• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو سینہ فگار یادوں کے زخم کھل جاتے ہیں۔ مجھے 11دسمبر 1971کی وہ صبح اچھی طرح یاد ہے جب میجر جنرل (ر) امراؤ خان نے مجھے فون پر راولپنڈی چلنے کی دعوت دی تھی۔ وہ جی ایچ کیو جا کر یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ہماری فوجیں بھارت کے اسٹرٹیجک مقامات کی طرف پیش قدمی کیوں نہیں کر پائی ہیں۔ 

اُنہوں نے 1957-58میں مشرقی پاکستان کی ڈویژن کی کمان کی تھی اور وہاں کے فوجی معاملات اور بھارتی سازشوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ ہم شام ڈھلے منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ مَیں نے اپنے عزیز دوست میجر (ر) غلام مصطفیٰ شاہین کے ہاں اسلام آباد میں قیام کیا جبکہ جنرل امراؤ اپنے فوجی دوست کے ہاں راولپنڈی چلے گئے تھے۔ 

میجر مصطفیٰ شاہین ڈھاکا میں فوجی خدمات سر انجام دے چکے تھے اور میرا بھی مشرقی پاکستان بہت جانا لگا رہتا تھا، اِس لیے ہم تازہ ترین حالات پر نصف شب تک تبادلۂ خیال کرتے رہے۔ 

دوسرے دن جنرل امراؤ خان سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے بڑے افسردہ لہجے میں بتایا کہ جی ایچ کیو پر شدید انتشار کی کیفیت طاری ہے اور حالات بڑے مخدوش نظر آتے ہیں۔ اُن کی باتیں سن کر ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور ہم نے مزید کچھ روز ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔

مَیں نے 13دسمبر کی صبح جناب نورالامین کو فون کیا جو پاکستان کے وزیرِاعظم نامزد کیے جا چکے تھے اور ایسٹ پاکستان ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔ اُنہوں نے فوراً چلے آنے کے لیے کہا۔ 

مَیں اور میجر صاحب اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ سخت پریشان دکھائی دیے۔ اُنہوں نے بتایا کہ مشرقی پاکستان سے تشویشناک خبریں آ رہی ہیں کہ بھارتی گوریلے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بڑی تعداد میں میمن سنگھ کے عقب میں اُتر چکے ہیں اور ڈھاکا کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ 

وہ اِس خطرناک صورتحال کو فوری طور پر جنرل یحییٰ خان کے علم میں لانا چاہتے تھے۔ ملٹری سیکرٹری سے ملاقات کا وقت لیا اور ہم تینوں ایوانِ صدر پہنچ گئے۔ جنرل یحییٰ سے ملاقات ہوئی اور اُنہیں تازہ ترین حالات سے مطلع کیا گیا۔ اُنہوں نے حالتِ سرشاری میں کہا، پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ بھارتی نہیں چینی گوریلے ہیں جو ہماری مدد کو پہنچے ہیں۔ ہم بوجھل دِلوں سے واپس چلے آئے کہ وہ اقتدار نشے میں چُور تھا۔

سقوطِ مشرقی پاکستان پر 48برس گزر چکے ہیں، مگر احساس کا شعلہ سرد نہیں ہوا، کیونکہ ایک تو پاکستان کے دولخت ہو جانے کا دکھ کسی نہ کسی حوالے سے تازہ رہتا ہے، دوسرا دکھ اُن لاکھوں غیور پاکستانیوں کا ہے جو بنگلا دیش میں محصور ہیں اور بڑی کسمپرسی کی زندگی کاٹ رہے ہیں۔ 

سب سے بڑا غم یہ ہے کہ ہم نے اِس قدر اَلمناک حادثے سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اُسی راستے پر تمام تر توانائیوں کے ساتھ رواں دواں ہیں جو نفرتوں، گہری مخاصمتوں اور تباہ کُن خانہ جنگیوں کی طرف جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ کربِ عظیم بھی ہر خوشی کو چاٹ رہا ہے کہ ہماری غیرت کو کیا ہوا کہ اپنے شہریوں سے یکسر بیگانہ ہیں۔ 

یہ بے آسرا لوگ جنہیں ’بہاری‘ کہا جاتا ہے، اُنہوں نے مشرقی پاکستان کی تعمیر و ترقی میں زبردست کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان وجود میں آیا، تو قائدِاعظم کی دعوت پر غیر بنگالیوں کی اکثریت نے پاکستان جانے کا آپشن اختیار کیا اور مشرقی پاکستان میں آکر پورا حکومتی نظم و نسق اور ریلوے کا نظام سنبھالا اور پٹ سن اور کاغذ کے کارخانے لگائے۔ 

وہ پاکستان کی نظریاتی شناخت کے ساتھ پوری طرح جڑے ہوئے تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے 1966ء میں بنگلہ قومیت کی تحریک شروع کی تو اِن غیر بنگالیوں نے اس کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستانی قومیت کا پرچم سنبھالے رکھا۔

دسمبر 1970کے قومی انتخابات میں عوامی لیگ نے دہشت گردی کے ذریعے دو کے سوا تمام نشستیں جیت لیں اور قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے پر بہاریوں کا قتلِ عام شروع کر دیا اور پانچ لاکھ سے زائد موت کی نیند سلا دیے۔ بنگلا دیش وجود میں آیا تو مکتی باہنی نے بہاریوں کو اُن کے گھروں سے نکال کر کھلے میدانوں میں پھینک دیا۔ ریڈ کراس انٹرنیشنل نے اُن کے 67عارضی کیمپ قائم کیے۔ 

ان بہاریوں نے وطن کے ساتھ وفاداری کا پیمان نبھاتے ہوئے بنگلا دیش کی شہریت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ اپنا تعلق پاکستان سے قائم رکھنا چاہتے تھے۔ مجھے تین بار بنگلا دیش جانے اور بہاریوں کے کیمپ دیکھنے کے مواقع ملے۔ اُن سے بدبو کے بھبکے آ رہے تھے اور مَیں دس پندرہ منٹ سے زائد وہاں ٹھہر نہیں سکا مگر ان کے مکین اپنے فیصلے پر ثابت قدمی سے قائم اور پاکستان کی عظمت کے لیے دعاگو تھے۔

جنرل ضیاء الحق نے اِن عظیم پاکستانیوں کی واپسی میں ایک فعال کردار ادا کیا۔ رابطۂ عالم ِ اسلامی کے ساتھ مل کر ٹرسٹ قائم کیا۔ وہ خود اِس ٹرسٹ کے چیئرمین اور سعودی ولی عہد وائس چیئرمین بنے۔ 

رابطۂ عالم ِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل جناب عمر عبداللّٰہ نصیف اِس معاملے میں گہری دلچسپی لیتے رہے۔ بڑی رقوم بھی جمع ہوئیں اور طے پایا کہ بہاریوں کو پنجاب میں آباد کیا جائے گا۔ 

وزیرِاعلیٰ پنجاب جناب غلام حیدر وائیں نے میاں چنوں میں اُن کے لیے مکانات بھی تعمیر کیے اور بہاریوں کے کچھ خاندان پاکستان بھی آئے، مگر یہ سلسلہ آگے نہ چل سکا۔ جنرل پرویز مشرف نے پوری بساط ہی لپیٹ دی اور چیئرمین شپ سے مستعفی ہو گئے۔ 

سچے پاکستانیوں کو خوف اور بے سرو سامانی میں زندگی بسر کرتے ہوئے پچاس برس ہونے کو آئے ہیں۔ وہ اَب اپنے مستقبل سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں اور بار بار پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ 

پاکستانی غیرت مند قوم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے پچھلے دنوں افغانیوں اور غیر قانونی بنگالیوں کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔

اُنہیں رابطۂ عالم ِ اسلامی اور پاکستانی تارکینِ وطن کے تعاون سے بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کو اپنے وطن لانے کے لیے بڑی سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنی چاہئے کیونکہ غیرت مند قومیں اپنے ایک ایک شہری کی عزت اور وقار کی حفاظت بڑی مستعدی اور ذمہ داری سے کرتی ہیں۔

تازہ ترین