• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سات اعلیٰ عدالتوں کے141 ججوں میں سےخواتین جسٹسز کی تعداد چھ ہوگئی

اسلام آباد (طارق بٹ) لبنیٰ سلیم پرویز کے بطور اسلام آباد ہائی کورٹ جج حلف اٹھانے کے ساتھ ہی تمام 7 اعلیٰ عدالتوں میں خواتین جسٹسز کی تعداد چھ ہوگئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں 141 جج خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ خواتین کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ پاکستان میں خواتین کی آبادی تقریباً مردوں کے برابر ہے۔ ججوں کی اس کیٹگری میں خواتین کی فیصد سے غالباً خواتین وکلاء کی شرح کی نشاندہی ہورہی ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح اس پیشے میں بھی مردوں کا غلبہ ہے۔ کئی خواتین قانون میں گریجویشن کرتی ہیں لیکن اس پیشے کو اختیار کرنے کو ترجیح نہیں دیتیں۔ چند سال قبل اپنے آغاز سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلی مرتبہ خاتون جج آئی ہیں جبکہ ان کے ساتھ دو دیگر فیاض انجم اور غلام اعظم نے بھی ججوں کی حیثیت سے حلف اٹھایا جس سے ججوں کی مجموعی تعداد سات ہوگئی ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے انور کاسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد صرف چار جسٹسز کو کو کام کے بوجھ سے نمٹنا پڑے گا۔ سیاسی نوعیت کے بہت سے ہائی پروفائل مقدمات جن میں بڑے سیاستدان شامل ہیں بشمول سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور کئی دیگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ سن رہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے مجموعی جسٹسز کی تعداد 45 ہے جن میں صرف 2 خواتین ججز عائشہ اے ملک اور عالیہ نیلم شامل ہیں۔ اسی طرح سے سندھ ہائی کورٹ میں 38 جسٹسز ہیں جن میں صرف 2 خواتین ججز کوثر سلطانہ حسین اور راشدہ اسد شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کے 17 جج، بلوچستان ہائی کورٹ کے 10 جج اور وفاقی شریعت کورٹ کے چار ججز میں ایک بھی خاتون جج نہیں۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ میں دو ایڈہاک ججز جسٹس محمد الغزالی اور جسٹس خالد مسعود ہیں۔ تمام صوبوں کی ماتحت عدلیہ میں بھی ججوں کی بہت کم تعداد ہے۔ یہ درجہ سول ججز یا ایڈیشنل سیشن ججز کی حیثیت سے تقرر کئے جانے کیلئے امتحان میں حصہ لینے کے لئے مرد اور خواتین وکلا کے لئے یکساں طور پر کھلا ہے۔ تاہم اعلیٰ عدالتوں میں وکلاء اور سینئر ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی شمولیت پہلے چیف جسٹس کی جانب سے انتخاب کے ذریعے ہوتی ہے اور پھر جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایسی تقرریوں کو کسی تحریری امتحان یا انٹرویو سے گزرنا نہیں ہوتا۔ صرف حال ہی میں پارلیمانی کمیٹی، جس کے پاس کم اختیارات ہیں، نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کی جانب سے سفارش کئے گئے ججوں کے انٹرویوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تازہ ترین