• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
لوٹن سٹوک آن ٹرینٹ میں پیدا اور پروان چڑھے عثمان خان جن کو حالیہ لندن برج پر تشدد واقعہ جس میں دو افراد زندگی کھو بیٹھے کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے کو گزشتہ ویک اینڈ کلجلانی ضلع کوٹلی آزاد کشمیر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ جس طریقے سے پولیس نے عثمان خان کو پرتشدد عمل سے ڈیل کیا ہے جو احباب انگریزی اخبارات پڑھتے ہیں اور انگریزی نیوز چینلز سے خبریں سنتے ہیں ان میں سے بھاری اکثریت واقعہ کی تصاویر دیکھ کر یہ یقین کرتے جا رہے ہیں کہ عثمان کو زندہ گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ اگرچہ اپنی کمیونٹی کے جس فرد سے بات کی جائے ۔ یہی رائے سامنے آتی ہے کہ پولیس نے اسے زندہ پکڑنے میں کم دلچسپی دکھائی اور ختم کرنے میں زیادہ۔ ایسا سوچنے والا ہر کوئی نہ تو اس کے خاندان یا اس کی تنظیم سے وابستہ ہے۔ البتہ قانون کے مطابق چلنے والے برطانو ی معاشرہ میں افراد کی جانوں کی قدر کی جاتی ہے۔ مگر یہاں ٹارگٹ کلنگ کی سفاکی نظر آئی۔ پولیس کو اس کی شوٹنگ سے کس طرح علم تھا کہ اس کے جسم پر کام کرنے والا بم لپیٹا ہوا تھا؟ اور انہیں اس کے پھٹ جانے کا خدشہ تھا؟ جو حقیقت میں فیک تھا۔ واقع اور جگہ کی اہمیت اپنی جگہ۔ اس کے باوجود وہ دو بڑے چھروں کے ساتھ ہال کے اندر پہنچ جاتا ہے۔ کوئی اسے وقت سے قبل چیلنج نہیں کر پاتا اور واقعہ ہو جاتا ہے؟ یہ ایک ایوریج فرد کیلئے ایک سمجھ سے بالاتر سناریو ہے۔ یہ ایک سے زیادہ افراد پر مشتمل سازش ہو سکتی ہے۔ جو کسی حد تک کامیاب ہوئی؟ تحقیقات کرنے والے ہی جواب دے سکتے ہیں ایسے تمام واقعات کی اصل حقیقت جاننے کیلئے برطانیہ میں Inquesyکا تحقیقی نظام موجود ہے۔ ضرورت پڑنے پر قبر کشائی بھی کی جا سکتی ہے۔ مگر عثمان کی باڈی تو کجلانی میں مدفون ہے؟ کوئی Inquesyایک دوسرے ملک میں کس طرح اپنی قانونی ضروریات سے نمٹ سکے گی؟ قانون دانوں، عوام، خاندان والوں کیلئے ایک معمہ ہے؟ میرے محدود تحقیق کے نتیجے میں مجھے اگر ایک سوال کا جواب ملا ہے تو ا سکے ساتھ دو مزید کھڑے ہو گئے ہیں۔ خاندان قبیلہ کے لوگوں کی گھبراہٹ اور پریشانی قابل فہم بھی ہے اور ہماری ہمدردی کی مستحق بھی۔ عثمان کے قریبی رشتہ داروں کیلئے ٹرامیٹک صورتحال ہے۔ جسے ایک دوسرے کی ہمت بندھانے سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ یقیناً خاندان کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو اس معاملہ کو احسن طریقے سے ہینڈل کرنے کے اہل ہیں کہ وکلا کی ایک ٹیم تشکیل دیکر تمام امور کو دیکھا جائے خاندان کے علاوہ مقامی اور قومی سطح پر اپنی کمیونٹی اس حوالے سے پرعزم رہے کہ عثمان کے تمام معاملات برطانوی قانون قاعدے کے مطابق ہینڈل ہوں۔ 8دسمبر کے برطانوی اخبار The Sunday Timesکے مطابق عثمان کی میت اس ہفتے "Was Secrectly Flown For Burial at Kajlani, in Pakistani Controled Kashmir"سارا خاندان یہاں عثمان کے تمام ملنے جلنے والے یہاں۔ وہ پیدا یہاں ہوا اور اسے یہاں ہی دفن ہونا چاہئے تھا تاکہ تمام قانونی اور فطری تقاضے پورے ہوجاتے حکومت اور میٹرو پولیٹن پولیس کو اپنے اس اقدام کی فوری وضاحت کرنے کی ضرورت ہے میت کی تدفین کیلئے معاملات کس طرح طے ہوئے یقیناً کس نہ کسی مرحلے پر برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو بھی Involveہونا پڑا ہو گا۔ پاکستان دہشت گردوں کیلئے زندہ یا مردہ شکل میں ڈمپنگ گرائونڈ نہیں بنایا جا سکتا۔ اور پاکستان کو یہ میت قبول کرنے سے انکار کر دینا چاہئے تھا۔ کیا یہاں معاملہ اس طرح تھا کہ برطانیہ حکومت عثمان کی تدفین اس کے آبائی سٹوک آن ٹرینٹ میں برداشت نہیں کرسکتی تھی کیونکہ حکومت کو ڈر تھا کہ اس کی قبر جہادیوں کیلئے ہمیشہ کیلئے توجہ کا مرکز بن جائے گی جو لا اینڈآرڈر کی صورتحال پیدا کرتی رہے گی؟ اس لئے حکومت پاکستان سے معاملات طے کر لئے گئے ہیں کہ وہ ملک جو دہشت گردی کا ٹارگٹ ہے اور اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ ایک برطانوی کشمیری النسل دہشت گرد کو اپنی زمین پر تدفین کیلئے جگہ دیکر برطانیہ کو احسان مند کر دے؟ یہ بھولتے ہوئے کہ کل یہی مغربی ممالک کہیں گے کہ پاکستان دنیا بھر کے کشمیری دہشت گردوں کا مسکن ہے؟ جہاں یہ معاملہ عثما ن کے خاندان کا ہے اس سے کہیں زیادہ برطانوی کشمیر کمیونٹی کا بھی ہے جسے اس کے ایکشنز کے نتائج سے نمٹنا پڑے گا برطانوی حکومت اگر عثمان خان کو دہشت گردی کے حوالے سے اتنا اہم سمجھتی تھی کہ اس نے اس کے ملک میں دفن کرنے سے انکار کی وجوہات پیدا کر لیں تو عثمان کو بھی سمندر برد کیا جا سکتا تھا ایسا بھی نہیں کیا جا سکا۔ کمیونٹی واقفان حال کے مطابق رازدارانہ طریقہ سے دو درجن بھر رشتہ داروں کیلئے بہت کم وقت میں برمنگھم سے فلائٹ کا بندوبست کر دیا گیا جس میں عثمان کی میت پاکستان جا رہی تھی۔ کجلانی کے جنازہ میں مقامی لوگوں نے سرکاری حفاظتی انتظامات میں جنازہ میں شرکت کی۔ پاکستان کس طرح اس معاملہ کا حصہ بنا دونوں ممالک میں ایک معمہ ہے۔ حکومت کا جوبھی بیانیہ ہو وہ لوگوں تک پہنچنا چاہئے اسے واقعات پر پراسرار خاموشیاں آسانیاں نہیں دشواریاں پیدا کرتی ہیں۔ یہ حکومت مزید دشواریاں نہیں سنبھال سکتی۔ لندن واقعہ پر جتنا غور کیا جائے معاملہ زیادہ الجھتا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے اتنے بڑے واقعہ کے بعد برطانوی پریس کی فوری خاموشی جیسے کہ یہ کوئی ٹریفک واقعہ تھا او ر دوسرے دن میڈیا دوسری اسٹوریز سے جڑ جاتا ہے بھی دوسرے ٹیرر ازم واقعات سے مختلف اپروچ ہے ایسے تمام معاملات پر سوال وجواب ایک Inquesy پر ہی پبلک کے سامنے آسکتے ہیں۔ میں سازشی تھیوریز میں یقین نہ رکھنے والا فرد ہوتے ہوئے بھی عثمان کیس میں ایک سے زیادہ ایسی تھیوریز کی موجودگی دیکھتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ برطانوی جسٹس سسٹم کسی نہ کسی شکل میں عوام اورخاندان کو تمام حوالوں سے مطمئن کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ریڈیکلائزیشن برین واشنگ اور متنازع اقدامات سے اوپر اٹھتی ہے نہ کہ کم ہوتی ہے حکومت ٹیرر ایشوز سے ڈیل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور نتیجہ یہ ہے کمیونٹی کا ہر فرد کسی نہ کسی حد تک ریڈیکلائز ہو چکا ہے ایک راستہ گفت وشنید کے دروازے کھولنے کا ہے اور دوسرا موجودہ روش جاری رکھنے کا ہے۔ فیصلہ حکومت کا ہے۔
تازہ ترین