• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور میں امراضِ دل کے اسپتال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں افسوسناک واقعہ پیش آیا اور اسپتال کے باہر کا علاقہ دیر تک میدانِ جنگ بنا رہا۔ یہ حادثہ ڈاکٹروں اور وکلا کی ایک پرانی چپقلش کا نتیجہ ہے، جس کے مطابق اس اسپتال میں وکلا اور طبی عملے کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، اس سلسلے میں وکلا کی طرف سے مقدمہ درج کرا کے 2ملازمین کو گرفتار کرایا گیا، وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا تو طبی عملے (ڈاکٹروں سمیت) نے بھی ہڑتال کر دی، ڈپٹی کمشنر لاہور کی مداخلت پر یہ تنازع ڈاکٹروں کی طرف سے معافی مانگنے پر ختم ہو گیا مگر پھر ایک ڈاکٹر کی سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل ہونے کے بعد وکلا کے ایک گروہ نے اسپتال کے باہر مظاہرہ کیا اور پھر اندر داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی، مریضوں اور طبی عملے میں بھگدڑ مچ گئی اور ایمرجنسی وارڈ کے شیشے بھی توڑ دیے گئے، اسپتال کے باہر آپس میں پتھراؤ بھی ہوا اور ڈنڈے بھی چلائے گئے، دِل کے مریضوں اور لواحقین نے باہر آکر پناہ لی، تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق 4سے 5ڈاکٹر زخمی ہوئے جبکہ 6آدمیوں کے علاوہ ایک مریضہ چل بسی اور باقیوں کی حالت غیر ہو گئی، پولیس کی آمد پر وکلا اور پولیس کے درمیان بھی میدان لگا اور آنسو گیس اور ڈنڈوں سے وکلا کو منتشر کیا گیا۔ وکلا یہاں سے واپس ضلع کچہری اور ہائیکورٹ گئے، جس کے بعد لوئر مال اور مال روڈ کی سڑکیں بند کرکے مظاہرہ شروع کر دیا۔ جھگڑے کی خبر نشر ہوتے اور اطلاع ملنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لے کر ہدایت کی کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، جبکہ سیکرٹری داخلہ نے صورتحال کے حوالے سے حکام کا اجلاس طلب کیا۔ حکومت کیلئے یہ کڑا امتحان ہے کہ نہ صرف حالات پر قابو پایا جائے، شہریوں کو تحفظ دیا جائے اور ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کو سخت سزا بھی دی جائے۔ پہلا مقدمہ اسپتال کے عملے کے ایک رکن کی جانب سے جو 50سے زائد وکیلوں کے خلاف قتل خطا، کارِ سرکار میں مداخلت، دہشت پھیلانے، فائرنگ، لوٹ مار، بلوہ، ہراساں کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا۔ اس میں لاہور بار کونسل کے نائب صدر، جنرل سیکرٹری اور دیگر وکلا کو نامزد کیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے درج کرائے جانے والے مقدمے میں پولیس وین کو جلانے اور پولیس پر حملے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے نقصان کی ابتدائی رپورٹ جاری کر دی ہے جس کے مطابق 10 کارڈیک مانیٹرز، 4ایکو مشینیں، 3وینٹی لیٹرز، 15 ٹیلیفون، داخلی اور خارجی دروازے، 2واک تھرو گیٹس، ایمرجنسی کائونٹرکو نقصان پہنچایا گیا۔ مصلحت پسندی ہمیشہ لاقانونیت کو جنم دیتی ہے، بدھ کو لاہور میں دل کے اسپتال میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ دسمبر کا مہینہ پاکستان کیلئے ستمگر مہینہ بن چکا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا، سانحہ APSپشاور اور اب پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا افسوسناک واقعہ جو کئی مریضوں کی موت کا سبب بنا۔ مشاہدے میں آرہا ہے کہ وکلا اور ڈاکٹرز بدامنی، مار پیٹ اور لاقانونیت کے واقعات میں اکثر ملوث پائے جاتے ہیں۔ معاشرے کے کچھ طبقات کی سینہ زوری کے ہر واقعہ پر قانون نافد کرنے کے ذمہ دار ریاستی اداروں نے صرفِ نظر سے کام لیا اور ہر بار قانونی تقاضوں کو پس پشت ڈالا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات کے ذمہ دار ادارے اور حکومتیں ہیں جنہوں نے قانون پر عمل کے بجائے مصلحت پسندی کی راہ نکالی، اس طرح قانون کے احترام کا چلن اور قانون کے نفاذ کی طاقت کا تصور محض ایک خیال بن کر رہ گیا اور یہ جو اب ہوا ہے، یہ بھی منفی نتائج سمیت مصلحت پسندی کی روش کا نتیجہ ہے۔ جس طرح سماج میں طاقتور محفوظ اور کمزور زیر دست ہے اسی طرح قانون نافد کرنے والے اداروں کا سارا زور بھی کمزور اور بے یارو مددگار طبقات پر ٹوٹتا ہے۔ دوسرا بحران ہمارا سماج جس کا سامنا کر رہا ہے، اخلاقی پستی کا ہے۔ بحیثیت انسان ہم اخلاقی ذمہ داریوں کو بھول چکے ہیں۔ اگر ایک دوسرے کا لحاظ اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام نہیں کریں گے تو یکجا اور مضبوط سماج کیسے بن سکتے ہیں۔ ہماری حکومتیں اور دانشمند طبقات سطحی مسائل میں کھوئے رہتے ہیں، ہمارے سماجی ڈھانچے کو دیمک لگ چکی ہے اس کا علاج کون کرے گا۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ یہ واقعہ اس کے دور میں ہوا۔ پنجاب حکومت 16ماہ سے کیا کر رہی ہے؟ جب سے یہ حکومت آئی ہے پنجاب میں تواتر سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ رینجرز کو بلوایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب حکومت فیل ہو چکی ہے اور اس نے اپنی نااہلی تسلیم کر لی ہے۔ گزشتہ 18ماہ میں پنجاب میں 3آئی جیز تبدیل کئے گئے مگر ابھی تک کوئی درست کام نہیں ہو سکا۔ اس پورے کیس کی انکوائری ہونی چاہئے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہئے۔

تازہ ترین