی کی دوڑ میں کیوں شامل نہیں ہوتے، اپنا ہفتہ وار کالم لکھنے کیلئے متعدد عالمی موضوع میرے ذہن میں آرہے تھے لیکن میں نے پاکستان سےمحبت پر لکھنے کو ترجیح دی۔وطن سے محبت کی تلقین دنیا کے ہر مذہب نے کی ہے۔ ہندو دھرم میں دھرتی ماتا کو سب سے مقدس مانا جاتا ہے، رامائین میں جابجااپنی سرزمین سے عقیدت و احترام کا اظہار کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک ہند و جس ملک اور جس علاقے کا باسی ہو، وہ اپنی دھرتی سے شدت سے محبت کرتا ہے اور اس کی آن بان کیلئے جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ قائداعظم کی زیرقیادت تحریک پاکستان کے ہمارے بڑوں نے دوقومی نظریہ کی بدولت انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی تو پاک سرزمین میں بسنے والے محب وطن ہندو شہریوں نے پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا بنالیا، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ہندو کمیونٹی کی بے شمار خدمات ہیں، پاکستانی ہندو جوان ملکی دفاع و سربلندی کیلئے بھی بہادر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ قربانیوں کی داستانیں رقم کررہے ہیں۔قائد اعظم نے ہمیں اس پیارے وطن کا بے مثال تحفہ دیا لیکن آخر ہم اسے سنوارنے میں کیوں کامیاب نہیں ہورہے ؟ اس حوالے سے مجھے مختلف فورمز پر اخلاقیات اورپاکستانیت جیسے موضوعات پر ا پنے خیالات اظہار کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔مجھ سے ہر تقریب میں سب سے زیادہ یہی سوال کیا جاتا ہے کہ آپ ہمیں تو بہت لیکچر دیتے ہیں لیکن کیا آپ اپنے پارلیمنٹ کے ساتھی ممبران کو بھی ایسی نصیحتیں کرتے ہیں؟ میری نظر میں پارلیمنٹ ایک بہت مقدس ادارہ ہے اور مجھے جب بھی موقع ملتا ہے میں اپنے ساتھی پارلیمنٹیرینز سے بھی اخلاقیات کے حوالے سے بات کرتا ہوں، میں بطور پاکستانی ہر ایک سے اپنے خیالات شیئر کرتا ہوں کہ ہمیں صوبائیت، لسانیت اور مذہبی وابستگی سے بالاتر ہوکر پاکستانی بن کر بات کرنی چاہئے لیکن مجھے نہایت افسوس ہوتا ہے جب پارلیمنٹ جیسے مقدس فورم پر ایک طرف چور اور ڈاکو کے نعرے گونجتے ہیں تو دوسری طرف نالائق، نا اہل اور سیلکٹڈکے طعنے دیئےجاتے ہیں۔ میںدل و جاں سے سمجھتا ہوں کہ عوام کے نمائندے کچھ اراکین اسمبلی کا یہ ناپسندیدہ رویہ معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کی ارد گرد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو بدقسمتی سے اس وقت کچھ ڈاکٹرزمریضوں کا علاج کرنے کی بجائے ہڑتال پر ہیں، چندوکیل قانون کے بادشاہ بن کر وکلاء گردی کر رہے ہیں،ا سٹوڈنٹس اپنی توجہ حصول تعلیم پر مرکوز کرنے کی بجائے سڑکوں پرمارچ کررہے ہیں، ہر طرف افراتفری کا سماں ہے جو معاشرے کے مختلف مکاتب فکر کے مابین دوریاں بڑھا رہا ہے۔مہذب معاشرے کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپناتے ہوئے مثبت سوچ کے ساتھ تمیز اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے دلائل کے ساتھ بات کی جاتی ہے ، ہمارا مذہب بھی دوسرے انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے کہ آپ اپنے سے بڑوں سے احترام سے بات کریں، چھوٹوںسے شفقت سے پیش آئیں،خواتین کے ساتھ عزت کا رویہ رکھیں،بوڑھے ،محتاجوں،غریبوں کاخاص خیال رکھیں۔ اگر ہم اخلاقیات کی ان باتوں پر کان نہیں دھریں گےاور اپنی ہی ڈگر پر گامزن ر ہیںگے توہمارے معاشرے میں منفی رحجانات فروغ پائیں گے۔حالیہ اسٹوڈنٹس مارچ نے مجھے اپنا کالج لائف کا وہ زمانہ بھی یاد دلا دیا جب ہمارے تعلیمی اداروں میں طلباء سیاست کے نام پر غنڈہ گردی ہوا کرتی تھی اور تعلیمی اداروں میں پڑھائی کم اور دنگے فساد زیادہ ہوا کرتے تھے۔بے شک طلباء کا تحریک پاکستان میں بڑااہم اور کلیدی کردار ہے، قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے طلباء کو یہ نصیحت کی کہ تمام اسٹوڈنٹس پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے حصول تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔بلاشبہ آج جتنے ملک ترقی یافتہ ہیںاور جتنے ترقی کی طرف گامزن ہیں،ان تمام ممالک نے قوم سازی کو خاص اہمیت دی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ہمارے بزرگوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پرپاکستان حاصل کیا تھا،اسی طرح آج پاکستان کوسنوارنے کیلئے ہمیں ایک قومی نظریہ کی اشد ضرورت ہے جس کی رو سے پاکستان میں صرف ایک قوم بستی ہے اور وہ ہے پاکستانی۔ پاک سرزمین میں بسنے والے جتنے بھی لوگ ہیں چاہے وہ کسی بھی صوبے ، شہر،قبیلے میں رہتے ہوں، وہ کسی بھی برادری یا کسی بھی مذہب سے ہوں، ان سب کی شناخت بطور پاکستانی ہونی چاہئے۔ یہی بات قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں کہی تھی کہ پاکستان کے تمام شہری صرف اور صرف پاکستانی ہیں، ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ کی وابستگی کس کے ساتھ ہے لیکن ملکی ترقی میں آپ سب کو مل کر آگے بڑھنا ہو گا۔ آج پاکستان کی علاقائی صورتحال کشمیراور افغانستان پرخصوصی توجہ درکار ہے، ایران کیساتھ ہماری سرحد تنائو کا شکار رہتی ہے، ہماری معیشت خطے کی سب سے کمزور معیشت ہے، ایسے نازک حالات میںپوری پاکستانی قوم کے باشعورافراد بشمول ڈاکٹر، انجینئر، سول سوسائٹی، میڈیا سب کو ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے، اسٹوڈنٹس کو قائداعظم کے فرمان کے مطابق تعلیم کو اپنی ترجیح بنانا چاہئے، حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو آپس میں الجھنے کی بجائے مل بیٹھ کر پاکستان کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ میرے اس ایک قومی نظریہ کے پیغام کو مثبت سوچ اور اپروچ کے ساتھ سمجھا جائے گا اورہم سب باہمی طور پر ترقی کی دوڑ میں اس عزم کیساتھ قدم آگے بڑھائیں گے کہ پاکستان میں صرف ایک قوم بستی ہے جو صرف اور صرف پاکستانی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)