• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کارو آھیں‘‘یہ وہ لفظ ہے جس کو سننے کے بعد سامنے والے کی نیندیں حرام اور خواب میں بھی کلہاڑی یا بندوق نظر آتی ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سندھ میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی ابتداء اس جملے سے ہوتی ہے اور الزام کی زدمیں آنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی صفائی میں ثبوتوں کے ساتھ اس الزام سے بری ہو دوسری صورت میں قتل ہونا اس کا مقدر ہوتا ہے یا بھاری جرمانہ۔ اگر الزام کی زد میں آنے والا معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں تو بات کروڑوں روپےتک پہنچ جاتی ہے اور اگر اس کی معاشی حالت کمزور ہو تو اسے عوض میں اپنی بچیاں تک الزام لگانے والے کے حوالے کرنا پڑتی ہیں۔ 

ان بچپوں کی جوکہ کاری کے الزام کی زد میں آنے والے کی بیٹیاں یابہنیں ہوتی ہیں، مخالفین کے گھر میں کس قدر اذیت اور غلامانہ ماحول میں زندگی گزارتی ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں نا ممکن ہے۔ تاہم بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ کاروکاری کی اس رسم کا خاتمہ اب بھی دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ کاروکاری کے الزام کے سلسلے میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ اپنے پیاروں کو بجانے کے لئے دوسرے کے گلے میں پھندا ڈال دیا جاتا ہے اور اس کو بھگتے بھگتے نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔

گزشتہ دنوں تھرڈایڈیشنل سیشن اینڈ ماڈل کریمنل کورٹ ون نے قتل کا جرم ثابت ہونے پر پانچ ملزمان کو پھانسی کی سزا اوران پر دو دو لاکھ روپیہ جرمانہ عائد کیا۔ماڈل کریمنل کورٹ شہید بے نظیر آباد کے جج آصف مجید قریشی کی عدالت نے وزیر علی بھنگوار،ذوالفقار بھنگوار ، میر خان بھنگوار، میر صاحب بھنگوار اور عاشق بھنگوار کو سزاسنائی۔ 

استغاثہ کے مطابق ملزمان نے گپچانی تھانے کی حددود میں گوٹھ شاہ بیگ گدارو میں اسکول کی چھت پر سوئے ہوئے دو افراد شہمیر خان گدارو اور قادر بخش گدارو کوقتل کر دیاتھا، جبکہ حملے کے وقت فداحسین گدارو بچ نکلا تھا اس دوہرے قتل کے پس منظر کے بارے میں بتایا جاتاہے کہ گوٹھ خاوند بخش بھنگوار عرف ڈیڑھ شاہ میں نوجوان فداحسین گدارو کی ایک بھنگوار قوم کے نوجوان سے دوستی تھی اور دونوں دوستوں کی گاڑھی چھن رہی تھی کہ اس دوران بھنگواروں کی ایک لڑکی پر کاری کا الزام لگا اور اس کے کارے کے بارے میں فداحسین گداروپر الزامعائد کیا گیا جبکہ فداحسین گدارو کے والد کا کہنا تھا کہ اس کا بیٹا بے قصور ہے۔

اس کے والد کے بیانیے کو بھنگوار قبیلے نے قبول نہیں کیا اوررواج کے مطابق بھنگواروں نے دو افراد کو نوجوان فداحسین گداروکو قتل کرنے کا ٹاسک دیا تاہم قسمت کی دیوی فداحسین پر مہربان تھی۔مذکورہ دونوں مسلح افراد فجر سے پہلے خفیہ اطلاع پر گدارو کے گھر جانے کی بجائے پرائمری اسکول کی چھت پر پہنچے جہاں کارے کا الزام تلے آیا ہوا فداحسین گدارواپنے دو رشتہ داروں کے ہمراہ سویاہواتھا ۔تاہم قاتلوں نے اس کو نہیں پہچانا اور اندھادھند فائرنگ کرکے شہمیر خان گدارو اور قادر بخش گدارو کو قتل کر دیا جبکہ اس دوران فائرنگ کی زد سے فداحسین بچ نکلا۔

اس واقعے کے بعد مقتولین کے ورثاء نے بھنگوار برادری کے سات افراد کے خلاف گپچانی پولیس اسٹیشن پر مقدمہ درج کرایا اور کیس سیشن ٹرائیل ہو گیا ۔بعد ازا ںسپریم کورٹ کی جانب سے ماڈل کریمنل کورٹ ون پہنچا جہاں گزشتہ دنوں پانچ ملزمان کو پھانسی کی سزا سنادی گئی جبکہ دوران مقدمہ ایک ملزم کی موت واقع ہوئی جب کہ ایک ملزم روپوش ہے ۔ ادھر اسی عدالت نے دو ملزمان عاشق زرداری اور واحدبخش زرداری کو ایک خاتون کے قتل پر عمر قید سزا سنائی مذکورہ دونوں مجرموں کا جرم ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنی رشتہ دار خاتون صبطاں کو فون پر بات کرنے پر قتل کیا تھا اس کا پس منظر بھی کاروکاری بتایا جاتا ہے۔ تاہم مذکورہ بالا دونوں مقدمات کے سلسلے میں یہ حقیقت ہے کہ کاروکاری کے لزام میں قتل ہونے والوں سے ہمدردی کی بجائے قاتلوں کو ہیروبناکر پیش کر نے کی روایت اب کم ہو رہی ہے۔

سندھ میں نئی نسل کے ذونوں میں یہ بات شدت سے زور پکڑ رہی ہے کہ کاروکاری کے اصل محرکات غیرت کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی ہیں اس بارے میں اب لوگ کاروکاری کی واردات کے بعد خصوصاـــ نوجوان نسل اس بات پر مکمل طور پر تقین کرنے کے لئے قطعا تیار نہیں ۔ اس سلسلے میں سابق رکن صوبائی اسمبلی سید امداد محمد شاہ مرحوم کاکہنا تھا کہ ان کے تجزیئے کے مطابق سندھ میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے پیچھے نوے فیصد جائیداد کے جھگڑے یا دیرینہ تنازعات ہوتے ہیں جنہیں کاروکاری کا نام دے کربے گناہوں کو موت کی وادی میں پہنچادیا جاتا ہے جبکہ اس بارے میں ایک نام ور سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ ان کے سامنے دوران سروس کاروکاری کے جتنے بھی کیس آئے ان میں تفتیش کے بعد نوے فیصد جھوٹے ثابت ہو ئے ۔ 

تاہم اب کاروکاری کے مقدمات میں زناکے بارے میں اسلام کے قانون شہادت کا اطلاق نہ گزیر ہے جس میں زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کے مقدمے میں چار عینی شاہدین کی شرط لازمی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ فوجداری قوانین میں بھی اس کا اطلاق کیا جائے اور جھوٹ ثابت ہو نے پر الزام لگانے والوں کو سزائے عمر قید اور بھاری جرمانے کا قانون بنایاجائے تاکہ معاشرے میں کاروکاری کے نام پر قتل و غارت گری کرنے والو ں کی مکمل طور سے بیخ کنی کی جاسکے۔

تازہ ترین
تازہ ترین